شیطان کی بات ماننے کی سزا میں
آدم کو جنت بدر کیا گیا تو حوا اس کے ہمراہ نہیں تھی جو اس بات کا ثبوت ہے
کہ آدم کی سزا در اصل جنت بدری نہیں بلکہ حوا سے جدائی تھی اور آدم نے رب
کائنات سے رو روکر جنت مانگنے کی بجائے حوا کی طلب کرکے اس بات کو ثابت کیا
کہ حواکے بغیر آدم کچھ نہیں اور پھر جب اللہ نے حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا
کرکے آدم کی تنہائی کا رفیق بنایا تو آدم و حوا کے ملاپ کو نسل انسانی کی
افزائش کا سبب بناکر یہ ثابت کردیا کہ مردوعورت ایک دوسرے کیلئے لازم و
ملزوم ہیں مرد کے بناءعورت اور عورت بناءمرد نہ تو تخلیق کے مرحلے سے
گزرسکتے ہیں اور نہ فطری زندگی کے تقاضوں کو پورا کرسکتے ہیں اور پھر اللہ
نے نبی کریم ﷺ کو حضرت آمنہ کے بطن سے پیدا کرکے عورت کو ماں کا وہ درجہ
ومقام دیا جہاں اس کے پیروں تلے جنت کی بشارت دی گئی اور نبی کریم ﷺ کی
زوجیت میں موجود حضرت عائشہ کو میدان جنگ میں مشاورت ‘ حضرت خدیجہ کو
کاروباری شریک ‘ حضرت حفصہ کو گھر میں خدمت اور حضرت اُم سلمیٰ کو گواہی کی
ذمہ داری تفویض فرماکر زندگی کے ہر شعبہ میں اس کے کردار کو واضح کیا ۔
یہی نہیں بلکہ بیٹی بنایا تو حضرت فاطمة الزہرا کو جنت کی عورتوں کی سردار
قرار دےکر خواتین کے جنت میں جانے کی بشارت و گواہی دی اور میدان کربلا
میںرفقائے حسین میں سیدہ زینب کو شامل فرماکر عورت کو غازی ہونے کے رتبے سے
سرفراز کیا جبکہ دربار یزید میں سیدہ زینب کی فکر انگیز للکار نے عورت کی
جرات و اظہار کی بھی گواہی دی اور اسلام نے عورت کو ماں ‘ بیوی ‘ بیٹی اور
بہن چاروں روپ میں مثال بناکر پیش کرتے ہوئے اس کی حدود ‘ اس کے حقوق ‘
اسکے کردار ‘ اسکے رتبے اور اس کے احترام کی تشریح و تفسیر فرماتے ہوئے
ثابت کیا کہ عورت حسیات و جبلیات ‘ افعال واعمال ‘ کردار و اخلا ق اور
صلاحیت وجرات میں مرد سے کمتر نہیں بلکہ اللہ نے عورت کو نسل انسانی کی
افزائش کا سانچہ بناکراس کے پیروں تلے جنت کی بشارت اور مومنین کو تقویٰ کے
صلے میں جنت اور جنت میں بطور انعام ”حور “ کی شکل میں عورت دینے کا وعدہ
کرکے عورت کے درجات و کردار کو مرد سے بلند فرمایا ہے ۔
مگرافسوس کہ آج کے مسلمان ‘ دیندار ‘ پرہیز گار اور اہل ایمان کہلانے والے
اللہ کے فرمان ‘قرآن کے احکام اور نبی آخرالزماں کی تشریح و تفسیر کے مطابق
عورت کو اس کے حقوق اور معاشرے میں اس کا حقیقی رتبہ و درجہ دینے کی بجائے
بوجہل کی روش پر عمل پیرا ہیں اور جاہلان عرب کی طرح اپنے مفادات کیلئے ہر
سطح اور ہر مقام پرعورت کا استحصال کررہے ہیں۔
آج کے جدید معاشرے میں بھی پاکستان کی بدنصیب عورت گھر میں قیدیوں جیسی
زندگی گزارنے ‘ تشدد کا نشانہ بننے ‘ خواہشات کا گلہ گھونٹنے ‘ بچا کھچا
کھانے ‘ بیماری کو چھپانے اور لا علاج مرجانے پر مجبور ہے یا پھر جائیداد
بچانے کیلئے قرآن سے بیاہی جارہی ہے ‘ مردوں کے جرائم میں ان کی جان بچانے
کیلئے وَنی کی جارہی ہے یا پھر محبت اور اپنی مرضی کا شوہر چننے کی سزا میں
غیرت کے نام پر قتل کی جارہی ہے حالانکہ نبی نے ‘ قرآن نے اور اللہ نے واضح
طور پر فرمایا ہے کہ عورت کو اس کی مرضی و منشاءکا شوہر چننے کا پورا
اختیار ہے اور بیٹی یا بہن کواس کی مرضی کے خلاف نہ بیاہا جائے مگر کیا
کہئے تہذیب و تمدن کے ا ن رکھوالوں کا جو سیاست کے نام پر معاشرے سے مکر
اور فریب کررہے ہیں ‘ جھوٹے نعروں کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنارہے ہیں اور
وعدوں کے سہارے عوام کو خواب دکھاکر اپنے محل بنارہے ہیں یہ مکار ‘ دغا باز
اور جھوٹے عورت کو سیاست کیلئے استعمال تو کرتے ہیں ‘ اسے شوپیس کی طرح پیش
تو کرتے ہیں اور اس کے حقوق کی آواز کے ذریعے اپنا مفاد تو اٹھاتے ہیں مگر
اسے حقوق دینے پر تیار نہیں کیونکہ پاکستان کے فرسودہ جاگیردارانہ نظام میں
پنپنے والے یہ ناگ اور سنپولئے ‘ آستین کے ان سانپوں کی طرح ہیں جو دودھ
پلانے والے ہی کو ڈسا کرتے ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ عورت کے بطن سے پیدا ہونے ‘
عورت کا دودھ پی کر پلنے بڑھنے اور عورت کی قربانیوں کے ثمر میں تعلیم و
تربیت پاکر مقام حاصل کرنے والے یہ عاقبت نا اندیش عورت ہی کا استحصال
کررہے ہیں اور پاکستان کی شہری تعلیم یافتہ شہری عورت ملازمتی اداروں میں
کم تنخواہ ‘ کم مراعات ‘ ناکافی سہولیات ‘ زائد کام اور صنفی امتیاز کے
باعث استحصال سے دوچار ہے تو تعلیم سے محروم عورت گھر میں شوہر و سسرالیوں
کی خدمت میں خود کو وقف کردینے کے باوجود تشدد کا نشانہ بن رہی ہے ۔ دیہات
میں خواتین کو دینی اور دنیاوی دونوں ہی علوم سے محروم رکھ کر نہ صرف اس کی
دنیا بلکہ عاقبت بھی خراب کی جارہی ہے اور اسے نہ جان کا تحفظ حاصل ہے نہ
مال کا بلکہ پاکستان کی دیہاتی عورت تولباس اور خوراک تک سے محروم ہے اور
دوران زچگی غذائی قلت و خون کی کمی کے باعث خواتین کی ہلاکتوں کی شرح بہت
بلند ہے۔
آج کی عورت جو طب و جراحت ‘ سائنس و ٹیکنالوجی ‘ تجارت و صنعت ‘ معیشت و
معاشرت ‘ تعلیم و تحقیق ‘ میڈیا وشوبزنس ‘ فن و ثقافت ‘ خدمت و محنت اور
ذراعت و پیداوار میں اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ قانون و انصاف
اور سیاست و صحافت میں بھی نام و مقام بنارہی ہے مگر اس کے باوجود پاکستان
میں عورت استحصال کا شکار ہے کیونکہ معاشرے میں تبدیلی و اصلاح کا ذمہ و با
اختیار حکمران طبقہ در اصل جاگیردارانہ ذہنیت کا حامل ہے اور عورت کو پاؤں
کی جوتی قرار دینے والے اسلاف کی اولاد امریکہ سے پڑھ کر آئے ‘ لندن سے
تربیت پائے ‘ اس کا مقصد علم اصلاح وآگہی نہیں بلک اقتدار و اختیار کیلئے
حصول ڈگری ہوتا ہے اور علم کو اختیار کیلئے حاصل کرنے والے یہ لوگ جب
اقتدار میں آتے ہیں تو ”لڑاؤ اور حکومت کرو “ کے فرنگی فلسفے پر عمل کرنے
کے ساتھ ساتھ فرنگیوں کے اطاعت گزار اپنے اسلاف کے ”عورت پاؤں کی جوتی ہے “
کے مقولے کو بھی یادرکھتے ہیں اور اس جوتی کو اپنے پاؤں کی شوبھا بڑھانے
کیلئے ہی استعمال کرتے ہیں اس سے اپنی نسلوں کے مستقبل کو سنوارنے کا کام
نہیں لیتے ۔
ملکی ترقی کی رفتار تیز کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کو خوشحال بناکراس
خوشحالی کے ثمرات ہر خاندان ‘ ہر گھرانے اور ہر فرد تک پہنچانے کیلئے ضروری
ہے معاشرے سے فرسودہ و جاہلانہ رسومات کا خاتمہ کرکے پاکستان کی آبادی میں
52فیصد حصہ رکھنے والی خواتین کو آئینی طور پر سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی تحفظ
فراہم کرکے ان کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے استعمال کرنے کیلئے انہیں تمام
وسائل مہیا کئے جائیں اور یقین جانئے جس دن ایسا ہوگیا ‘ وہی دن پاکستانی
کی ترقی ‘ خوشحالی ‘ استحکام اور عالمی برادری میں عروج کا ”یوم آغاز “
ہوگا مگر جب تک اقتدارکے سنگھاسن پر فرسودہ رسوم رواج کے غلام بادشاہ اور
بادشاہ گر بنے بیٹھے ہیں ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا اسلئے پاکستان
میں معاشی ترقی کیلئے معاشرتی تبدیلی ناگزیر ہے اور معاشرتی تبدیلی کیلئے
پاکستان کے سیاسی نظام کووڈیروں ‘ لٹیروں ‘ جاگیرداروں اور استحصالی نظا م
کا تحفظ کرنے والے ان تمام سیاستدانوں سے نجات دلانی ضروری ہے جو طبقاتی
تضاد اور صنفی امتیاز کو ہی اپنی بقا کی ضمانت سمجھتے ہیں جبکہ بےنظیر بھٹو
کے بعد پیپلز پارٹی خواتین کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی عظیم خاتون سے
محروم ہوکر کرپشن میں ملوث مفاد پرستوں کا ایسا ٹولہ بن چکی ہے جس کا قتدار
اصلاح کی بجائے مزید بگاڑ پیدا کررہا ہے ‘ مسلم لیگ کے تمام دھڑے بنیادی
طور پر ان مفاد پرست جاگیرداروں پر مشتمل ہیں جو اپنی ذات میں خود کو خدا
اور مخلوق خدا کو اپنی رعایا جانتے ہیں اور جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں جس
کا چاہتے ہیں حق مارلیتے ہیں ‘ مذہبی قیادت کا کردار تو عورت کو جنسی تسکین
اور خدمت کرنے والی مخلوق کے ساتھ بچے پیدا کرنے والی مشین کے طور پر سب کے
سامنے ہے ‘ قوم پرستوں نے آج تک عورت کو اپنی جدوجہد میں ہی شریک بنانے کے
قابل نہیں سمجھا تو وہ عورت کو کیا حقوق دیں گے‘ خود کو لبرل کہلانے والی
عوامی نیشنل پارٹی سینیٹ میں تیسری بڑی پارٹی کے طور پر ابھرنے کے باوجود
آج تک کسی بھی عورت کو کسی بڑے عہدے پر نہ لاکر ثابت کررہی ہے کہ خواتین کے
بارے میں اس کا کیا نقطہ نظر ہے جبکہ شہری طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے
عورتوں کے بڑے بڑے جلسے منعقد کرانے والی جماعت یقینی طور پر خواتین کے
حقوق کا نعرہ تو لگاتی ہے مگر اس کے تنظیمی نظم و ضبط میں تو مرد خود بے
اختیار ہیں و ہ خواتین کو کس طرح بااختیار بنائے گی ۔
اسلئے توقع نہیں کہ پاکستان کی کوئی جماعت خواتین کو ان کے حقوق دے کر
پاکستان کی ترقی کی رفتار کو تیز بنائے ۔ ان حالات میں عمران خان کی قیادت
میں سونامی بن کر سامنے آنے والی تحریک انصاف نے اپنی لبرل پالیسی کے ذریعے
جہاں فرسودہ رسومات کے اسیر جاگیردار طبقے پر مشتمل مسلم لیگیوں کیلئے
مشکلات کھڑی کی ہیں وہیں نوجوان طبقے میں بڑھتی ہوئی تحریک انصاف کی
مقبولیت پیپلز پارٹی کے ایوانوں میں بھی کھلبلی مچارہی ہے ‘ عوامی نیشنل
پارٹی عمرا ن خان کی لبرل پالیسیوں سے خطرہ محسوس کررہی ہے تو مذہبی قیادت
عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہے ان حالات میں تحریک انصاف میں شعبہ خواتین
کا قیام اور اس کی فعالیت کے ساتھ ساتھ خواتین ونگ مختلف طبقات کی خواتین
تک رسائی ‘ ان سے رابطے ‘ ان کے مسائل و مصائب میں دلچسپی اور انہیں حل
کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف میں خواتین کے حوالے سے واضح پالیسی
اور اقتدار ملنے پر خواتین کو تمام حقوق کی فراہمی کو تحریک انصاف کے منشور
کی ترجیحات میں شمولیت اس بات کو ثابت کررہی ہے کہ تحریک انصاف ہی وہ جماعت
ہے جو حقیقی معنوں میں خواتین کےلئے کچھ کر گزرنے کا عزم و حوصلہ رکھتی ہے
اور خواتین نے اپنے ووٹوں کے اندارج کو یقینی بناکر اپنے حق رائے دہی کو
تحریک انصاف کو اعتماد بخشنے کیلئے استعمال کرکے پاکستان میں جاگیرطبقے سے
نجات کی بنیاد رکھ دی تو پھر یقینا تحریک انصاف پاکستانی خواتین کا اعتماد
ہی بحال نہیں کرے گی بلکہ عورت کے تشخص کا تحفظ اور اسے سیاسی ‘ سماجی ‘
معاشی ‘ صنعتی ‘ تجارتی ‘ ثقافتی ‘ طبی ‘تعلیمی ‘ تحقیقی ‘ قانونی ‘ عدالتی
‘ دفاعی اور عسکری میدانوں سمیت تمام تر شعبوں اور جہتوں میں مساوی
کرداروسہولیات فراہم کرکے عورتوں کو اپنی صلاحیتیں استعمال کرکے اپنی ذاتی
‘ گھریلو ‘ خاندانی اور سماجی و معاشرتی زندگی کو خوشحال م آسودہ اور
اطمینان بخش بناکر وطن عزیر کی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے میں ہر اول دستے
کے کردار کی ادائیگی کا موقع بھی دے گی اور اگرایکبار ایسا ہوگیا تو پھر
کوئی تاقیامت پاکستانی عورت سے اس کا تشخص و کردار نہیں چھین سکے گا اور اس
انقلاب کیلئے عورت کو صرف ایکبار حوصلہ کرنے اپنا ووٹ رجسٹر کرانے اور پھر
اپنے ووٹ کو یقینی طورپر استعمال کرتے ہوئے عمران خان اور تحریک انصاف کو
کامیاب بنانے کا چھوٹا سا کارنامہ انجام دینا ہوگا جس کے بعد بڑے بڑے
کارناموں کی روشن راہیں پاکستانی خواتین کیلئے خود بخود کھل جائیں گی ! |