رنکل کماری16جنوری1992کو ایک
ہندو گھرانے میں پیدا ہوئی تھی،اس کا تعلق گھوٹگی کے علاقہ میرپور ماتھیلو
سے ہے،اس نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی علاقہ سے حاصل کی،2009میں اس نے میرپور
ماتھیلو کے مہران پبلک ہائی اسکول سے میٹرک کی تعلیم مکمل کی،اسے ابتدا سے
ہی اسلام کے مطالعہ کا شوق تھا،وہ ہمیشہ اسلامی کتب کا مطالعہ کیا کرتی
تھی،انہی اسلامی کتب نے رفتہ رفتہ اس کے اندر انقلاب بپا کردیا،اس نے
24فروری2012کو”خانقاہ عالیہ قادریہ بھرچونڈی شریف “میں میاں عبدالحئی کے
ہاتھ میں اسلام قبول کرلیا اور یوں وہ رنکل کماری سے ”فریال“بن گئی،اس کے
بعد اس نے ایک مسلمان نوجوان نوید شاہ سے شادی کرلی،شادی اس کی اپنی مرضی
سے ہوئی تھی،چنانچہ اس کا یہ عمل اس کے ہندو خاندان کے افراد کو ایک آنکھ
نہیں بھایا،انہوں نے اس کے اس اقدام کو اپنی ”عزت“پر”ڈرون حملہ“تصور
کیا،چونکہ یہ ان کی ناک کا مسئلہ تھا،اس لیے اس کے خاندان کے افراد اس پر
دوبارہ اپنے مذہب کی طرف پھرجانے کے لیے دباﺅ ڈالنے لگے، انہوں نے اسے جان
سے مار ڈالنے کی دھمکی بھی دی،لیکن اس کے پائے استقامت میں لرزش تک نہ
آسکی،یوں وہ ان کے دباﺅمیں نہیں آئی،وہ اپنے رب کے سچے مذہب پر ڈٹی رہی،جب
دباﺅ،دھمکی اور دھونس سے بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی تو انہوں نے اس کے
خلاف جھوٹا کیس دائر کرنے کی کوشش کی،چنانچہ اس کے ارب پتی ماموں راجیش
کمارنے اپنے اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس کو جھوٹے مقدمہ میں
پھنسادیا،اس کے ماموں کے پیپلز پارٹی کے اہم بندوں تک رسائی اور تعلقات
ہیں،یوں اس بے گناہ نو مسلمہ کے خلاف کیس دائر ہوگیا،پٹیشن میں یہ کہا گیا
کہ اس کو نوید شاہ نے اغوا کرکے اس سے زبردستی شادی رچالی ہے ،اس لیے ہماری
بیٹی ہمارے حوالہ کی جائے،اس کے بعد اسے انصاف کے لیے دَردَر ٹھوکریں کھانی
پڑیں، وہ کورٹ کچہری سے پولیس تھانے تک اِدھر اُدھردھکے کھاتی رہی،حالانکہ
وہ اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھ کرکراچی پریس کلب میں ببانگِ دہل کہہ چکی ہے کہ
اس نے پورے ہوش و حواس کے ساتھ اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے نوید شاہ سے
خود شادی کی ہے،اس کے اس جرم پراس کا میڈیاٹرائل کیا گیا ،ہیومن رائٹس کی
تنظیموں ،قوم پرست رہنماﺅں اور ہندوبرادری کی طرف سے طعن و تشنیع کا نشانہ
بنایا گیا،سیکولر صحافیوں نے بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالی،دردمند مسلمانوں
کی طرف سے لاکھ احتجاج اور خود اس کی فریاد و التجا کے باوجوداب وہ بے چاری
دارالامان (شیلٹر ہوم)میں لے جائی جاچکی ہے،وہ آخر تک حکام کی طرف سے
مینٹلی ٹارچر کرنے پرپاکستانیوں کو جھنجھوڑتی رہی کہ میں نے اسلام قبول
کرکے کوئی اتنا بڑا جرم نہیں کرلیااور یہی پوچھتی رہی کہ کیا پاکستان میں
اسلام قبول کرنا جرم ہے؟
اسی طرح آپ ”لتا کماری“کی کہانی بھی دیکھ لیں!یہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی حامل
ہے،اس نے بھی گزشتہ دنوں اسلام قبول کرلیا ہے،اب وہ ”لتا کماری“سے ڈاکٹر
حفصہ بن چکی ہے،اسے بھی اپنی برادری کی طرف سے ہراساں کیا جارہا تھا،یہ اسی
جرم کی پاداش میں کئی دنوں تک عدالتوں کے دَردَر اپنی جوتیاں چٹخانے کے بعد
اب وہ بھی زبردستی دارالامان منتقل کردی گئی ہے،ان دونوں کو اسلامی جمہوریہ
پاکستان کی ”اسلامی جمہوری حکومت“ کی جانب سے باعزت ملازمت،مناسب رہائش اور
تحفظ فراہم کرنے کے بجائے الٹاان دونوں کو ہراساں کیا گیا،جو کہ انتہائی
افسوسناک اور شرمناک عمل ہے،پرایوں کو چھوڑیئے !اپنوں نے ان کے ساتھ جو کیا
ہے، اس سے ہر دردمند پاکستانی کا سر شرم سے جھک گیا ہے ، ”آزاد عدلیہ“ نے
بھی اس موقع پر اندھے پن کا مظاہرہ کرکے انصاف کے ساتھ ایک انتہائی بے ہودہ
مذاق کیا،جب چند دن پہلے معصوم آمنہ کو اسکی فرنچ ماں کے حوالے کیا جارہا
تھا ،تب بھی وہ فلک شگاف چیخیں مارمارکر کہہ رہی تھی کہ اس نے اس کی کافر
ماں کے پاس نہیں جانا،لیکن کسی کے کان میں جون تک نہیں رینگی،اب ان دونوں
کو اسلام قبول کرنے کی اسلامی ملک میں جو سزا دی جارہی ہے،اس کی تاریخ میں
نظیر نہیں ملتی،اس کے برعکس دنیا کی سب سے بڑی سیکولر ریاست ہندوستان کی
انتہا پسند تنظیم شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے کو دیکھ لیں!جو زمانے کا
”ابوجہل“ہیں اور جن کا نام اسلام دشمنی کا ایک استعارہ ہے،جب ان کی پوتی
ڈاکٹرنیہاٹھاکرے نے اسلا م قبول کیا،تب اس پر انہوں نے بھی اتنا خطرناک
ردعمل نہیں کیا،کسی نے وہاں اس پرذہنی تشدد نہیں کیا،وہاں کے انتہائی متعصب
میڈیا نے اس کے خلاف اس طرح پروپیگنڈہ نہیں کیا،جس طرح ہم فریال اور ڈاکٹر
حفصہ کے ساتھ کررہے ہیں،اسی طرح آپ برطانوی صحافی یوآنے رڈلی(yvonne
ridley)کو دیکھ لیں،جنہوں نے افغانستان میں چند دن طالبان کے ساتھ بِتائے
اور پھر مسلمان ہوگئیں،جس پر پوری دنیا ورطہ حیرت میں پڑگئی،لیکن کسی نے ان
کے خلاف بھانچیں نہیں پھاڑیں،ٹونی بلیئر کی سالی نے بھی اسلام قبول
کیا،لیکن ان کااس طرح میڈیا ٹرائل نہیں کیاگیا،امریکی گلوکارہ مسلمان
ہوئی،اس کو کسی نے شیلٹر ہوم نہیں بھیجا،ہالی وُڈ اداکار بھی پچھلے دنوں
مشرف بہ اسلام ہوئے لیکن وہاں کسی نے ان سے تند و ترش سوالات نہیں کیے
،پچھلے سال 5000سے زائد پورپین مرد و خواتین بھی اسلام کے دائرہ میں
آئے،لیکن وہاں کسی نے ان کے خلاف گلا نہیں پھاڑا،لیکن پاکستان میں ایسا
کیوں ہے؟کیا یہاں اسلام قبول کرنا واقعی کوئی گناہ ہے؟ایسا تو
بھارت،برطانیہ اور کسی دوسرے ملک میں بھی نہیں ہوتا،انتہائی سینئر صحافیوں
تک نے اس معاملہ میں ڈس انفارمیشن کا سہارا لیا،حقائق کو یکسر بدل کر یہ
سوال کربیٹھے کہ کلاشنکوف کے سائے تلے اسلام قبول کروانا کیسا ہے؟ان کے ری
ایکشن کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے گویا واقعی فریال نے بہت بڑا اورناقابِل
ِمعافی جرم کرلیاہو،حالانکہ فریال بارہا کہہ چکی کہ اس نے اپنی مرضی سے با
ہوش و حواس شادی کی ہے،لیکن پھر بھی اس کے خلاف یہ میڈیا کمپین گہری سازش
نہیں تو اور کیا ہوسکتی ہے؟یہ پاکستان کے تمام ہی مسلمانوں کے ایک لمحہ
فکریہ ہے!
ان دونوں کے کیسزسے قطع نظر اگر آپ پاکستانی معاشرے کو ہی دیکھ لیں تو آپ
کو لگے گاکہ یہ صرف فریال اور ڈاکٹر حفصہ کی ہی کہانی نہیں،بلکہ یہاں دین
پرکامل عمل پیرا تعلیم یافتہ نوجوان،چار دیواری میں سمٹی باپردہ خاتون
اورمسجد کے ایک گوشہ میں لرزتے کانپتے بوڑھے تک آج اپنے معاشرے کے ظلم و
ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں،آج ہمارے ہی معاشرے میں شعائر ِاسلام کی پابندی
کرنے والے کو حقیر ترین مخلوق سمجھا جاتا ہے،آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
واقعی اسلام کا نام لینا جرم بنادیا گیا ہے،یہاں اسلام پر کما حقہ عمل کرنا
انگارہ ہاتھ میں لینے کے مترادف ہوگیاہے،شریعت ِ مطہرہ کے نفاذ کا نعرہ
لگانے والا میڈیا کے لعن طعن اورتنقید کا نشانہ بنتا ہے،جہاں یہ سب کچھ
ہوتا ہو،وہاں کے نقارخانوںمیں ان دو طوطیوں کی آواز کون سنے گا؟
ذرابتائیے !محسنِ پاکستان کی شخصیت کا جرم کیا تھا؟ اسی اسلام،عالمِ اسلام
اور پاکستان سے ہی محبت کی پاداش میں سپرد ِزنداں کردیے گئے،آپ امریکی
عقوبت خانہ میںکسی” محمد بن قاسم“ کو آواز دیتی پابندِ سلاسل عافیہ صدیقی
کو دیکھیں!اس کا جرم بھی یہی تھا کہ وہ اسلام سے بے تحاشا محبت کرتی تھی
اور وہ حافظہ قرآن تھی، ہم نے اسے بھی انسان نما درندوںکے ہاتھوںفروخت
کرڈالا،آپ لال مسجد میں راکھ بننے والی طالبات کو یاد کریں!ان کا جرم بھی
یہی تھا کہ وہ اپنے پیارے وطن میں اسلامی نظام نافذکرنا چاہتی
تھیں،دیکھیے!ان کا حشر کیا ہوا؟آپ سوات آپریشن کو ذرا یاد کیجیے!وہاں کے
مکینوں کے خلاف آپریشن کیوں کیا گیا؟وہ صرف یہی چاہتے تھے ناں کہ ان کے ملک
میں نظامِ عدل ریگولیٹ ہو،ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا؟جہادِ افغانستان
اور جہادِ کشمیر کے مجاہدین کل تک ہیرو تھے اور آج دہشت گرد ہوگئے،اس افغان
سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کا کیا قصور تھا ،صرف یہی کہ وہ ایک خالص اسلامی
مملکت کا نمائندہ تھا،جسے ہم نے خون آشام امریکی بھیڑیوں کے ہاتھوں میں
فروخت کرڈالا،یہ صرف چند ایک واقعات ہیں،اس کے علاوہ میڈیا کے ذریعے اسلامی
معاشرے کے خلاف جو جنگ لڑی جارہی ہے،وہ ایک الگ اور لامتناہی سلسلہ
ہے،تفصیل میں جائیں تو پھر حقائق کے اور دَر کھلتے جائیں گے۔
سچ تو یہ ہے کہ آج پاکستان کے مسلمانوں سے ان کا اسلامی تشخص،اسلامی شناخت
اور پہچان سلب کرنےکی ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے ساتھ سازش جاری ہے، و
ہ پاکستان جو صرف اور صرف اسلام کے قلعہ کے طور پر وجود میں آیا تھا،جس کے
لیے لاکھوں فرزندانِ توحید نے اپنی جانیں نچھاور کیں،جو آج بھی عالم ِ
اسلام کی امیدوں کا محور و مرکز ہے،اس میںتو دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے،لیکن آج یہاں قانون سازی سے لے
کران کے نفاذ تک جو کچھ بھی ہورہا ہے ،وہ اکثر سراسر اسلام سے متصادم
،مخالف اور متضادہورہاہے،یہاں مخصوص لابیزاس کی اسلامی شناخت کو مٹانے پر
تُلی ہوئی ہیں،پارلیمنٹ میں اس کا نام ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ سے بدل کر
”عوامی جمہوریہ پاکستان“رکھنے اوروزارتِ عظمی اورصدارتی امیدوار کے لیے
مسلمان ہونے کی شرط کے خاتمہ کے لیے قرردادبھی پیش کی جاچکی ہے،اسلام کی
حالت یہاں اس بوڑھے باپ جیسی ہوتی جارہی ہے، جسے اس کے بچے ”ایکسپائر“قرار
دے کر گھر سے باہر فٹ پاتھ پہ بٹھادیتے ہیں،یہاں سیکولر لابیز،طاغوتی
طاقتیں اور سامراجی قوتیں منظم پلاننگ کے ساتھ اسلام کو دیس نکالا دینا
چاہتی ہیں۔
لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رہے!سیکولر ازم کے علمبردار لاکھ کوشش کرلیں،ان کا
”سیکولر پاکستان“ کا خواب کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوگا،یہ پاکستان ”لاالہ
الااللہ “کے نعرے پر حاصل کیا گیا ہے،اس کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا
خون موجزن ہے،یہ مملکت ِخداداد شہیدوں کی امانت ہے،انہوں نے خدا کے دین کی
خاطر قربانیاں دی ہیں،ان کو خدا اَکارت جانے نہیں دے گا،اس کی اساس بھی
اسلام ہے اور منزل بھی،راہِ عمل بھی شریعت ِ محمدیہ ہے اور نظام ِ عمل
بھی!اسلام نہیں تو کچھ بھی نہیں،اسلام اس ریاستِ خداداد کا لاحقہ ہے،اس سے
اس کی یہ شناخت کوئی نہیں چھین سکتا،یہ قوم لوڈشیڈنگ،مہنگائی اور بدامنی کو
سہہ جاتی ہے ، لیکن اپنے دین،مذہب اور شریعت کی خاطریہ کوئی کمپرومائز نہیں
کرتی،دنیا کی کوئی طاقت نہیں ،جو اس سے یہ تشخص سلب کرسکے اور جویہاں
اسلامی نظام کی راہ میں رکاوٹ بنے یا اپنی دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرے گا،اس
کا انجام بھی عبرت ناک ہوگا ،آپ سلمان تاثیراور شہباز بھٹی جیسے دریدہ دہن
لوگوں کا انجام بھی دیکھ لیں!،وہ کس ٹریجڈی کا شکار ہوئے؟یہ قوم اسلام کی
خاطر ہردکھ،تکلیف اور مصیبت کو جھیلنے کو ہمہ وقت تیار ہے اوریہ قوم
پاکستان میںاپنی آخری سانس تک اسلام کی خاطر جدوجہدکرتی رہے گی،کیونکہ یہ
ایک خدا کے ماننے والے ہیں اور اسی کی خاطرجیتے، لڑتے اور مرتے ہیں،یہ خدا
کی جنگ ہے اور اس کے مدِ مقابل آنے والوں کو نوید ہو کہ دنیا کی پوری تاریخ
گواہ ہے کی آج تک خدا سے کوئی نہیں جیت سکا ....! |