کچھ عرصہ پہلےH E C کی جانب سے
اعلان کیا گیا کہ پاکستان میں غیر قانونی یونیورسٹیوں کا ایک جال پھیل رہا
ہے۔جو رجسٹر ڈ نہیں ہیں ۔اُن کو بند کیا جانا چاہئے۔اُن یونیورسٹیوں کی
تعداد 80کے قریب بتائی گئی۔جو پچھلے چند سالوں سے لاکھوں کی تعداد میں
ڈگریاں طالب علموں میں بانٹ چُکی ہے۔اور بہت سی جگہوں پر یہ کینسر سامنے
آرہے ہیں۔کہ گورنمنٹ جابز میں اُن یونیورسٹیز کی ڈگریوں کو تسلیم نہیں کیا
جا رہا ہے۔کیونکہ اُن کی ڈگریاں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔یہ وہ طالب علم ہیں ۔جن کو
گورنمنٹ سکیٹرز میں کہیں بھی داخلے نہیں ملے۔تو پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ میں
اُن کو سیلف فنانس کے رو پر داخلے مل گئے۔اور یہ لوگ اُس وقت کو کوس رہے
ہیں کہ پیسے بھی گئے اور کام بھی نہیں ہوا۔جس طرح نجی تعلیمی اداروں کی
حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔اُسی طرح گورنمنٹ اداروں سے لوگوں کا اعتماد اُٹھ
رہا ہے۔لیکن پھر پرائیویٹ اداروں کی رجسٹریشن کا مسئلہ آجاتا ہے۔کیونکہ مدت
پہلے گورنمنٹ نے پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کے لئے سکولز یونیورسٹز
اور کالجزکی منظوری دی۔مگر اُن سکولز اور کالجوں کے منتظمین نے رجسٹریشن کے
لئے کوئی کام نہیں کیا۔صرف پیسے بٹورنے کے لئے بیٹھ گئے۔اب اداروں کے کرتا
دھرتا سوچ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔کہ کیا کیا جائے۔کیونکہ گورنمنٹ کو رجسٹریشن
کی مد میں ایک بڑی رقم دینی ہے۔اور گورنمنٹ چاہتی ہے کہ سٹاف بھی اعلٰی
کوالیفائیڈ ہو ۔اور کوالٹی ایجوکیشن بھی دی جا رہی ہو۔بہت سے تعلیمی اداروں
کو بند کردیا گیاہے۔جا ایک بہترین قدم ہے۔
اب اگر دیکھا جائے تو پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم ایک کاروبار کی شکل اختیار
کر گئی ہے۔ جس کی وجہ سے کیریئر بلڈنگ ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔تعلیمی
اداروں کی مثالیں ہم اردگرد اپنے علاقے اور شہروں میں دیکھ سکتے ہیں۔جب ہم
ایک روزنامہ میں کام کررہے تھے۔تو مجھے سپیشل اسائمنٹ پرائیویٹ سکولوں پر
دی گئی تھی۔جس کے لئے میں نے پشاور کے گلبہار اور کوہاٹی کا علاقہ چُنا
تھا۔وہاں ایک گلی میں کئی کئی سکول قائم تھے۔تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔کہ
پرائیویٹ سکولز کتنی تعداد میں موجود ہیں۔اور اس وجہ سے معیار تعلیم کی کیا
صورتحال ہے۔
گورنمنٹ سکولوں میں تو میں نے خود دیکھا ہے۔کہ دوردرازعلاقوں میں تعینات
اساتذہ 15,15یا ہفتہ ہفتہ ڈیوٹی دیتے ہیں۔یعنی کہ ایک سکول میں 6اساتذہ
ہیں۔تو 3 اساتذہ ایک مہینے کی ڈیوٹی دیتے ہیں۔اور تین دوسرے مہینے ۔اور
تنخواہیں مفت میں سمیٹی جارہی ہیں۔ باری باری جہاں ڈیوٹیاں دی جا رہی ہوتو
وہاں تعلیم کی حالت آپ لوگ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ہمارے سیاسی رہنماؤں نے اپنے
علاقوں میں جہاں اپنے نالائق رشتہ دار اور خاندان والے دیکھے اُن کو پی ٹی
سی کی پوسٹ پر تعینات کر دیا۔آج اُن سے پوچھیں۔ پی ٹی سی کا مطلب نہیں آئے
گا۔اور 10سالوں سے وہ پی ٹی سی کے پوسٹ پر تعینات ہمارے مستقبل کر معماروں
سے کھیل رہے ہیں۔یہ موضوع کافی بڑا ہے۔مگر ہم اس کو آج پرائیویٹ سکولز کی
جانب موڑ لیتے ہیں۔پھر اگر موقع ملا تو دیگر عوامل کو چھیڑنے کی جسارت کریں
گے۔
باہر کی چمک دمک کی وجہ سے اندر کی حالت کا بخوبی جائزہ لگانا بہت مشکل
ہوتا ہے۔مگر اِن پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں جتنی حقوق کی خلاف ورزیاں
ہورہی ہیں۔اِن کے بارے میں پڑھ کر آپ لوگ سکتے میں آجائیں گے۔پہلے تو آپ
اساتذہ کی تنخواہوں کے بارے میں اندازہ لگائیں۔جتنی حق تلفی اِن کی ہورہی
ہے۔وہ طویل داستان ہے۔نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی بے روز گاری سے کون بے
خبر ہے۔سب کو معلوم ہے کہ بے روزگاری کی شرح کیا ہے۔پرائیویٹ سکول کے
مالکان کم سے کم تنخواہوں میں اساتذہ رکھتے ہیں۔اور اُن کو گدھوں کی طرح
استعمال کرنااپناقانونی حق سمجھتے ہیں۔کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کو بالکل بھول
ہی جاتے ہیں۔روزانہ آٹھ آٹھ پیریڈ اٹینڈ کرنا،کاپیاں چیک کرنا،امتحان کے
پرچے بنانا،پرچوں کو چیک کرنا۔اور دیگر ذمہ داریاں اُن کے فرائضوں میں شامل
ہے ۔اورتو۔اوراُن کو ذاتی کام بھی نمٹانے کو دیئے جاتے ہیں۔ اِن کی تنخواہ
حکومت پاکستان کی طرف سے Skilled Labovrمزدور کی تنخواہ سے بھی کم ہے۔سرکار
نے مزدور کی تنخواہ پہلے2500 مقرر کی تھی۔اب اس نئے بجٹ میں کم سے کم
تنخواہ 3000 روپے مقرر کی ہے۔مگر غیر سرکاری سکولوں میں ایک ہزار، پندرہ سو
یا اٹھارہ سو اس سے ذیادہ نہیں دیا جارہا ہے۔یہ بات صرف ایک دو سکولوں کی
نہیں ہے۔بلکہ ہر جگہ یہ صورتحال ہے۔اِن سکولوں کی مالکان سے بات ہوئی تو
انھوں نے رونا رویا کہ اساتذہ کی تعلیم کم ہے۔اس لئے ہم تنخواہیں بھی کم
دیتے ہیں۔تو ایک طرح یہ لوگ دو جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ایک تو محنت کَش
کی حق تلفی اور دوسری غیر تعلیم یافتہ اساتذہ رکھنے کاجرم *
اس بارے میں حکومت خاموش ہے۔اور یہ صورتحال سارا سال جاری وساری رہتا ہے۔جب
تک حکومت اِن تعلیمی اداروں کے لئے کوئی لائحہ عمل نہیں بنائے گی۔اساتذہ کے
تعلیمی معیار ،تنخواہ کی کم از کم حد اور چھٹیوں کا تعین جیسے مسائل نمٹائے
نہیں جائیں گے۔تو مستقبل میں اِس کا خطرناک نتیجہ برآمد ہوگا۔گورنمنٹ نے
پرائیویٹ اداروں کے حوالے سے کاغذات کالے کئے۔مگر پرائیویٹ تعلیمی اداروں
کے مالکان حکومت کے بات نہیں مانتے۔وہ ایک نصاب اور چھٹیوں کے بارے میں
حکومت کے احکامات کی دھجیاں بکیھر رہے ہیں۔یاتو اِن اداروں کو بند کیا
جائے۔یا پھر کوئی لائحہ عمل بنایا جائے۔ایک طرف تو اساتذہ کی حق تلفی کا
سلسلہ رک جائے گا۔اور مستقبل بھی طلباء وطالبات کا محفوظ ہو جائے
گا۔تنخواہوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو چھٹیاں بھی نہیں دی جا رہی ہیں۔ایک الگ
مسئلہ ہے۔اگر بغیر وجہ کی چھٹی کی تو تنخواہ سے رقم کاٹی جاتی ہے۔بعض
سکولوں میں تو ایک ہی خاندان کے لوگ کام کر رہے ہیں۔کوئی اُستاد ہے تو کوئی
دوسری ڈیوٹی دے رہا ہے۔
ہماری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ پرایؤیٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی کے ساتھ
ساتھ مزکورہ مسائل کے حل کے لئے فوری اقدامات کئے جایءں۔اور جہاں جہاں بھی
تعلیمی نقائص پائے جارہے ہیں۔اُن کو دور کرنے کے لئے دیرپا منصوبہ بندی کی
جائے۔ تاکہ آئندہ نسل محرومی کا شکار نہ ہوں۔
مجھ کو غیر سرکاری سکولوں سے کوئی بیر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دُشمنی
ہے۔کیونکہ یہ بھی تعلیم کے فروغ کے لئے حکومت کا ہاتھ بٹارہے ہیں۔مگر
سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ ان کو ببھ پابند کیا جائے ۔کہ یہ بھی اُن
قوانین کا احترام کریں اور اُنھی قوانین پر عمل پیراہوں جن پر گورنمنٹ کے
سکول چل رہے ہیں۔تو یقیناً دور رس نتائج برامد ہونگے۔ |