مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے

ایک حساس پاکستانی نوجوان کے دردمند قلم سے لکھی گئی پاکستان کی محبت میں گندھی ایک تحریر....جسے پڑھ کر یقینا آپ کو بھی اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسو س ہوگا ....!

یومِ پاکستان23 مارچ کے حوالے سے ایک اہم اور خصوصی کالم

مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان نے تمھیں کیا دیا ہے؟جوابا میں مسکرادیتا ہوں اور ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ بتائیں پاکستان نے ہمیں کیا نہیں دیا؟جب میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ پاکستان ہی کی وجہ سے مجھے ایک الگ شناخت ،ایک الگ تشخص اور ایک پہچان ملی ہے اور مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے تو وہ میرے احساسات اور سنجیدہ باتو ں پر قہقہہ لگاتے ہیں اور میرے جذبات کو شاعرانہ بے وقوفیاں اورکتابی پیرائے”ڈکلیئر “کرتے ہیں،میں ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتا،کیونکہ مجھے تو اپنے اس پاکستان پر فخر ہے جو 27رمضان کی عظیم ترین رات کو صرف اور صرف کلمہ اسلام” لا الہ الااللہ“ کی خاطرسات لاکھ فرزندانِ توحید نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرکے حاصل کیاتھا،جس کے لیے متحدہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمان برسوں کوشاں رہے،یہ وطن جہاں برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی اُمنگ ہے ،وہیں رحمة للعالمینﷺ کا روحانی فیض بھی ہے ۔

آپ کو میری بات سے اختلاف ہوسکتا ہے کیونکہ ہم جس پاکستان میں جی رہے ہیں وہاں کا ہر نوجوان، ہر شہری اور ہر باشندہ اپنے ہی آشیانہ سے خائف ،بیزاراور متنفر ہے اور تو اور اس تیرہ بختی پر کون نہ روئے کہ آج اس کی بنیاد،اسکے قیام ونظریئے اور منزل مقصود پرسوچے سمجھے منصوبے کے تحت کنفیوژن ، شکوک اور شبہات پیدا کردیئے گئے ہیں،آج کا نوجوان جب پاکستان کو اور اسکے نظام ِحکومت کو تحریک آزادی سے منحرف دیکھتا ہے تو وہ یہی سوچتا ہے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کی بنیاد ایک کلمہ، ایک رسول اور ایک قرآن تھی؟ آج ان مقاصد سے قوم کو منحرف کے لیے ٹی وی ٹاک شوز میں بھاشن دیاجاتا ہے کہ پاکستان کوقائداعظم ایک سیکولر اسٹیٹ بناناچاہتے تھے، اس سلسلے میں باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہے،دوقومی نظریہ کی اہمیت کو اُس زمانے کے تمام علماء،مسلم سیاستدان او رہر وہ شخص جانتا تھا جس کو قدرت نے عقل ِسلیم سے نوازا تھا لیکن آج تقسیمِ ہند کو تاریخ کی سب سے بڑی غلطی (greatest historical blunder)گرداناجاتا ہے ،اس کی منزل تعلیماتِ اسلام تھی، جہاں انسانی مساوات اور اخلاقی اقدار کی حکمرانی ہونی تھی لیکن آج بد قسمتی سے یہاں انسانیت،غیرت اور اخلاق سے عاری لوگ اقتدار کی رسہ کشی میں شریک ہیں اور جو کبھی شریک سفر بھی نہ تھے ۔

میں جب اس ملک کو کٹتا،لٹتااور پٹتا دیکھتا ہوں تو میرے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے، میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ کیا ہمارے بزرگوں نے اس دیس کو اسی لیے حاصل کیا تھا ؟میں آج اپنی قوم کوایک ایسی تاریک راہ میں گم ہوتے دیکھتا ہوں جہاں روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی !مجھے لگتا ہے ہم ایک ایسی انجانی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں جس سے بچنے کا فی الحال کوئی راستہ نہیں !!

میں جب اپنے ملک کے نااہل حکمرانوں اور کرپٹ بیوروکریسی کو اس کی تجوریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا دیکھتا ہوں اور یہاں کی کالی بھیڑوں کو تقدیرِملت کو اپنے پنجہءخونیں سے نوچتے دیکھتا ہوں تو میرے ذہن کے اسکرین پر ایک فلم سی چلنی لگتی ہے !

اس لمحے مجھے برصغیر کے وہ عظیم بزرگ علامہ تھانوی یاد آتے ہیں،جنہیں رسولِ پاک ﷺ نے قیامِ پاکستان کی بشار ت دی تھی،مجھے ان کے وہ دومتوسلین بھی یاد آتے ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان کو استحکام بخشنے سے لے کر دستور ساز اسمبلی تک پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بنانے کی خاطر سعی کی،لیکن آخر تک ان کے عزائم متزلزل نہیں ہوئے،مجھے مولانا ابوالکلام آزادیاد آتے ہیں،جنہوں نے ابتدا میںتحریک ِ پاکستان کی مخالفت تو کی،لیکن جب پاکستان بن گیا تو اس کے قیام کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہا کہ پاکستان نہ بنتا تو اور بات تھی،لیکن اب جبکہ پاکستان معرضِ وجود میں آگیا ہے تواس پرایک آنچ تک آنا بھی پورے عالمِ اسلام کی توہین ہے،مجھے وہ مولانا مدنی بھی یاد آتے ہیں جو تحریک پاکستان کے کارواں کے راہرو تو نہیں بنے لیکن پاکستان کے بن جانے کے بعد سنہرے الفاظ میں پاکستان کے لیے نیک تمناﺅں کا اظہار کیااورپاکستان کو مسجد سے تشبیہ دیتے ہوئے کہاکہ مسجد بنانے کی جگہ پر اختلاف تو ہوسکتا ہے ،لیکن جب مسجد بن جائے تو اس کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے، وہ امام مودودی بھی یاد آتے ہیں جنہوں نے روزِ اول سے اس کے مقاصد کو جھٹلایا لیکن بعد میں وہ اسی مملکتِ خدادا میں اسلامی اقدار و تعلیمات کی نشرواشاعت کے کوشاں رہے،بانیِ پاکستان بھی مجھے بہت یاد آتے ہیں جب وہ دنیا کی پہلی اسلامی نوزائیدہ ریاست کے گورنرجنرل بنے تو انہوں نے اپنی ماہانہ تنخواہ ایک روپیہ مقرر کی ،حالانکہ وہ اُ س وقت متحدہ ہندوستان کے سب سے مہنگے بیرسٹر سمجھے جاتے تھے اور جن کی یومیہ فیس 1936میں 1500روپے تھی،مجھے وہ بے شمار گمنام شہدا یاد آتے ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ لُٹا کر ہمیں یہ وطن دلایا تھا،مجھے فرشتہ صفت شہید ِپاکستان حکیم محمد سعید یاد آتے ہیں جو ہندوستان سے اپنا سارا خاندان،کاروبار اور سب کچھ چھوڑ کر” مدینہ ثانی“ کی تلاش میں نکلے تھے اور پھر اپنے ہی لہو سے اس مدینہ ثانی کی پاک سرزمین کو سیراب کرگئے، مجھے معروف دانشور اشفاق احمد مرحوم بھی یاد آتے ہیں جو پاکستان کو صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے تشبیہ دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جس طرح حضر ت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے بدخواہوں کا انجام برا ہوا ،اسی طرح اس پاکستان کا بد خواہ بھی ذلیل موت مرے گا، مجھے محسن ِپاکستان ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی یاد بھی ستاتی ہے جنہوں نے اپنا سارا کچھ اپنے وطن کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے تج دیا پھرانتہائی ناگفتہ بہ حالت میں اپنے وطن کو عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنایااور جو آج اپنے وطن سے اسی محبت کی وجہ سے اپنوں سے بھی ملنے سے قاصر ہیں ،مجھے وہ بہادر جرنیل حمید گل بھی بہت یاد آتے ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیت کے ذریعے پاکستان کے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے،آج پوری دنیائے کفر ان کے پیچھے پڑی ہے لیکن وہ مردِقلندرآج بھی اپنے وطن کی سالمیت کی خاطر سڑکوں پر عوام کے ساتھ مارچ کرتا نظر آتا ہے ،مجھے وہ گمنام صوفی بھی یاد ہیں جو آج بھی یہ کہتے رہتے ہیں ان شاءاللہ پاکستان دنیا کاسب سے طاقتور ملک بنے گا اور اس کی ہاں اور ناں میں دنیا کے فیصلے ہونگے ،مجھے وہ بزرگ صحافی مجید نظامی بھی یاد آتے ہیں جو قیام پاکستان سے لیکر آج تک اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کے لئے ننگی تلوار بنے ہوئے ہیں اور نظریہ پاکستان کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں،مجھے سات سمندر پار مقیم وہ اَن گنت دردمند ،حساس دل اور محبِ وطن پاکستانی یاد آتے ہیں،جو ہرلمحہ،ہرآن اور ہر پَل اپنے ملک کے لیے بے چین،متفکر اور مضطرب ہوتے ہیں،جب بھی پاکستان پہ کوئی آفت ٹوٹ پڑتی ہے تو وہ جان گسل مراحل سے گذررہے ہوتے ہیں،پَل پَل ان کا بے قرار دل اپنے وطن کی سلامتی،ترقی اور عروج کے لیے بے کل رہتا ہے،جو اپنی دعاﺅں میں کبھی پاکستان کو نہیں بھولتے،میں ہندوستان کی اس بڑھیا کو کیسے بھول سکتا ہوں جو ہجرت کے وقت سکھوں کے ہتھے چڑھ گئی تھی،جو آج اپنے بیمار ہونے والے بچوں کو پاکستان کا نام لیکر دم کرتی اور خدا سے پاکستان کا واسطہ دے کر اپنی سلامتی کی دعا مانگتی ہے،مجھے دلی کے خیرو چچا اور ان کا بیٹا شرفو بھی یا دآتا ہے،وہ چچاخیرو جنہیں حرمین شریفین کی زیارت کے بعد پاکستان کودیکھنے کی آرزوکے علاوہ جینے کی اور کوئی تمنا نہیں اور وہ شرفو جس نے ہر ہولی اور دیوالی میں اپنے جوان بھائیوں کے خون سے متھرا کی سڑکوں کو سرخ ہوتے اور اپنی بہنوں کی عصمت کو تارتار ہوتے دیکھاہے اور جس نے اپنے سینے پر پاکستان سے محبت کے بے شمار تمغے سجا رکھے ہیں ،چچا خیرو اور ان کے خاندان کی طرح کاشی،ہردوار،بنارس اور متھرا کے بے شمار مسلمان جوانوں کو میں کیسے بھول سکتا ہوں؟جو آج بھی نام نہاد جمہوریت کے علمبرداروں کے دیس میں پاکستان کی آزادی کی قیمت چکارہے ہیں،مجھے وہ بڑے بوڑھے بھی یاد آتے ہیں جنہوں نے اسی پاکستان کی خاطرہجر کا دکھ ،فراق کا غم اور جدائی کا زخم سہا ہے،جنہوں نے اس ملک کو بنتے دیکھا،جنہوں نے اس کے بازو کو اس سے جُداہوتے دیکھا،اس میں اسلامی شناخت کو اُبھرتے اوپھر ڈوبتے دیکھا،لیکن آج بھی وہ ایک آس،ایک تمنا اور ایک امیدِ بہار لیے، جُھریوں زدہ چہروں پہ آنسو کی لڑیاں سجائے اورکپکپاتی ہتھیلیاں اٹھائے اپنے رب کے حضور پاکستان کی سلامتی اور عظمت و سربلندی کے لیے سوال کناں ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ یہی وہ فرشتہ صفت لوگ ہیں جن کی قربانیوں ،کوششوںاور لرزتے لبوں سے نکلنے والی دعاﺅں کی وجہ سے ہی پاکستان قائم و دائم ہے،اس کی طرف جو بھی میلی نظر اٹھے گی ،اس کا بد ترین انجام ہوگا، آپ اندرا گاندھی اور مجیب الرحمن کی مثال لے لیں!پاکستان کے یہ بد ترین بدخواہ کتنی بڑی ٹریجڈی کا شکار ہوئے۔

آج 64سال بِیت گئے،ہماری اس طویل اور تھکادینے والے سفر میں مسکراہٹیںبھی ہیں اور آہیں بھی....!ہماری تاریخ میں دین کی حُرمت اور وطن کے تحفظ و وقار پر قربان ہونے والی شخصیات بھی ہیں اور وطن کے لبوں سے مسکراہٹ نوچنے والے طاغوتی پنجے بھی....!کہیں ستمبر 1965کی مسرتیں ہیں تو کہیںدسمبر1971کے آنسو....!

آج ہمیں چاہیے کہ ہم اولوالعزمی کے سرمائے کو لے کرایسے خیالات اور کردار کو استوار کریں،جوزندہ قوموں کے وجود کا شاہد ہوں،ایسے عزائم کا عملی مظاہرہ کریں،جوہمیں تعمیر وترقی ا ورعروج و منزلت کی شاہراہ تک پہنچانے میں معاون ہوں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا نصب العین ، اپنی منزل اور اپنا قبلہ درست کرلیں،ہمیں آج بھی اسی فکر ،سوچ اور تصور کی ضرورت ہے جو 1940میں برصغیر کے مسلمانوں نے اپنایا تھا،قومی،صوبائی اور لسانی تعصبات کو مٹاکراپنے آپ کو مسلمان اور پاکستانی کہلانے پر فخر کریں،ایک اللہ،ایک رسول اور ایک قرآن کو اپنا نصب العین ٹھہراکراپنے مقاصد کے حصول کے لیے جُت جائیں،یہی پاکستان کی تعمیر و ترقی اور استحکام کی ضمانت ہے اور اسی میں ہماری بقا کا راز مضمر ہے۔

مایوس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں،یہ ملک ہمیشہ قائم رہے گا ، یہ ہمیشہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے،ابھی تو اس دیس کولا الہ الا اللہ کے نور سے منور ہونا ہے، اس کی بنیاد بھی اسلام ہے اور منزل بھی.... اب آپ ہی بتایئے!مجھے اس عظیم مملکتِ خداداد پر فخر کیوں نہ ہو؟مجھے کوئی ندامت نہیں ، کیونکہ ابھی سویرا ہونا باقی ہے۔
Muhammad Zahir Noorul Bashar
About the Author: Muhammad Zahir Noorul Bashar Read More Articles by Muhammad Zahir Noorul Bashar: 27 Articles with 28930 views I'm a Student media science .....
as a Student I write articles on current affairs in various websites and papers.
.. View More