ہمیں امریکہ سے کئی شکایات ہیں
جو کہ بالکل بجا بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اسے مسلسل اپنے ملک میں دخل
اندازی کے مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں کبھی بغیر روک ٹوک اور تحقیق کے بے
شمار ویزے جاری کرکے ، کبھی بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ تنظیموں بلکہ دہشت
گردوں کو ملک میں رہنے کی اجازت دے کر اور یہاں تک کہ دہشت گردوں کو مارنے
کے نام پر ڈرون حملوں کی بھی۔ اس کے اعلیٰ حکام کے بے اندازہ دورے ایک اور
طریقہ ہے اور اِن کے برائے نام اعلیٰ حکام سے بھی ہمارے اعلیٰ ترین حکام کی
ملاقات بھی انتہائی ضروری گردانی جاتی ہے۔ فلاحی اداروں اور این جی اوز نے
ایک اور طوفان مچا رکھا ہے یعنی امریکہ ہزار حیلوں بہانوں سے ہمارے ملک،
معاشرے بلکہ ہماری حکومت میں داخل ہو چکا ہے ۔ رہی سہی کسر اسکے شاہانہ
سفارت خانے کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سفارت خانے کی سات
منزلہ عمارت ایک اچھی خاصی مشاہداتی چوکی (Observation Post) بننے کی پوری
اہلیت و صلاحیت رکھے گی اور سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعتراض کے
مطابق یہاں سے ایوان ہا ئے صدر و وزیراعظم دونوں میں نقل و حر کت بخوبی
دیکھی جا سکے گی ۔ سوال یہ ہے کہ سی ڈی اے نے اس تعمیر کی اجازت کیونکر دی
کیا اسلام آباد جیسے حساس شہر میں ہر ادارے کو حد سے زیادہ محتاط نہیں ہونا
چاہیے اور موجودہ حالات میں جہاں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات خاصے کشیدہ
ہیں اسی سال جنوری میں یہ اجازت کیسے دی گئی اور اسکے اس نقشے کو کیسے
منظور کر لیا گیا یہ وسیع و عریض سفارت خانہ 208418 مربع گزکے پلاٹ پر بن
رہا ہے اور اس کی عمارت 1734212 مربع فٹ پر محیط ہوگی۔ اسے جدید سہولیات سے
آراستہ کیا جائے گا ۔ایک رپورٹ کے مطابق اس میں ایٹمی مورچہ بھی تعمیر کیا
جائے گا۔ اس پر خرچے کا تخمینہ ایک ارب ڈالر ہے۔ اس کی تفصیلات جاننے کے
بعد ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا ہیڈکوارٹر تعمیر کیا جا رہا ہے
جس میں جنگی تعمیرات بھی شامل ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس نقشے اور ان سہولیات کی
وجہ سے باقی ممالک کے سفارت خانوں میں ہونے والی سرگرمیاں بھی مانیٹر کی جا
سکیں گی بلکہ چین تو اپنی تشویش کا اظہار بھی کر چکا ہے۔ سفارتی عملے کو
آرام دہ اور پر سکون ماحول مہیا کرنا ہر ملک کا سفارتی حق ہے لہٰذا اس پر
کسی کو اعتراض نہیں ہو نا چاہیے لیکن جب تعلقات نازک نوعیت کے ہوں اور ہوں
بھی پاکستان جیسے ایک چھوٹے، غریب اور ساتھ ہی تزویراتی لحاظ سے اہم ملک کے
دارلخلافے میں ایک طاقتور اور خود کو دیگر ممالک کی قسمت کا تو بالعموم
لیکن پاکستان کی قسمت کا بالخصوص مالک سمجھنے والے ملک امریکہ کا تو ظاہر
ہے کہ پاکستان کے عوام کو یقینا یہ پوچھنے کا حق ہے کہ انہیں یہ آسانیاں
کیوں فراہم کی جارہی ہیں ۔ کیا امریکہ کا پچھلا ریکارڈ ہمارے سامنے نہیں ہے۔
جس نے اپنی ضرورت کے وقت تو پاکستان کو مکمل طور پر استعمال کیا لیکن جب
بھی پاکستان کو اس کی ضرورت پڑی اس نے صرف اور صرف تاریخیں دیں اور وقت آنے
پر کسی بھی امداد سے معذوری ظاہر کی جسکی ایک مثال 1971 کا امریکی امدادی
بحری بیڑہ ہے جوتا حال پاکستان نہیں پہنچ سکا ہے۔ ہاں اسکے جاسوس جہاز
مسلسل پاکستانی فضاؤں کو روندئے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اپنے ٹارگٹ
کو مارتے ہیں اور بحفاظت واپس چلے جاتے ہیں۔
یہ بات تو قابل اعتراض ہے ہی کہ امریکہ ہمارے ملک میں ہر قسم کی مداخلت پر
آمادہ رہتا ہے یہاں تک کہ حکومتی پالیسیوں پر بھی اپنی رائے کا اظہار کرتا
رہتا ہے چاہے وہ یہ کہے کہ ’’یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے‘‘ لیکن اپنی
موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ بلوچستان کے مسئلے پر اُس نے جس ناروا اور
شرمناک رویے کا مظاہرہ کیا پاکستان کے ہر شہری کو اس پر شدید اعتراض ہوا
لیکن ان سارے حقائق کے باوجود یہ بات قابل غور ہے کہ اُسے یہ شہہ ہماری
کمزوری کی وجہ سے ملتی ہے اور یہ کمزوری عوام کی سطح پر نہیں بلکہ حکومتی
سطح پر ہے ۔ عوام تو باوجود اپنے بے شمار مسائل کے حکومتی پالیسیوں پر
اعتراض بھی کر لیتے ہیں اور اس پر نظرثانی کا مطالبہ بھی لیکن ڈھاک کے وہی
تین پات رہتے ہیں اور پالیسی میں کسی تبدیلی کے آثار تک نمایاں نہیں ہوتے
جب تک خود حکومت کے کرتا دھرتا متاثر نہ ہوں۔ پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی
ہے کہ ہر حکومت سب سے پہلے تو حکومت بچائو مہم پر رہتی ہے اور اس سے جو وقت
بچتا ہے اس میں ذاتی تشہرو ترویج کر لی جاتی ہے، ملک کی باری آتے آتے بہت
کچھ بگڑ چکا ہوتا ہے۔ سفارت خانے کی اس تعمیر جس پر بہت سے اندیشے اور
سوالات اٹھتے ہیں کو ابھی سے زیر غور رکھ کر اس پر کوئی ایکشن لے لینا
چاہیے تعمیر شروع ہوئی تو مکمل ہونے میں کچھ دیر نہیں لگے گی اور اگر یہ
عمارت تعمیر ہوگئی تو معاملات مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں جو کہ پہلے ہی کافی
گھمبیر ہیں ۔معاملہ ایک عمارت کی تعمیر کا بھی نہیں بلکہ اُس نیت اور عمل
کا ہے جو امریکہ ہر معاملے میں دکھا رہا ہے۔ سلالہ چیک پوسٹ کے معاملے پر
آج ہی یعنی 26 مارچ کو اس کا یہ بیان آیا ہے کہ غلطی امریکہ کی نہیں
پاکستان کی تھی اس لیے معافی نہیں مانگی جائے گی ۔ مستقبل میں ایسی کسی
دھونس سے بچنے کے لیے آج ہی پیش بندی کر لینی عقلمندی ہے۔ سی ڈی اے اس
معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور اگر وہ خود سے ایسا نہ کرے تو وفاقی
حکومت اسے ایسا کرنے کا حکم دے کیونکہ معاملہ قومی دلچسپی بلکہ امریکہ کے
کیس میں تو قومی سلامتی کا ہے اور قومی سلامتی بہر حال ہر چیز پر مقدم ہے۔ |