پشاور کے علاقہ بڈھ بیر میں سفن
پولیس چوکی کے سامنے قبرستان میں ، جنازے کے دوران خودکش دھماکے کے نتیجہ
میں15افرادشہید اور 30 زخمی ہوگئے جبکہ نماز جنازہ میں شریک ڈپٹی سپیکر
خیبر پختونخوا اسمبلی خوشدل خان محفوظ رہے اتوار کوبڈھ بیر کے علاقہ ماما
خیل میں امن لشکر کے سربراہ کی اہلیہ کی نماز جنازہ کے 10منٹ بعد جب میت
کودفنانے کے لیے لے جایا جا رہا تھا تو دھماکہ ہو گیا ایس ایس پی پشاور کے
مطابق دھماکہ خودکش حملہ آور نے کیا کیونکہ دھماکہ کی جگہ پر کوئی گڑھا
نہیں پڑا ان کاکہنا تھاکہ خوشدل خان نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد روانہ ہو
چکے تھے کیونکہ نماز جنازہ مقررہ وقت سے 10 منٹ قبل ہی ادا کردی گئی تھی
دوسری جانب دھماکہ کی جگہ پر موٹر سائیکل کے ٹکڑے ملے ہیں جس سے یہ بھی
ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکے میں موٹر سائیکل استعمال کی گئی ہے ۔اے آئی جی شفقت
ملک نے بتایا کہ دھماکے میں 6 سے 8 کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا ہے
۔ وزیراطلاعات میاں افتخار حسین نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں بتایا کہ واقعہ
میں 10 افراد شہید اور 20 سے زائد زخمی ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنازے کھلی
جگہوں پر ادا کیے جاتے ہیں اور نماز جنازہ کے لیے وقت کا اعلان کیا جاتا ہے
اس لیے دہشت گردوں کے لیے ایسی تقریبات میں حملہ کرنا آسان ہوتا ہے اور
ایسی تقریبات کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ زخمیوں اور جاں
بحق افراد کی نعشوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں زخمیوں
میں سے اکثریت کی حالت تشویشناک ہے ۔ ہسپتال انتظامیہ نے 15افرادکے جاں بحق
ہونے اور 32 زخمیوں کی تصدیق کی ہے ۔زخمیوں میں سے اکثر کو سینے اور سر میں
زخم آئے ہیں جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری ، وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی
اور دیگراعلٰی حکومتی عہدیداروں نے خود کش حملہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی
ہے۔واقعے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان درہ آدم خیل نے قبول کرتے ہوئے
کہاہے کہ ڈپٹی اسپیکرخوشدل خان حملے کاہدف تھے ۔اب تک اس حملہ میں ہلاک
ہونے والوں کی تعداد ۱۷ تک پہنچ گئی ہے۔ یاد رہے اس واقعہ سے پہلے بھی
طالبان جنازوں پر حملے کر کے مسلمانان پاکستان کا بے دریغ خون بہا چکے ہیں۔
یہ امر شک اور شبہے سے بالا ہےکہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی
ہے اور پاکستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان عرصہ سے
دہشت گردوں کے حملوں کا شکار بنا ہوا ہے‘ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے
بہت سارے مالی و جانی نقصانات ہوئے ہیں‘ اور ترقی کے میدان میں ہم بہت
پیچھے رہ گئے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق دہشت گردی کے عمل کو کسی بھی مذہب یا
قوم کے ساتھ منسلک کرنا درست نہیں ہے۔
بے گناہ و معصوم شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود
کش حملوں کا ارتکاب کرنا اور ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، مسجدون
پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، مسلمانوں کے جنازوں پر حملے کرنا
، اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، کسی بھی عذر، بہانے یا وجہ سے ایسے عمل کی
اسلام ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ یہ فتنہ پروری اور شرعی لحاظ سے محاربت و
بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض ہے۔ طالبان انسانیت کے دشمن
ہیں جو بے گناہ لوگوں کوقتل کررہے ہیں۔ قران حکیم میں آیا ہے: ’’جس نے کسی
شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق)
قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘)
المائدة، 5 : 32)
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جنگ کی حالت میں بھی غیر
فوجی عناصر کو قتل نہ کیا جاوے۔ جنازوں پر حملے کر کے مسلمانان پاکستان کا
بے دریغ قتل عام رسول اکرم صلعم کے بیان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسلام کے
نام پر بننے والا پاکستان، دہشتستان بن گیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ
ہماری جنگ ہے کسی اور کی نہیں؟۔ دہشت گردوں نے ہمارے ملک کو جہنم بنا دیا۔
۳۵ ہزار سے زیادہ لوگ مرگئے ۔ سرمایہ اور ذہانتیں ہمارے ملک سے ہجرت کر
گئیں۔ کاروبار اجڑ گئے۔ بازاروں اور شہروں کی رونقیں ہم سے جدا ہوگئیں۔ عام
پاکستانی کا دن کا چین اور رات کا سکون غارت ہوا اور ہم سب حیرت و یاس کی
تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔کب تک ہم شتر مرغ کی طرح ان روز روشن حقائق سے
آنکھیں چراتے رہیں گے؟
طالبان دہشت گردوں کو صرف پاکستانی مسلمان بہن ،بھائیوں کے خون بہانے میں
مزہ آتا ہے اور ان کے ہاتھوں نہ تو تعلیمی ادارے محفوظ ہیں نہ ہسپتال ،مساجد
اور نہ ہی بررگوں کے مزارات و خانقاہیں اور یہ ہے طالبان کا اصل نام نہاد
جہاد۔ طالبان کے اعمال اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ۔ طالبان اسلام کا عظیم
نام بدنام کر رہے ہیں۔ یہ نہ تو انسان ہیں اور نہ ہی مسلمانوں والے نام
رکھنے کے باوجود، مسلمان ۔
یہ وہ گروہ ہیں جو دائرہ اسلام سے اپنی غیر اسلامی حرکات کی وجہ سے خارج
متصور ہونگے۔ طالبان کا یہ کیسا جہاد جو کہ اللہ کی راہ میں نہ ہے بلکہ
بدلہ لینے کے لئے کیا جارہا ہے طالبان صرف مسلمانوں کو ہی مار رہے ہیں۔
طالبان اسلامی نظام نافذ کرنے کے دعویدار ہیں مگردن رات قرآنی احکامات و
شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان شعائر و احکامات کی دھچیاں بکھیرتے ہیں۔
طالبان کی ان حرکات سے غیر مسلموں کا اسلام کی طرف رجحان اور مائل ہونا
کافی حد تک متاثر ہوا ہے اور وہ اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ان حالات کی
وجہ سے طالبان اور ان کے حمائیتوں کو معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ اسلام کی
کوئی خدمت نہ کر رہے ہیں بلکہ اسلام کے ماتھے کا بدنما داغ ہیں۔ ان کے
حمائتی اور علمائے اکرام کیوں خاموش ہیں؟ کیا طالبان کو اپنی موت یاد نہ ہے؟
پاکستانیوں کا عبادت کے لئے مساجد میں جانا ،طالبان کے حملوں کے خوف کی وجہ
سے پہلے ہی بندہو گیا ہے ،اب لوگ جنازوں میں شرکت کرنےسے بھی کتارنے لگیں
گے۔ جنازوں میں شرکت کرنے کا مقصد ، مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کرنا اور موت
کو یاد رکھنا ہوتا ہے۔ مرحوم کے لواحقین و اعزا و اقارب سے تعزیت کر نا
ہوتا ہے اور ہمدردی کا اظہار کر نا ہوتا ہے اور یہ سنت ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم خود بھی لوگوں کے ہاں جا کر تعزیت فرمایا کرتے تھےاور ان کو
صبر کی تلقین کرتے تھے۔ فقہاء کے نزدیک فرض نماز جماعت سے ادا کر نا سنت
موکدہ ہے تاہم متعداد احادیث میں نماز با جماعت کی تاکید اور فضیلت کے بیان
اندازہ ہو تا ہے کہ یہ ایسی سنت ہے جسے بلاعذر ترک کر نا بد نصیبی ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حق
المسلم علی المسلم خمس:رد السلام،وعیادۃ المریض،واتباع الجنائز، وإجابۃ
الدعوۃ، وتشمیت العاطس (صحیح بخاری:۱۲۴۰ )
’’مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ سلام کا جواب دینا، مریض کی
عیادت کرنا، جنازہ کے لئے جانا، دعوت قبول کرنا، چھینک کا جواب دینا۔‘‘
طالبان جنازون پر حملے کر کے لوگوں کو اسلامی شعائر کی ادائیگی سے روک رہے
ہیں۔
اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور اسلام اپنے ماننے والے کو تو امن دیتا ہی
ہے نہ ماننے والے کے لیے بھی ایسے ہی حق وحقوق رکھتا ہے اور ان کی جان و
مال و عزت کو عزیز جانتا ہے۔
طالبان دہشت گردوں کا ایک گروپ ہے جو نفاذ اسلام کی آڑ میں پبلک اور
پرائیویٹ املاک کو تباہ کررہا ہے اور بے گناہ اور معصوم عوام اور سرکاری
افسران کے قتل و غارت کا ارتکاب کر رہا ہے۔
اسلام خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ
گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہ آور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام
دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہ دوسروں کا مال لوٹنے اور
بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب سمجھتےہیں۔
قرآن حکیم نے ایک انسان کے قتل کو پوری نوع انسانی کو قتل کرنے کے مترادف
قرار دیا ہے ۔ بغیر کسی جرم کے لوگوں کو انتہائی سفاکانہ انداز میں موت کے
گھاٹ اتار دینا کسی بھی مذہب میں جائز نہیں سمجھا جاتا اور اسلام میں تو اس
کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا لیکن کچھ لوگ اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب
کرنے کے باوجود دہشت گردی کے ایسے مکرو اور گھناﺅنے کاموں میں ملوث ہیں جن
کا ارتکاب کرنے کے بارے میں کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔
القائدہ، جو کہ طالبان کے حامی و مددگار ہیں، کے لوگ کیسے سلفی ہیں جو اپنی
آنکھوں کے سامنے طالبا ن کے، اس طرح کے غیر شرعی اقدامات و مظالم ہوتے
ہوئے دیکھ رہے ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔طالبان دہشت گرد طاقت کے ذریعے
اسلام کا چہرہ مسخ کررہے ہیں۔
قبائلی روایات کے مطابق دشمنی بھی اصولوں کی محتاج ہے۔ مساجد و عبادتگاہوں
میں دشمنی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتااور نہ ہی مقامی باشندے ،خواہ ان کا تعلق
کسی بھی شعبہ زندگی اور مکتبہ فکر سے ہو، وہ کبھی غیر انسانی و گھناﺅنی
حرکت کا تصور کر سکتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان ملک دشمنی میں
اندھے ہوکر قبائلی کلچر کی روح کو بھی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اس سے
پیدا ہونے والے نقصانات و نتائج سے بے خبر ہیں۔ لاتوں کے یہ بھوت باتوں سے
نہیں مانیں گے ان کو بزور طاقت کے ہی کچلنا ہو گا۔
وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ
ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اُسکے لیے سخت
عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ النساء93) |