قدیم یونان کے عظیم فلاسفر سقراط
کے پاس اس کا ایک جاننے والا آیا ۔ اس نے سقراط سے کہا کیا تم جانتے ہو کہ
تمھارے ایک سٹوڈنٹ کے بارے میں میں نے کیا سنا ۔
سقراط نے کہا ایک لمحے کے لئے رکو ۔ اس سے پہلے کہ تم مجھے کچھ بتاؤ۔ میں
چاہتا ہوں کہ تم ایک ٹیسٹ پاس کرو ۔جس کا نام ٹرپل فلٹر ٹیسٹ ہے ۔
سقراط نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے تم مجھے میرے سٹوڈنٹ کے
متعلق بتاو۔ جو تم کہنا چاہتے ہو اس کو فلٹر کر لیتے ہیں ۔
پہلا فلٹر سچائی ہے ۔ کیا تمھیں کامل یقین ہے کہ جو تم مجھے بتانا چاہتے ہو
وہ سچ ہے ۔
نہیں : وہ شخص بولا حقیقت میں میں نے صرف سنا ہے ۔
ٹھیک : سقراط نے کہا کہ تم حقیقت میں یہ نہیں جانتے کہ وہ بات سچ ہے یا
نہیں ۔
سقراط نے کہا کہ اب ہم دوسرا فلٹر استعمال کرتے ہیں ۔ اچھائی کا فلٹر ۔
جو تم مجھے میرے سٹوڈنٹ کے بارے میں بتانا چاہتے ہو ۔ کیا وہ اچھی بات ہے ۔
نہیں: اس شخص نے جواب دیا ۔
سقراط نے کہا ۔ اس کا مطلب ہے کہ تم مجھے کوئی بری خبر سنانا چاہتے ہو ۔
حالانکہ تم اس کی سچائی کے بارے میں بھی یقین نہیں رکھتے ۔
سقراط نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تم اب بھی ٹیسٹ پاس کر سکتے ہو ۔کیونکہ
ابھی تیسرا فلٹر باقی ہے ۔ جو تم مجھے بتانا چاہتے ہو کیا وہ میرے لئے
فائدہ مند ہے ۔
نہیں : وہ شخص گویا ہوا ۔
سقراط نے کہا کہ کیا تم مجھے وہ بات بتانا چاہتے ہو جو سچ نہیں ، اچھی بھی
نہیں اور میرے لئے فائدہ مند بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنی روز مرہ معمولات زندگی میں کتنی ہی باتیں ا دھر
سے اُدھر بغیر تحقیق کئے پھیلا دیتے ہیں ۔ مگر کبھی یہ خیال نہیں کرتے کہ
جنہیں بتایا جا رہا ہے ان کے لئے اس کی افادیت کیا ہے ۔ کہیں گپ شپ اور وقت
گزاری کے لئے سنی سنائی باتوں میں قیمتی وقت ضائع تو نہیں کر رہے ۔جس کا
فائدہ نہ تو سننے والے کو ہوتا ہے اور نہ ہی سنانے والے کو ۔
فتنہ پرور لوگ نفرت کا بیج بونے کے لئے محبت کے رشتوں میں سنی سنائی اور
جھوٹی باتوں سے رخنہ ڈالتے ہیں ۔جنہیں سننے والے بغیر کسی حیل و حجت کے
قبولیت کی سند عطا کر دیتے ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کانوں تک پہنچنے والی بات کو فلٹر ٹیسٹ سے کشیدہ
کر لیں۔ تاکہ بات کی حقیقت سے زیادہ بات پہنچانے کی نیت واضح ہو سکے ۔ جو
کہ اتنا مشکل اور دشوار ہر گز نہیں ہے ۔ لیکن سچائی جاننے سے زیادہ فکر اس
بات کی ہوتی ہے کہ کس نے کیا کہا ۔چاہے ہمیں اس کا کوئی فائدہ نہ ہو ۔
یہ ایک عمومی رویہ ہے جو ہم اپنی دانست میں بہتری کی نیت سے پروان چڑھاتے
ہیں ۔سنانے والے الفاظ کا سہارا لیتے ہیں ، سننے والے کانوں کا۔ مگر تحقیق
کے چند بول بولنے سے کمزور پڑ جاتے ہیں ۔
سقراط جس دور کا فلاسفر تھا وہاں جہالت کی تاریکی زیادہ تھی ۔وہ قرآنی
تعلیمات کے روشن باب کا دور نہیں تھا ۔مگر معاشرتی و اخلاقی اقدار پر اس کا
تجزیہ عملی فضیلت سے زیادہ حقیقت اشنائی کا سبق دیتا ہے ۔
آج ہمیں کسی سقراط کے حاصل کئے گئے نتائج سے اپنی زندگی کے معاملات کو ہم
آہنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیونکہ ہمارے پاس وہ پاک کتاب ہے کہ جس کے
ایک ایک حرف سے انسانیت کی بھلائی ، محبت کی پزیرائی اور حقیقت کی سچائی
ٹپکتی ہے ۔جسے پانے کی چاہت ہو اسے ہر آیت میں حکم خداوندی نظر آتا ہے ۔ جن
پر عمل پیرا ہونا فرض کی ادائیگی کا فرمان ثبت ہوتا ہے ۔
قرآن پاک کی آیات مخلوق خدا کے لئے ہیں ۔ مگر ان کی تلاش بعض مواقع پر ثابت
کرنے کے لئے کی جاتی ہیں ۔ان میں ہر بری بات سے منع کیا گیا ہے اور اچھائی
کی ترغیب دی گئی ہے ۔
وہ جسے چاہتا ہے حکمت( دانائی )عطا کرتا ہے ۔اور جسے حکمت دی گئی اسے بہت
بھلائی ملی ۔ " سورۃ البقرہ ۲۶۹
آج کل مختلف فورمز پر مذہبی مباحث میں قرآن و سنت پر علمیت کے علم اٹھائے
حکمت و دانائی سے محروم تفرقہ بازی میں پیش پیش نظر آتے ہیں ۔ نئی نسل کو
بحث و مباحث کے ذریعے قرآنی تعلیمات کا اصل مفہوم پہنچانے کے فرض منصبی کے
دعویٰ دار نظر آتے ہیں ۔
اللہ تبارک تعالٰی فرماتا ہے
وہی تو ہے جس نے آپ ﷺ پر کتاب نازل کی ۔ اس میں محکم ( پختہ ) آیتیں ہیں ۔
وہ کتاب کی اصل ہیں ۔اور دوسری وہ ہیں جن کے معنی میں اشتباہ ہے پس جن
لوگوں کے دلوں میں کجی ہے ۔ وہ اشتباہ والی کے پیچھے پڑتے ہیں ۔ فساد (
گمراہی) کی غرض سے اور اس کا ( غلط ) مطلب ڈھونڈنے کی غرض سے اور اس کا
مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔
سورۃ آل عمران ۷ |