ہر انسان ایک قدرتی فطرت پر
پیداہو تا ہے یعنی فطرت اسلام پر۔ انسان کی زندگی کے پہلے چار، پانچ سال اس
کی فطرت اور اس کے کردار کی تعمیر میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب
انسان ایک بچہ کی صورت میں معاشرے میں آنکھ کھولتا ہے تو مختلف قسم کی
شخصیات اس پر اپنی پرچھائیاں ڈالتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ انسان کی پہلی درسگاہ
ماں کی گود ہوتی ہے۔ جس میں اسے معاشرے کے نئے نئے رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اگر اقبال کے ذہن کی عکاسی کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ وہ بچہ شاہین کی مانند
ہوتا ہے تو درست ہوگا۔ ہر بچہ بہت سی منفرد صفات کا مالک ہوتا ہے۔ اگر اس
بچے کی پرورش ایک نئی اور پرعظم سوچ کے ساتھ کی جائے اور اسے اس کے ذہن کے
مطابق سہولیات فراہم کی جائیں تو وہ بچہ ایک نئے وجود کا مالک بنے گا۔ ایک
ایسا وجود جو معاشرے کی بنیادوں اور اسکے امن کا ضامن ہو گا۔ جس طرح شاھین
چست، وسیع نظر اور چاک و چوبند ہوتا ہے اسی طرح بچہ بھی ہوشیار اور بے خطر
ہوتا ہے۔ اسے کسی چیز کے اچھے ہونے یا بُرے ہونے کا علم معاشرے سے پہنچتا
ہے۔ وہ کچھ کو تو تسلیم کر لیتا ہے لیکن کچھ کو آزمالینے کے بعد تسلیم کرتا
ہے۔
خوراک کے ساتھ ساتھ انسان کو مختلف چیزیں بھی درکار ہوتی ہیں جس میں سب سے
اہم چیز اسکے والدین کی طرف سے ملنے والا پیار، توجہ اور اہمیت ہے۔ اگر یہ
تینوں چیزیں انسان کو صحیح معنوں میں درکار ہوں تو اس میں موجود صلاحیتیں
پروان چڑھتی ہیں۔ وگرنہ وہ دب کر رہ جاتی ہیں۔ اگر ان چیزوں سے انسان کو
محروم کر دیا جائے تو وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں
وہ ہمیشہ کیلئے ان افراد کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے جنہیں معاشرہ ہر
زمانے میں روندتا ہے۔ وہ معاشرے کی اصلاح کی بجائے اس میں برائی پھیلانے کے
جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ ایسے اشخاص زمانے میں موجود برائی کیخلاف قدم
اٹھانے یا ان کو روکنے سے بھی محروم رہتے ہیں۔
انسان کی پرورش جس ماحول کے اندر رہ کر کی جاتی ہے اسے ، اسے اپنانے میں
کوئی مشکل درکار نہیں ہوتی بلکہ وہ اسے آسانی سے تسلیم کر لیتا ہے۔ مشکلات
کا سامنا اسی وقت کرنے کو ملتا ہے جب وہ معاشرے سے ہٹ کر چلے۔ ہر انسان
اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہوتا ہے اور اسکے عمل کے نتیجے میں جو دوسرے لوگوں
کا رویہ ہوتا ہے۔ اس کا سامنا خاص طور پر اسی شخص کو کرنا پڑتا ہے اور
عموماً اس کا اثر معاشرے میں بھی لازمی طور پر پڑتا ہے۔ انسان کو اللہ پاک
نے عقل کی بناءپر اشرف المخلوقات کا درجہ دیا اسی بناءپر اسکے آگے دو راستے
کھول دئے۔ ایک اچھائی کا اور دوسرا برائی کا۔ اسے راستہ اختیار کرنے میں
آزادی دے دی اور اچھے یا برے راستے کی منزل اسی کی ذات کے ساتھ منسلک کر
دی۔ اگر وہ اچھائی کو اپنائے گا تو اس کے مطابق اپنے رب کی طرف سے انعام
پائے گا اور اگر برائی اختیار کرے گا تو اس کے مطابق سزا پائے گا۔ چونکہ
انسان فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اسی لےے جب کبھی وہ کوئی اچھا کام کرتا
ہے تو اسکے دل کو تسکین ملتی ہو، وہ اس کام کے نتیجہ میں خوشی محسوس کرتا
ہے اور جب کبھی وہ گناہ سرانجام دیتا ہے تو اس برائی کو کرنے سے پہلے بھی
اسے اس کا دل ضرور ملامت کرتا ہے اور بعد میں بھی اور اسے اپنے آپ ندامت
محسوس ہوتی ہے۔
حقیقتاً انسان کو جنت سے نکالا گیا تھا اور جنت سے زیادہ حسین وجمیل، پر
سکون اور روح افزاں مقام اور کوئی ہے ہی نہیں۔ چونکہ انسان جنت کی نعمتوں
سے ایک دفعہ لطف اندوز ہو چکا تھا اب دوبارہ جب تک اسے وہ مل نہیں جاتی تب
تک وہ اسی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ اسے روح افزاں مقا م ملے، راحت والی
چیزیں ملیں، تسکین دل حاصل ہو۔ انسان نادانی میں ان چیزوں کو دنیا ہی میں
تلاش کرتا ہے جس کی وجہ سے انسان نے دنیا میں ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ اسی
کی وجہ سے وہ برائی کے جرم کا ارتکاب کرتاہے۔
وقتی طور پر انسان کو کسی برائی میں لذت محسوس ہوتی ہے، جس کی تاثیر اسے
بہت نقصان پہنچاتی ہے۔ جس سے وہ بے خبر ہوتا ہے۔دل کی تسکین حاصل کرنے
کیلئے بڑے بڑے کام کرتا ہے اور بعض اوقات وہ اچھائی یا برائی کی پرواہ نہ
کیے بغیر بہت سے ایسے عمل کر جاتا ہے جس سے پورے کا پورا معاشرہ برائی کی
زد میں آجاتا ہے۔
اسکے برعکس جو انسان عقل سے کام لیتے ہوئے سمجھداری کا ثبوت قائم کرتے ہیں
اور دنیا میں ان تسکین دل اور راحت والی چیزوں ڈھونڈنے کی بجائے اپنی آخرت
کی منزل میں انہیں حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرتے ہیں وہی لوگ فلاح پانے والے
ہیں۔ کیونکہ اللہ پاک نے ان تمام چیزوں کا راستہ بتا دیا ہے کہ جنت کا
راستہ کونسا ہے اوردوزخ کا کونسا؟
چونکہ معاشرے کی اکائی فرد ہے اور افراد کی قوت کا نام معاشرہ ہے۔ اگر
انسان اچھا ئی کا راستہ اپناتا ہے تو بگڑے ہوے معاشرے میں سلجھاؤ پیدا ہو
گا۔اس کے نتیجے میں اس معاشرے میں پروان چڑھنے والی نسل بہت سی اچھی
صلاحیتیں کا مرکب بنے گی اور وہ اپنے معاشرے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے اور
دیگر ایریا کے اندر ترقی کا باعث بنے گی، جو کہ اپنے ملک کی ترقی میں بہت
اہم کردار ادا کرے گی۔ اسکے برعکس اگر انسان برائی کا راستہ اختیار کرتا ہے
تو اس سے معاشرہ تو متاثر ہو گا، لیکن اس کو روکنا باوی ہر انسان کا فر
بنتا ہے تاکہ وہ برائی پھیلنے سے بچ جائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کا رستہ چننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائےآمین- |