لیڈی ہیلتھ ورکرمجبور یا غموں سے چور

 تحریر ۔عقیل خان ۔آف جمبر

اسلام میں عورت کو عزت و احترام کی نگا ہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہی ہمارا قرآن کہتا ہے۔ویسے تو ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر ہم اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنے سے قاصر ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے عورت کو اعلیٰ مقام دیا ہے تو پھر ہمارے ناخدا انہیں کیوں ذلیل کراتے ہیں۔ اس طرح کی حقیقت ان لوگوں کی نظر جو ان عورتوں کو رسوا کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔

لیڈی ہیلتھ ورکر سارا دن گھر گھر جا کر عوام کی خدمت کرتی ہیں۔ جس وقت پولیوپلانے کا وقت آتا ہے تو پھر یہ بچاری لیڈی ہیلتھ ورکر کولرہاتھ میںاٹھائے گھر گھر جاتی ہیں اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو قطرے پلاتی ہیں۔ نہ گرمی دیکھتی ہیں اور نہ سردی ۔ اپنا فرض بخوبی سرانجام دیتی ہیں۔ ان کو نااپنے گھر کا خیال ہے کہ ان بچے سکول سے آئیں ہیں یا نہیں ؟ بچوں نے کھانا کھایا ہے کہ نہیں؟ اورنہ ہی اپنے کھانے کی فکر ۔

یہ تو بس اپنے قائد کا فرمان پوراکرتی نظرآتی ہیں کہ ” کام، کام اور بس کام“ اگر ان کا ٹائم ٹیبل دیکھیں تو صبح سے شام تک ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ہوتی ہے چاہے ایم بی بی ایس ڈاکٹر آئے یا نہ آئے، ڈسپنسر موجود ہویا نہ ہو۔آندھی ہے یا طوفان لیکن یہ اپنی ڈیوٹی باقاعدگی سے ادا کرتی ہیں۔جب حکومت پاکستان نے لیڈی ہیلتھ ورکروں کی بھرتی کی تو اس وقت تعلیم کا خاص معیار بھی نہیں تھا چند جماعت پڑھی ہوئی عورت کو بھرتی کر لیا جاتا تھا اب میٹر ک پاس کو بھرتی کیا جارہا ہے ۔ بھرتی کرتے وقت تو حکومت دل کھول کر اشتہار دے دیتی ہے کہ فلاں ہسپتال میں اتنی سیٹ ہیں اور فلاں میں اتنی۔۔ ۔

مگر اس وقت کیوں نہیں سوچتی کہ ان کے اخراجات کون برداشت کرے گا۔جب تو بھرتی کرلی جاتی ہے بعد میں ان بچاری لیڈی ہیلتھ ورکروں کو ذلیل کیا جاتا ہے۔پچھلے چھ چھ ماہ سے ان کو اب تنخواہ نہیں دی جارہی ہیں۔ یہ پورا ماہ کام کرتی ہیں اور جب تنخواہ لینے کا وقت آتا ہے تو ان کو ٹا ل دیا جاتا ہے۔پچھلے دنوں تو ان کو اپنے حق کے لیے چادر اور چار دیواری کی حد سے گزرنا پڑا اور اپنی تنخواہیں وصول کرنے کے لیے احتجاج کرتے ہوئے لاہور تک پہنچنا پڑا اوران کے احتجاج کرنے پر بجائے اس کے کہ حکومت پاکستان یا صوبائی حکومت ان کی تنخواہیں دیتی بلکہ ان پر سرعام ڈنڈے برسائے۔ اس وقت انتظامیہ یہ بھی بھول گئی کہ یہ عورت ذات ہے ا ور اسکا کیا مقام ہے ۔ پولیس کو تو بس مظاہرے پر ڈنڈے اور آنسو گیس برسانے کا شوق ہے ان کے سامنے خواہ کوئی بھی ہومردیا عورت۔

اگر حکومت کے پاس مستقبل کی کوئی پلاننگ نہیں تھی توپھر اتنی تعداد میں لیڈی ہیلتھ ورکربھرتی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

لیڈی ہیلتھ ورکروں میں زیادہ تر وہ خواتین بھرتی ہوتی ہیں جو بیوہ ہیں یا پھر ان کا کوئی سہارا نہیں۔ جس وقت یہ سسٹم شروع کیا تھا اس وقت تو حکومت ان کو صرف چند سو روپے دیکر کام لے لیتی تھی لیکن اب اس مہنگائی کے دور میں جب ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے تواس کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی تنخواہ میں بھی آٹے میں نمک کے برابراضافہ کردیا اور اب تقریباً سات ہزارکے لگ بھگ تنخواہ دی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تنخواہ بڑھا تودی مگر اس کابڑھانے کا فائدہ کیا ہوا کیونکہ جب کم تنخواہ تھی تو ہرماہ مل رہی تھی اور جب اضافہ کردیا تو اب کئی کئی ماہ سے تنخواہ نہیں دی جارہی اوران کو ذلیل کیا جارہا ہے۔

یہ غریب لیڈی ہیلتھ ورکرکدھر جائیں اور کس سے یہ اپنا حق مانگے؟ اس ملک میں تو سب اپنے پیٹ کے۔۔۔ ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسی لیڈی ہیلتھ ورکروں کو جانتا ہوں جن کا سارے کا سارا دارومدار ان کی اس تنخواہ پر ہوتا ہے۔ اوریہ تو میں اپنے واقفیت والوں کی بات کررہا ہوں اور پتا نہیں اس ملک میں کتنی ایسی لیڈی ہیلتھ ورکر ہونگی جو اس طرح کی زندگی گزاررہی ہونگی۔ ان کے حالات اس طرح کے ہوگئے جیسے انسان زندوں میں اور نہ مردوں میں۔ ان کے بچے سکول جانے سے مجبور، کھانا کھانے سے مجبورحتٰی کہ اپنے رشتے داروں کی خوشی اور غمی سے بھی دور ہوگئے کیونکہ نہ ان کے پاس پیسے ہونگے اور نہ وہ کسی کے ساتھ خوشی اور غمی میں شریک ہوسکیں گی۔

اے ملک کے خیر خواہو اور محکمہ صحت کے ناخداﺅ! خدارا ان بے بس اور مجبورلیڈی ہیلتھ ورکروں کا کیا قصور ؟ ان کے ساتھ تو ایسا سلوک نہ کرواور ان کاکچھ تو خیال کرو ۔ غر یب اور بے سہارا کی مدد کرنا تو ہر مسلمان پر فرض ہے اور تم تو ان سے محنت کرواکر بھی ان کی محنت کی کمائی نہیں دے رہے۔ اگر اس دنیا میں نہیں ڈرتے تو کم از کم آخرت کا ہی خیال کرلو اور ان کو ان کا حق ادا کردوتاکہ یہ بھی سکون کی زندگی گزار سکیں۔جس وقت ڈاکٹروں نے اپنی تنخواہیں بڑھانے کے لیے ہڑتال کی تو فوراً حکومت ایکشن میں آگئی اور تنخواہیں بڑھا کر ان خوش کردیا مگر ان بچاریوں کا کیا قصور ؟ یہ کم پڑھی لکھی ہیں اس لیے یا ان کی حیثیت ڈاکٹر کے برابر نہیں اس لیے۔ لیکن یہ یاد رہے ان کا کام ڈاکٹروں سے زیادہ بڑھ کر ہوتا ہے اور محنت طلب بھی-

اے پاکستان کے امیروں ! غریبوں اور بے سہاروں کا بھی خیال کرو ۔ صدا دن ایک سے نہیں رہتے اور اوپر والے کی لاٹھی بھی بے آواز ہے کیونکہ غریب کی آہ تو عرش کو بھی ہلا دیتی ہے۔(پی ایل آئی)
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.