جد ید ذرائع کا جائز استعمال

کہا جاتا ہے ”ایجادات کی دنیا میں مغرب بہت آگے نکل چکا ہے “لیکن حیرت انگیز طور پر اہلیان مشرق بھی مغرب سے درآمد شدہ ٹیکنالوجی کو اسلام کے دیدہ زیب پیراہن میں سموتے ہوئے اہل مغرب اور مغرب زدہ ، بالفاظ دیگر ’جدت پسند طبقے کے ۔۔۔ لوگوں کو ششدر،حیران و انگشت بدنداں کرتے ہوئے ان سے بھی آگے نکل چکے ہیں ۔وہ بھی پریشان اس بات سے ہیں کہ ایجادات ہماری، لوگ ہمارے ، وقت ہمارا ، پیسہ ہمارا خرچ وبرباد ہوا اور نفع مسلمان حاصل کریں ! ہماری ان ایجادات کا اولین مقصد تو مسلمانوں کی آنے والی نئی نسلوں کو تباہی وبربادی کے تاریک اندھے اور گہرے کنویں میں منہ کے بل ڈالنے کا تھا۔

ملٹی میڈیا پروجیکٹر تو ہم نے بنایا تھا سینما حالوں کی زینت بڑھانے کے لیے ،خرافات کو فروغ دینے کے لیے ، بے ہودگی میں جدت پیدا کرنے کے لیے ، بقول ِ یاراں عوام کو تفریحی ماحول فراہم کرنے کے لیے ، ماحول میں بگاڑ پیدا کرنے والی ، فحاشی وعریانی کو عروج بخشتے بخشتے اوجِ ثریا تک پہنچانے والی ، اخلاق کو تنزلی کی راہ پر گامزن کرتے کرتے تحت الثریٰ تک لے جانے والی ، ساس بہو کے درمیان نفرت کے بیج بونے ہوالی ، جنت نظیر گھروں کو جہنم کا نمونہ بنانے والی آلودہ فلمیں سینما گھروں میں دکھانے کے لیے ۔

ایمانیات ، اخلاقیات معاشرت ،معیشت ، حیاء، ادب واحترام سے عاری اور سیرت وکردار کی دجھیاں بکھیرنے والی ویڈیوز دکھانے کے لیے پروجیکٹر صاحب کی ایجاد کی پلیننگ بنائی گئی تھی تاکہ مسلمانوں کی نئی نسل بے حیائی وبے ہودگی کی انتہائی سرحد عبور کر جائے اور ان میں ماں ، بہن ،بیٹی کی تمییز باقی نہ رہے ، والدین کا احترام ان کے رگ وریشہ سے ایسے نکلے جیساکہ ہماری اولاد کی حالت ِ زار ہے! جب ہم سن کبری میں پہنچتے ہیں ہماری اولاد ہمیں OLD HOUSE میں پھینک کر بوجھ کو اپنے سر سے پرے کردیتی ہے ۔اور اپنی عیاشیوں میں مست ومگن وحشی جانورں کی طرح زندگی بسر کرنے کے قوانین سے عاری ، کڑکتی دھوپ میں پگھلنے والے برف کے سیل کی مانند زندگی جیسے عظیم سرمایہ کو ضائع کرتے پھرتے ہیں اور MOTHER DAY & FATHER DAY کے نام پر سال میں ایک دن پھول کا ایک تحفہ ہمیں تھما کر والدین کے حقوق سے خود کو دستبردار سمجھتے ہیں۔

قربان جاؤں اسی آلودہ ملٹی میڈیا پروجیکٹر کو جب گنبدِ خضراءکی پُر کیف بہاروں کی جھلک دکھلائی گئی تو لبیک کہتے ہوئے اس نے بھی فلموں کے بجائے ”حج تربیتی پروگرامز“ ناظرین کی نظر کئے اور دین کے اہم رکن کی درست ادائیگی میں معاون و مددگار ثابت ہوا ۔ آخر مغرب سے درآمد شدہ پروجیکٹر پر کسی مرد ِ قلندر کی ،کی گئی محنت کارگر ثابت ہوئی اور لاکھوں فرزندانِ اسلام اس سے مستفید ہوئے اسی پروجیکٹر کو جب قرآن کی صحبت سے روشناس کروایا گیاتو جھوم کر اس نے ”قرآنی عربی کورس“ کا اجراءحیرت انگیز طریقے سے ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑتے ہوئے 95 فیصد قرآن کا ترجمہ سمجھانے کا عظیم الشان مظاہرہ سرانجام دیا۔

جب ایک بے حس چیز پر کی گئی محنت کارگر ثابت ہوسکتی ہے جس کے ذریعے لاکھوں انسان گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیلے جارہے تھے اس بے حس وحرکت الیکٹرونک چیز کااگر ُرخ چینج کرنے سے انہی لوگوں کی زندگیوں کو ہدایت کے نور سے منور کیا جاسکتا ہے تو انسان جسے اشرف المخلوقات کے طمغہ امتیاز سے نوازا گیا ہے اس پر کی گئی محنت کیوں کر بار آور ثابت نہیں ہوسکتی!اور اس کے علاوہ دیگر جدیدذرائع کے جائز استعمال سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچایا جاسکتاہے ؟ اور ان کی مضرتوں سے کس طرح مسلمانوں کو بچایا جاسکتا ہے ؟

جامعہ مسجد اصحاب صفہ میٹروول تھرڈ میںتقریبا دو ماہ قبل عشاءکی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا متصلا ً بعد نماز عشاء” قرآنی عربی کورس “ کا حیر ت انگیز کرشمہ دیکھ کرحیران ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ حیران کن بات اس کورس میں یہ ہے کہ بیک وقت اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ، مدرسہ کے طلباءبشمول عوام الناس کے بچے ،بڑے ، بوڑھے اور خواتین کے کے لیے یکساں مفید ۔عجیب وغریب طریقے سے تیار شدہ یہ کورس بذریعہ ملٹی میڈیا پروجیکٹر اور اشاروں کے ذریعے انتہائی تیز رفتار طریقے سے قرآنی عربی سیکھنے کا واحد اور جدید ترین ذریعہ ہے۔ یہ کورس جامعة الرشید کے اساتذہ مولانا ندیم الرشید صاحب اور مفتی رشیدا حمد صاحب کر وارہے تھے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ پروگرام حضرت مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب مدظلہ کی شب وروز انتھک محنتوں اور کاوشوں کا ثمرہ ہے۔

یقینا قابل قدر ہیں وہ ہستیاں جنہوں نے اس دین ِ حنیف کے واسطے لیل ونہار کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امت مسلمہ کی نوخیز نسل کی آبیاری کی خاطر ، انہیں ضلالت وگمراہی کے اندھیروں سے نکال کر قرآن کی ٹھنڈی روشنی میں لانے کی خاطر ، دنیا پرستی سے نکال کر خدا پرستی پر لانے کی خاطر اپنی تما م تر صلاحیتوں کو برئے کار لاتے ہوئے اپنی دن بھر کی مصروفیات کو ترک کیا ، اپنی راتوں کی نیندیں قربان کر کے خود کو مشقت میں ڈال کر اخلاص ومحبت ، دل سوزی وعاقبت اندیشی کے ساتھ ” قرآنی عربی کورس “ جدید وخوشنما انداز میں ترتیب دینے کا عظیم کارنامہ بطریق احسن سرانجام دیا۔یقینا مبارک باد کے مستحق ہیںوہ لوگ جنہوں نے اس پروگرام سے عوام الناس کو روشناس کروانے کے لیے پریزنٹر تیار کروائے جو یہ کورس اسکول ، کالج ، یونیورسٹی کسی مسجد ، مدرسہ ،محلہ ، گھر پر بھی کروانے کے لیے فری آف کوسٹ ہمہ وقت مستعد وتیار ہیں۔

کیا ہے کوئی دین کی تڑپ رکھنے والا ، قرآن سے انس ومحبت رکھنے والا، کلام الٰہی کو سمجھنے کے لیے کچھ وقت نکالنے والا ، تراشے گئے ان ہیروں سے فائدہ اٹھانے والا ، خود کو سنوارکر گھر ،محلے کے مکینوں کی فکر کرنے والا ، رب کائنات کے ان انمول چشموںسے فیض یاب ہونے والا ، اس عظیم نعمت کی قدر کرنے والا۔ آیت کا مفہوم ہے کہ ” اگر تم میری نعمتوںکی قدردانی کروگے تو تمہاری نعمتوں میں اضافہ کردوں گا اور اگر ناقدری کروگے تو اﷲ کا عذاب بڑا سخت ہے“!
Saleem Ahmed Usmani
About the Author: Saleem Ahmed Usmani Read More Articles by Saleem Ahmed Usmani: 24 Articles with 22105 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.