تحریر : محمد اسلم لودھی
وطن عزیز پاکستان کو جہاں اللہ تعالٰی نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے وہاں
دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلاکرنے والے دماغ بھی عطا کئے ہیں ۔ اس کے باوجود
کہ ہم سیاسی اور انتظامی اعتبار سے ابھی تک قائداعظم ؒ اور نوابزادہ لیاقت
علی خان کے بعد ایسا دیانت دار ٬باصلاحیت اورپاکستانی قوم کے مفاد میں
بروقت فیصلے کرنے والا کوئی لیڈر پیدا نہیں کرسکے ۔ آج جب میں وطن عزیز کو
نسل در نسل مقروض ٬ بددیانتی اور کرپشن کی دلدل میں ڈوبا ہوا دیکھتا ہوں تو
مایوسیاں مجھے گھیر لیتی ہیں ۔ پاکستان سے پیار کرنے والے اور جانیں نچھاور
کرنے والے پس پردہ اور پاکستان دشمن طاقتیں صوبائی عصبیت کا سہارا لے کر
بہت تیزی سے اپنی طاقت میں اضافہ کررہی ہیں ۔ان بدترین حالات میں جب میں
اپنی نوجوان نسل کو دیکھتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے ۔ جہاں
مجھے ارفع کریم ٬ علی معین نوازش ٬ بابر اقبال٬ جیسے سینکڑوں نوجوان دکھائی
دیتے ہیں جن کی ذہانت کے چرچے دنیا بھر میں سنے جارہے ہیں۔ آج جبکہ ارفع
کریم ہمارے درمیان نہیں کیا ان کے ادھورے خواب کون پورے کرے گا جنہیں وہ
دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے دیکھاکرتی تھی۔ ارفع کریم پاکستان کا روشن ستارہ
تھیں اس نے نہایت کمسنی کے عالم میں ہی اپنی ذہانت کا لوہا غیروں سے منوایا
لیکن قدرت نے اس کو زیادہ مہلت نہیں دی ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ
پاکستانی حکمران جو مرنے کے بعد ارفع کریم کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے
تھے ان کو اس مرحومہ بچی کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کاخیال کب آئے گا
۔اداروں کے نام رکھنے اور ڈاک ٹکٹ جاری سے مقاصد پورے نہیں ہوتے ۔ ارفع
چاہتی تھی کہ پاکستان میں دیہاتوں کی سطح پر ایسے معیاری تعلیمی ادارے قائم
کئے جائیں جہاں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ آئی ٹی ٹیکنالوجی تک بھی دیہاتی
بچوں کی رسائی ممکن ہو ۔آج اگر ہم نے ترقی یافتہ اقوام کے ہم پلہ بننا ہے
تو تعلیم کے فرسودہ طریقہ کار اور نصاب کو تبدیل کرکے جدید ذریعہ تعلیم کو
اپنانا ہوگا جس کا خواب ارفع کریم نے دیکھا تھا۔مجھے اس بات کا اعتراف ہے
کہ وزیراعلٰی پنجاب میاں محمد شہبا ز شریف دانش سکول کے قیام ٬ سکولوں میں
آئی ٹی لیب اور ذہین طلبہ و طالبات میں سوا لاکھ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی
جستجو کرکے خود کو دور حاضر کا سرسید قرار دینے کی جستجو کررہے ہیں لیکن
وزیراعلٰی کی ان کاوشوں کو منزل قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ صوبہ پنجاب
میں ہی سینکڑوں سکول ایسے ہیں جوآج بھی عمارتوں کے بغیر قبرستانوں ٬ کھلے
میدانوں اور درختوں کے نیچے قائم ہیں جہاں عمارتیں موجود ہیں وہاں ٹیچرز
اورسہولتیں میسر نہیں ۔کچھ تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں جہاں بااثرافراد کی
بھینسیں باندھی جاتی ہیں۔آئی ٹی ٹیکنالوجی کی جدید تعلیم تو دور کی بات ہے
دور حاضر کے تعلیمی تقاضے بھی پورے نہیں ہو پارہے۔ ان حالات میں ارفع کریم
کا وہ خواب کون پورا کرے گا۔درحقیقت ہم مردہ پرست قوم ہیں زندہ انسانوں کی
قدر ہمارے نصیب میں نہیں لیکن جب کوئی قوم کامعمار دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے
تو چند دن تک اس کی تعریف کے پل باندھے جاتے ہیں پھر وہی روایتی سستی
اورلاپرواہی شروع ہوجاتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اندھا دھند لیپ ٹاپ
تقسیم کرنے کی بجائے یونین کونسل کی سطح پر سکولوں میں لیپ ٹاپ سے آراستہ
آئی ٹی لیب تعمیر کرکے ارفع کریم کے خوابوں کو تعبیر کی صورت دی جائے اور
پنجاب کی سطح پر ایسے ادارے قائم کئے جائیں جو ترقی یافتہ ممالک کی
ٹیکنالوجی ٬ فنی علوم ٬ ادب ٬ کلچر اور ثقافت کے لٹریچر کو اردو زبان میں
ترجمہ کرکے ان تک اپنے بچوں کی رسائی ممکن بنائی جائے۔کتاب اور کمیپوٹر سے
رشتہ مضبوط کرنے کے لیے یونین کونسل کی سطح پر آئی ٹی لیب اور ڈیجیٹل
لائبریریاں قائم کرنے کے لیے بھی ہرممکن اقدامات کرنے ہوں گے۔
جہاں دو قومی نظریے ٬ تحریک پاکستان کے اکابرین ٬ حضرت قائداعظم ؒ ٬ڈاکٹر
محمد اقبال ؒ ٬سمیت مسلمان دانشوروں ٬ وطن عزیز پر جانیں قربان کرنے والوں
کے کارناموں پر مشتمل کتابیں موجود ہوں جن سے ہر بچہ کچھ خرچ کئے بغیر
استفادہ کرسکے ۔میں سمجھتا ہوں ارفع کریم کا خواب بھی یہی تھا کہ دیہاتوں
میں رہنے والے بچوں کی رسائی آئی ٹی ٹیکنالوجی کی جدید تعلیم تک ممکن بنا
تے ہوئے بھارت کی سلی کون ویلی کی طرح ڈی جی کون ویلی بھی بنائی جائے ۔ارفع
کریم کے اس خواب کو پورا کرنے کا فریضہ میاں محمد شہباز شریف سے بہتر اور
کوئی انجا م نہیں دے سکتا کیونکہ وہ جس بات کی ٹھان لیتے ہیں پورا کرکے
چھوڑتے ہیں۔ |