بعض خصلتیں اتنی بری ہیں جوہر
معاشرے میں مذموم سمجھی جاتی ہیں اوران میں ملوث شخص کو ہر معاشرے والے گری
ہوئی نظر سے دیکھتے ہیں۔ خیانت بھی ایک ایسی ہی بری خصلت ہے جو کسی بھی
مذہب ومعاشرے میں پسند نہیں کی گئی، ہرجگہ اسے انتہائی ناپسندیدہ نگاہوں سے
دیکھا گیا ہے اور اسے بدترین جرم قراردیا گیا ہے اوراس جرم کی شناعت میں
مزید اضافہ اس وقت ہوجاتاہے جب یہ خیانت اجتماعی اموال میں کی جائے اور اسی
کو رائج عرف میں کرپشن کہاجاتاہے جو بدقسمتی سے ہمارے ملک کی تقدیر بن چکی
ہے، ہر صبح ایک نئی کرپشن کا انکشاف ہوتا ہے اور محب وطن اور ایمان دار اہل
وطن کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ہاں! اگر کسی کے کانوں پر جو ں نہیں رینگتی
تو وہ اس ملک کا برسراقتدار طبقہ ہے، اس طبقے میں سیاست داں بھی ہیں اور
نوکر شاہ بھی ، اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ کس سطح کے افسر ہیں، بہ ظاہر تو
اس حمام میں سب ہی ننگے نظرآتے ہیں، کرپشن ہر جگہ نمایاں ہے، زندگی کے ہر
شعبے پر اس کی چھاپ نظر آتی ہے ، ہر صاحب اختیار موقع ملتے ہی کرپشن کے
بہتے دریا میں ڈبکی لگا لیتا ہے۔ ساٹھ سال میں کتنی کرپشن ہوئی؟اور اس کسی
فہرست کامحفوظ ہونادورکی گزشتہ چندسالوں میں کرپشن نے جونئے نئے ریکارڈ
قائم کیے ہیں ان کی صرف ایک فہرست تیارکرنا بھی ایک طویل ترین کام ہے۔کرپشن
کی لعنت نے ہمارے ملک کی جڑوں کوکھوکھلاکردیاہے کوئی شعبہ زندگی ایسانہیں
بچا جواس کی زد میں آنے سے محفوظ ہ۔ ہرحکومت نے انتہائی بے دردی سے قوم کے
خزانے کو شیرمادر سمجھ کراپنی تجوریوں میں جمع کیا ہے اور جب ملکی حدود اس
خزانے کے لئے تنگ نظر آنے لگیں تو بیرون ملک بینکوں میں انہیں منتقل کرنے
کاسلسلہ شروع کیا گیاجو اب بھی جاری ہے۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس صورت حال پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے ؟میرے
خیال سے اس کا ایک حل تونظام تعلیم وتربیت سے تعلق رکھتا ہے اوروہ یہ ہے کہ
ملک کے ہر شہری کے لیے مذہب واَخلاق کی تعلیم لازمی قرار دی جائے اور دوران
تعلیم ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھلائی جائے کہ زندگی صرف اسی دنیا تک محدود
نہیں ہے، یہ تو ایک مختصر وقفہ ہے، اس کے بعد کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ،
جہاں ہر جرم کا حساب دیناہوگا اور اس کے مطابق سزا بھگتنی ہوگی، اخلاقی
تعلیم سے عاری اورمادیت کی چکاچوند روشنیوں کاگرویدہ ہمارا معاشرہ اسی وقت
سدھر سکتا ہے جب اسے بتلا یا جائے کہ کرپشن اوردیگرتمام خیانتیں صرف ایک
سماجی او رمعاشرتی گناہ ہی نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور مذہبی جرم بھی ہے،
میرے خیال سے دنیا کے مذاہب میں اسلام واحد مذہب ہے جس نے اس گناہ کی
ہولناکیوں سے انسانیت کو پوری طرح آگاہ کیا ہے، حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت
ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے آپ نے
مال غنیمت میں خیانت کا تذکرہ فرمایا اور اسے بہت بڑا جرم قرار دیتے ہوئے
فرمایا کہ قیامت کے روز میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کی
گردن پر بکری سوار ہو اور منمنارہی ہو، اس کے سر پر گھوڑا سوار ہو جو ہنہنا
رہا ہو او روہ مجھ سے فریاد کرے او رپکارے کہ اے اللہ کے رسول! میری فریاد
رسی کیجئے ، میں کہوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ کی (پکڑ سے ) تجھے بچانے کے
لیے کچھ نہیں کرسکتا ، میں نے تمہیں اللہ کا حکم پہنچا دیا تھا۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلامی معاشرے میں بھی اس وقت خیانت عام ہے ،
حکمراں سے لے کر عام آدمی تک ہر شخص گلے گلے بد دیانتی میں ڈوبا ہوا ہے ،
چھوٹی چھوٹی بدیانتیوں سے لے کر بڑے بڑے کرپشن کیسز ہر روز دیکھے جارہے ہیں
،بلکہ ہرروز ان میں اضافہ ہی ہورہاہے اورخاص طور سے بڑے پیمانے پر سرکاری
اور قومی خزانے لوٹ کراپنی جیبیں بھری جارہی ہیں ، یادرہے کہ خیانیت چاہے
چھوٹی ہو یا بڑی قیامت کے دن خائن کی گردن پر سوار ہوگی اور اس کے گلے کا
طوق بن کر دوزخ کی طرف گھسیٹے گی او رکہے گی میں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ
ہوں۔ آج وہ زمانہ آگیا ہے کہ خیانت ایک تجارت کی شکل اختیار کر گئی ہے اور
معاشرے سے اس کی سنگینی کا احساس جاتا رہا ہے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ
وسلم نے چودہ سو سال پہلے ہی یہ پیشین گوئی فرمادی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا
کہ لوگ اس کی پرواہ نہ کریں گے کہ ان کے پاس جو مال آیا ہے وہ حلال ہے یا
حرام۔( بخاری ،رقم الحدیث :2083)
اسلام نے کسب معاش کے لیے حلال وحرام اور جائز وناجائز کا جو معیار قائم
کیا ہے وہ کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر وحی الہی سے
ماخوذو مستفاد ہے، یہی وجہ ہے کہ اس میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی
زندگی کے تمام پہلوؤں کی رعایت کی گئی ہے۔ا س معیار پر عمل کرنے ہی میں
اقوام وملل کی فلاح مضمر ہے، اس میں شک نہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے مال کی
ضرورت ہے ، خواہ یہ مال کما کر حاصل کیا جائے یا مانگ کر یا کسی اور طریقے
سے۔ دنیا کی تمام قومیں اس حقیقت پر متفق ہیں کہ مال کے بغیر زندگی نہیں
گزاری جاسکتی ، مگر یہ مال کیسا ہو اور کس طرح حاصل کیا جائے؟ اس سلسلے میں
قرآن کریم کی دو بنیادی تعلیمات ہمارے مادیت پسند معاشرے اور افراد کے لیے
رہ نما بن سکتی ہیں۔ پہلی تعلیم یہ ہے کہ حلال اور پاک وطیب چیزیں کھاؤ اور
دوسری تعلیم یہ ہے کہ ایک دوسرے کا مال باطل اور ناحق طریقے پر مت کھاؤ۔
پہلی تعلیم کا ذکر متعدد قرآنی آیات میں موجود ہے۔ مثال کے طور پر فرمایا
:” اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے حلال اور پاک وطیب چیزیں کھاؤ اور شیطان
کی اتباع نہ کرو بلاشبہ وہ تمہارے لئے کھلا دشمن ہے“(البقرة: 168)۔اس آیت
میں خطاب عام ہے یعنی صرف مسلمانوں ہی کو اس کی تلقین نہیں کی گئی ہے، بلکہ
دنیا کے تمام لوگوں کو اس امر کی تاکید کی گئی ہے کہ وہ حلال اور پاک وطیب
چیزیں ہی کھایا کریں ، چونکہ قرآن کریم تمام انسانوں کی بھلائی کے لئے نازل
کیا گیا ہے، اس کے احکام سب کے لئے عام ہیں، اسی لیے خطاب عام لوگوں کو ہے
صرف مسلمانوں کو نہیں ہے، پھر حلال چیزوں کے استعمال کے حکم پر ہی اکتفا
نہیں کیا گیا بلکہ اسی سورت میں مختلف احکام بیان کرنے کے بعد اس حکم کو
دوسرے اسلوب میں اس طرح بیان کیا گیا :”اور مت کھاؤ مال ایک دوسرے کا آپس
میں ناحق اور نہ پہنچاؤ ان کو حکام تک تاکہ تم لوگوں کے مال میں سے ناحق
طریقے پر (ظلم وتعدی سے) کھاؤ اور تم (یہ بات ) اچھی طرح جانتے ہو“(البقرة:
188)۔ یہ آیت کسب معاش کے ان تمام طریقوں پرپابندی عائدکرتی ہے جو
ناپسندیدہ او رناجائز ہیں جیسے چوری، ڈاکہ، دھوکہ فریب، خیانت ورشوت ،غرض
یہ کہ کوئی ناجائز طریقہ ایسا نہیں ہے جس کی اس آیت کے ذریعہ نفی نہ کی گئی
ہو۔پھر اس پر بھی غور کریں کہ قرآنی تعبیر ات میں انسانی مزاج کی بڑی رعایت
کی جاتی ہے ، اور وہ اسلوب بیان اختیار کیا جاتاہے جو بڑے سے بڑے مفہوم کو
انسان کے دل ودماغ میں نہات ساد ہ اور موثر طریقے پر پیوست کردیتا ہے ، اب
اسی آیت میں دیکھ لیجئے اس میں لفظ” اموالکم“ فرمایا گیا ہے جس کے معنی ہیں
اپنے اموال ،اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ تم دوسرے کے مال میں
ناجائز طریقے پر تصرف کرنے سے پہلے یہ سوچ لیا کرو کہ جس طرح تمہیں اپنے
مال سے محبت ہے ،اسی طرح دوسرا شخص بھی اپنے مال سے محبت رکھتا ہے ، یہ
سوچو کہ اگر تم نا جائز طریقے پر اس کا مال ہتھیاؤ گے تو اسے تمہاری ا س
حرکت سے تکلیف ہوگئی، اسی طرح اگر اس نے جوابی طور پر یہ حرکت تمہارے ساتھ
کی تو کیا تم اس کی تکلیف محسوس نہ کروگے،کسی کے مال میں بے جاتصرف کرنے سے
پہلے یہ سوچ لیا کرو گویا وہ تمہارا ہی مال ہے، جس میں تم ناجائز تصرف کے
مرتکب ہورہے ہو، پھر اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تم کسی کے
مال میں بے جاتصرف کروگے تو دوسرا بھی مجبور ہوکر ایسا ہی کرے گااور یوں
ایک صاف ستھرا معاشرہ بھی آہستہ آہستہ اس بری لعنت میں گرفتار
ہوسکتاہے۔گویااس طرح تم دوسرے کو اپنے مال میں بے جا تصرف کی دعوت دے رہے
ہو ۔ہم کھلی آنکھوں رات دن اس کا مشاہدہ کررہے ہیں ،ایک شخص دودھ میں ملاوٹ
کا کاروبار کرتا ہے، بلاشبہ وہ اپنی اس حرکت سے کچھ زیادہ نفع کمالیتا ہے
لیکن وہ زائد نفع خود دوسری ملاوٹی چیزیں خریدنے میں برباد کردیتا ہے،
دوسرا شخص نقلی دوائیں فروخت کررہا ہے اسے نقلی دوائیں خریدنی پڑتی ہیں
،کچھ دوسرے لوگ گھی تیل میں چربی ملا کر ناجائز کاروبار کررہے ہیں اسے یہ
ملاوٹی گھی تیل خرید نا پڑتارہا ہے، گویا جتنا پیسہ اس نے ملاوٹی دودھ
فروخت کر کے کمایا تھا اتنا ہی پیسہ یا اس سے کچھ کم وبیش روپیہ وہ دوسری
ملاوٹی اشیا خرید کر برباد کردیتا ہے اور نقصان اٹھاتا ہے۔آپس میں ایک
دوسرے کا مال اس لیے کہا گیا تاکہ یہ ذہن نشین کیا جائے ایک دوسرے کے مال
کی حفاظت مشترکہ ذمہ داری ہے، اور باہمی تعاون کو روبہ عمل لانے کے لیے شرط
اولین کی حیثیت رکھتی ہے، قرآن کریم انسانی دلوں میں یہ جذبہ پیدا کرنا
چاہتا ہے کہ وہ جس طرح اپنے مال کا احترام کرتے ہیں اور اس سے محبت رکھتے
ہیں اسی طرح دوسرے کے مال کا احترام بھی کریں اور اس سے بھی محبت کریں، اگر
کسی نے دوسرے کے مال میں دست درازی کی، اسے غصب کیا ، چوری سے لے لیا، یا
دھوکہ وفریب دے کر ہتھیالیا ، یا کسی ایسی چیز کے عوض میں حاصل کرلیا ، جو
چیز عوض بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔اس نے گو یا پوری قوم اور پورے ملک پر
ظلم کیا ، وہ خود قوم کا ایک فرد ہے اور معاشرے کا حصہ ہے، جو گنا ہ کیا ہے
وہ خود اس کی ذات تک محدود رہے ایسا ممکن نہیں ہے، یقینی طور پر یہ گناہ
متعدی ہوگا ، او رمعاشرے کے دوسرے افراد بھی اس میں ملوث ہوں گے ، آج اس نے
کسی کا مال ہڑپ لیا ہے ، کل کو وہ اس کا ا س کے کسی بھائی کا مال ہڑپ کر کے
اس گناہ کو متعدی بنانے میں اپنے کردار ادا کرے گا۔
اوردوسری اہم بات جو کرپشن اوردیگرخیانتوں کی روک تھام کے لئے مفید ہے وہ
شفاف اورمنصفانہ عدالتی نظام ہے جب قانون کسی کے لالچ اوردباؤ سے آزاد ہوگا
اور اس کی مخالف کرنے والے کو پوری پوری سزا سنائی جائے گی اور اس معاملے
میں کسی رو ورعایت اور ناانصافی سے کام نہیں لیاجائے گا تو یقینا ہرمجرم
اپنے جرم سے پہلے سوبارسوچے گا اور قانون کاشکنجہ اسے اس جرم سے بازرکھنے
میں بڑامعاون ثابت ہوگا۔عدالتی نظام کامقصدہی یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں
پھیلنے والی بے راہ روی اور مظالم وخیانتوں پر روک لگائے اورظاہر سی بات ہے
اجتماعی اموال میں خیانت کرنے والے سے بڑھ کرشاید ہی کوئی اور مجرم ہوکیوں
کہ اس طرح معاشرے میں باہمی احترام اورانسانی اقداروجذبات نابودہوجاتے ہیں
اورہرشخص پیسے کاحریص کابن کرجانوروں سے بھی گھٹیا بن جاتاہے اس کے نزدیک
کوئی انسانی رشتہ قابل قدر نہیں رہتا بلکہ اس کے نزدیک ہرچیز کامعیار صرف
پیسہ قرارپاتا ہے چاہے وہ اسے تمام انسانی رشتوں کاپامال کرنے اوراخلاقی
قدروں کی دھجیاں اڑانے کے بعد ہی کیوں نہ ملے وہ اس کے بخوشی تیار
ہوجاتاہے۔اس لئے جب تک عدالتی اورقانونی بوجھ سرپرنہ ہوگا اس وقت تک مال
ودولت کاحرص انسان کوان خیانتوں پرابھارتارہے گا ۔
اسلام میں اکل حلال کے بڑے فضائل اور اکل حرام کی بے شمار مذمتیں وارد ہیں
جن سے ثابت ہوتا ہے کہ معاشرے کی تطہیر وپاکیزگی اکل حلال کے بغیر ممکن
نہیں ، حتیٰ کہ نماز روزہ جیسی بنیادی عبادتیں بھی درجہ قبولیت سے سرفراز
نہیں ہوسکتیں ، او رنہ صدقہ وخیرات سے ناپاک کمائی پاک بن سکتی ہے، ایک
مرتبہ صحابی رسول حضرت سعد بن وقاصؓ نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں عرض کیا کہ میرے لیے مستجاب الدعوات ہونے کی دعا فرمادیجئے ،آپ نے
فرمایا: اے سعد! اپنا کھانا حلال او رپاک کرلو ، تم مستجاب الدعوات بن جاؤ
گے ، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے بندہ جب اپنے پیٹ میں
حرام لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور جس
شخص کا گوشت حرام مال سے بنا ہوا ہو وہ گوشت تو جہنم کے ہی لائق ہے ،(
المعجم الاوسط للطبرانی )
خلاصہ یہ ہے کہ بدعنوانیوں کی موجودہ دلدل سے نکلنے کے لیے اسلام جیسے مکمل
اور فطری مذہب کی جامع اور حقیقی تعلیمات ہی کواپنانے کی ضرورت ہے ، عموماً
لوگ اس لیے بدعنوانیوں میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں نہ انسانی قانون
کا خوف ہے اور نہ خدائی قانون کا ، انسانی قانون کے بارے میں تو ان کا خیال
یہ ہے کہ وہ جب چاہے پیسے سے خرید کر اسے اپنے حق میں کرسکتے ہیں اور خدائی
قانون کی عظمت وہیبت دلوں سے نکل چکی ہے، حالا نکہ خدائی قانون کو ماننا
اور اس پر دل سے عمل کرنا ہی بدعنوانیوں کے اس طوفان سے ملک وقوم کو باہر
نکال سکتا ہے ،کاش ہمارے ملک کاہرفرد اورخاص کر ارباب بسط وکشاداور اصحاب
عدل وانصاف اس پہلو سے بھی غور کرلیں، ورنہ یہ معاشرتی او رسماجی ناسور یوں
ہی مسلسل پھیلتا رہاتو بالاخر ملک کے صرف نظام معیشت کوہی نہیں بلکہ رہے
سہے معاشرے کوبھی تباہ وبرباد کردے گا۔ |