مسخ شدہ لاشیں

بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں ایک قابل افسوس امر ہے جس نے پورے ملک میں بے چینی کی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ کراچی میں بوری بند لاشوں نے خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے اس شہر میں تو گلیوں اور سڑکوں پر سر عام لاشیں گرادی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی معیشت بھی دم آخر کی مریض لگنے لگتی ہے۔ خیبر پختون خواہ میں تو لاشوں کا شمار نہیں بم دھماکے ، ڈرون حملے ، جنازوں پر حملے، جرگوں میں دھماکے، جلی ہوئی لاشیں, اڑے ہوئے اعضا قیامت کا ہی منظر ہوتا ہے ۔ محفوظ پنجاب بھی نہیں مون مارکیٹ میں جلے ہوئے انسانی بدن اب بھی نظروں کے سامنے آتے ہیں ۔لالکڑتی راولپنڈی میں بسوں سے انسانی جسم اس حالت میں نکلے کہ قابل شناخت نہ تھے۔ ملک عزیز پچھلے دس سالوں سے انہی حالات سے گزر رہا ہے اور ہسپتال تک محفوظ نہیں۔ کچھ دن دھماکہ نہ ہو تو خوش ہونے کی بجائے دل لرزنا شروع کر دیتا ہے کہ یہ خاموشی کس طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ بم دھماکے کے بعد جسموں اور لاشوں کا حال ناقابل بیان ہوتا ہے لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے والے بھی قابل رحم بنا دئیے جاتے ہیں اور ایک ثابت شدہ دہشت گرد کے حق میں بھی کئی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں اور انہیں ایجنسیوں کے مظالم کا شکار قرار دیا جانے لگتا ہے یہ عدالتوں میں ناکافی ثبوتوں کی بنا پر بری کر دئیے جاتے ہیں اور ہلاک شدگان کے لواحقین صرف سرد آہ بھر کر رہ جاتے ہیں۔ ان کے لیے نہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بولتی ہیں نہ میڈیا پروگرام کرتا ہے ، نہ بھوک ہڑتالیں ہوتی ہیں نہ دھرنے دئیے جاتے ہیں کیونکہ اِن تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کی جانوں کی وہ قیمت وصول نہیں کی جا سکتی ،انسانی حقوق کے نام پر شہرت کا بھی کوئی چانس نہیں ہوتا جو دوسری صورت میں ہوتا ہے لہٰذا وہ بے نام و نشان رہ جاتے ہیں۔

بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کا الزام بڑے و ثوق کے ساتھ ایجنسیوں پر ڈال دیا جاتا ہے اور دیگر سارے مجرموں اور گناہ گاروں کی پردہ پوشی ہو جاتی ہے ۔ ہر لاپتہ فرد کا اغوا کنندہ بھی یہی ایجنسیاں قرار دے دی جاتی ہے اور وہی فوج اور وہی آئی ایس آئی جن پر قوم کو فخر ہوتا تھا بڑے منظم انداز میں قابل نفرت بنائی جا رہی ہیں بیرونی یا اندرونی ہر قسم کے دشمن کا ایجنڈا بڑے آرام سے پورا ہورہا ہے ۔ میری ملاقات چند ایسی خواتین سے ہوئی جن کے شوہر یا بیٹے دہشت گردی کی نذر ہو کر شہید ہو چکے ہیں اور ان کا یہ گلہ بالکل بجا ہے کہ وہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں کیا اتنا کہہ دینا اُنکے دکھوں کا مداوا ہو سکتا ہے کہ پورا ملک دہشت گردی کی زد میں ہے اور کسی ایک حملے کے ہلاک شد گان میں انکے پیارے بھی شامل تھے اور بس ۔ جب کہ دوسری طرف مشکوک افراد کی پشت پنا ہی کے لیے ہر ایک کمر بستہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ملک بھر میں اِن مسخ شدہ لاشوں کا مسئلہ درپیش نہیں اور کیا اسے حل کرنے کی ضرورت نہیں اوراِن ’’لاپتہ افراد‘‘ کے لواحقین کو کسی ہمدردی کی ضرورت نہیں جن کے پیارے کسی دھماکے میں ایسے لاپتہ ہو جاتے ہیں کہ دوبارہ ملنے کی کوئی اُمید نہیں رہتی اور ان کے حوالے ایک ایسی جلی ہوئی لاش کردی جاتی ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا یا چند اعضا کسی نام سے موسوم کرکے انہیں دے دئیے جاتے ہیں۔

دہشت گرد اگر پکڑے جاتے ہیں تو عدالت میں کوئی ایسا نظام کیوں موجود نہیں کہ انہیں ایسی سزائیں دی جائیں کہ کوئی اور ایسا کرنے کا سوچے بھی نہ۔ خود کش تو اپنی سزا کا خود انتخاب کر لیتا ہے لیکن منصوبہ سازوں کو کیوں تاحال کوئی سزا نہیں ملی۔ جہاں تک شرپسندوں مجرموں اور علیحدگی پسندوں کی بات ہے تو کیا دوسرے ممالک اپنے مجرموں کو انسانی حقوق کی بنیاد پر چھوڑ دیتے ہیں، کیا آزادی اور علیحدگی کی تحریکیں چلانے والے چند شرپسندوں کو پھولوں کے ہار پہناتے ہیں۔ جہاں تک لاپتہ افراد کا تعلق ہے ان کی بازیابی ضروری ہے اور اگر وہ مجرم ہیں تو ان کو قانون کے مطابق انتہائی سخت سزا دینا بھی ضروری ہے لیکن آسان حل یعنی ایجنسیوں کو ذمہ دار قرار دینے کی بجائے تحقیقات ہونا زیادہ ضروری ہیں۔ کیونکہ اگر یہ سارے گناہ گار نہیں تو سارے بے گناہ بھی نہیں اور جس کا جتنا گناہ اُس کی اتنی سزا کو قبول کر لینا چاہیے۔ہاں انہیں دیگر ممالک میں بھی تلاش کر لینا چاہیے اور دہشت گرد تنظیموں میں بھی ۔ یہ بھی دیکھا جائے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ بہت سارے خود کش بھی اسی فہرست میں شامل ہوں۔ اس مسئلے کا حل الزامات نہیں تحقیقات اور عدل و انصاف کا بہتر نظام اور پھر استعمال ہے۔ مسخ شدہ لاشوں کا مسئلہ بھی اگر حل کرنا ہے تو پھر یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ پولیس اور فوج بھی اس ملک کے شہریوں اور انسانوں پر مشتمل ہیں اور چوکوں، سڑکوں اور جنازوں میں مرنے والے بھی انسان بھی ہیں مسلمان بھی اور پاکستانی بھی ۔ ہر پہلو سے سوچیے اور پھر بتائیے کہ کیا یہ لوگ ہمدردی کے زیادہ حقدار نہیں اور کیا انہیں مارنے والے لائق سزا نہیں۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 550655 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.