امریکہ کا نشہ قوت

ایک دفعہ پھر دہشت گردی بھی اور زبردستی بھی اور ہزار توجیہات بھی کہ گناہ گار کو بے گناہ ثابت کیا جائے افغانستان میں 22 فروری کو قرآن مجید کی شہادت کے واقعے پر غم و غصے کی لہر اپنی پوری شدت سے چل ہی رہی تھی کہ ایک امریکی فوجی نے سولہ افغان شہریوں کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیا اور اس کا وحشی پن یہاں پر ختم نہیں ہوا بلکہ اس نے اِن معصوموں کی لاشوں کو آگ لگا دی۔ ان شہید کیے جانے والوں میں نو بچے اور عورتیں بھی شامل تھے ۔ امریکہ کے مطابق یہ ایک فوجی کا انفرادی فعل تھا تاہم کچھ گواہوں کے مطابق یہ ایک سے زیادہ امریکی فوجی تھے تعداد جو بھی تھی ۔ لیکن فعل اتنا قبیح ہے کہ انسانیت شرما جائے یہ صرف قندھار کے ضلع پنجوائی کے سولہ بے گناہ سوئے ہوئے شہری نہیں تھے کہ جن کے خلاف امریکی فوجی یا فوجیوں نے اپنی وحشت و بربریت کا اظہار کیا بلکہ یہ وہ خبثِ باطن ہے جو امریکہ انسانوں اور خاص کر مسلمانوں کے خلاف رکھتا ہے اس کی نظر میں نہ افغان نہ پاکستانی اور نہ ہی عراقی انسان کی تعریف پر پورا اترتے ہیں بلکہ یہ اعزاز صرف امریکیوں یا اُ س کے مغربی حواریوں کو حاصل ہے۔

امریکہ جو کہ پوری دنیا کا ٹھیکیدار بنا بیٹھا ہے وہ نہ صرف خود کو ملکوں کی جمہوریت کا ذمہ دار سمجھتا ہے بلکہ وہ اکیلا خود کو ہی انسانی حقوق کا علمبردار بھی گر دانتا ہے اور اس طرح کے واقعات میں ملوث اپنے شہریوں کو ہر ملک کے قانون سے بالاتر سمجھتا ہے دراصل یہ رویہ وہ خون ہے جو اُس کے منہ کو لگا ہوا ہے ۔ امریکہ اس خطے سے نکلنا کیو ں نہیں چاہتا کیونکہ ابھی اسکے مقاصدحاصل نہیں ہوئے ہیں اور اس نے اس خطے کے لوگوں کو اپنا غلام سمجھنا شرو ع کررکھاہے ۔ پاکستان اور افغانستان میں وہ مسلسل انسانی حقوق اور ملکی قوانین کی خلاف ورزیاں بڑے دھڑلے سے کر رہا ہے ۔2011 میں پہلے جس طرح اُس کے جاسوس ریمنڈڈیوس نے لاہور کی ایک مصروف سڑک پر خون کی ہولی کھیلی اور پھر جس طرح امریکہ اُس کو چھڑا کر لے گیا وہ واقعہ ابھی سب کو یاد ہے، ابھی اس واقعے کی گرد نہ بیٹھی تھی کہ ایبٹ آباد میں امریکی ہیلی کاپٹروں کی آمد یعنی پاکستانی سرحدوں کے سینکڑوں میل اندر تک آجانا اور کاروائی کرنا ایک اور دھونس تھی اس میں ہماری اپنی جو کمزوری تھی وہ اپنی جگہ لیکن امریکہ نے ہمارے ساتھ ایک مفتوح والا سلوک کیا کہ جس کے گھر پر جب چاہے حملہ کیا جائے۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کرکے بھی امریکہ نے اسی نخوت کا ثبو ت دیا اور پاکستانی مطالبے کے باوجود معافی مانگنے پر تیار نہ ہوا۔ اس وقت امریکہ خود کو جس قدر پوری دنیا کا مالک سمجھ رہا ہے اتنا ہی اس کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے اُس نے جس طرح خود کو ہر دہشت گردی کا لائسنس جاری کر رکھا ہے اور اپنے لیے ہر خون روا اور معاف سمجھ رکھا ہے وہی سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔ اپنے اس فوجی کو بھی جس نے اِن سولہ افغان شہریوں کی جان لی اُس نے دماغی مریض قرار دے دیا ہے اور اِسی مرض کو بہانہ بنا کر وہ یقینا اُسے بچانے کی کوشش کرے گا اور بچا لے گالیکن کیا وہ امریکی فوجی جنہوں نے افغانوں کی لاشوں کے اوپر پیشاب کرکے اپنی وحشت کا ثبوت دیا تھا وہ بھی ذہنی مریض تھے اور اگر ایسا تھا توکیا اُس کی پوری فوج ذہنی مریض ہے یا اُس کے ہوس ملک گیری نے اُسے ایسا بنا دیا ہے دونوں صورتوں میں ذمہ دار امریکی حکومت ہے اور کسی بھی صورت میں یہ کھلی دہشت گردی ہے ۔ اور اب جبکہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کی اور اس سال تئیس ہزار فوجیوں کو نکالنے کی بات کر رہا ہے تو ساتھ ہی ایران کے بارے میں شدت پسندانہ بیانات دے رہا ہے ایک سروے میں باسٹھ فیصد امریکیوں نے یہ رائے دی کہ اگر ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں تو اس پر حملہ کردینا چاہیے یعنی وہ امریکی عوام بھی قوت و طاقت کو صرف اپنا حق سمجھتے ہیں تاکہ دنیا بھر میں ان کی بدمعاشی قائم رہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن پر اُسے اعتراض ہے تاکہ پاکستان اُس کا دست نگر رہے۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات اس کو گوارا نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں ہونے والی امن کی ہر کوشش ناکام ہو جاتی ہے اور تصفیہ نہیں ہو پاتا ۔نیٹو سپلائی بند ہونے کے بعد خیبر پختونخواہ میں دہشت گرد حملوں کی شدت بھی معنی خیز ہے ورنہ امریکی امداد سے ہاتھ کھینچ لینے کے بعد طالبان کے پاس پاکستان مخالف حملوں کا کوئی جواز نہیں۔ دراصل یہ خود امریکہ کے حق میں بہتر ہے کہ اس خطے میں حالات بد سے بد تر رہیں اور وہ اپنی موجودگی کا کوئی بھونڈا جواز مہیا کرتا رہے اور اسی لیے وہ حالات کے بگاڑ کے لیے حتی الامکان کو شش میں مصروف ہے۔

امریکہ کی اِن تمام سازشوں کی کامیابی میں خود مسلمانوں کا قابلِ افسوس حد تک بزدلانہ اور مفاد پرستانہ رویہ بھی شامل ہے اگر مسلمان حکمران امریکی خوشنودی کی بجائے اپنے قومی اور ملی مفاد کو اہم رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اُس کا مقابلہ کر سکیں ۔تیل فراہم کرنے والے ممالک یہی فراہمی روک دیں تو اُس کی جنگیں خود بخود دم توڑ جائیں گی۔ مسلمانوں کے آپس کے اختلافات اسکی طاقت کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ جب تک مسلمان حکمران اپنی خودی نہ پہچان لیں اور ملکی مفادات کو ذاتی مفادات سے بالا تر نہ سمجھنے لگ جائیں امریکی حکمران تو حکمران اس کے دہشت پسند فوجی اسی طرح مسلمان شہریوں کا قتل عام کرتے رہیں گے چاہے وہ قندہار میںپنجوائی کے گھروں میں ہویا لاہور کی سڑکوں پر۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 512266 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.