ذہانت کیا ہے؟(Intelligence)

رالف والڈو ایمرسن ایک لیکچرار‘مضمون نگاراور شاعر تھا۔اسے دوراندیشی اور انفرادیت کا چیمپئن مانا جاتا ہے۔ایمرسن سے جب اس کی عمر کے بارے میں پوچھا گیاتو اس نے بتایا”تین سو ساٹھ سال“۔دریافت کیا گیاکہ آپ تو ساٹھ سال سے زائد کے دکھائی نہیں دیتے۔ایمرسن نے کہاکہ یہ درست ہے کہ میں 60برس کا ہوں۔لیکن جہاں تک میری ذہانت کا سوال ہے تو میں نے اتنا کام کیا ہے کہ اس کے لئے یا تو 6افراد کی ضرورت تھی یامجھے360برس زندہ رہنا چاہیے تھا۔میری ذہانت میری عمر سے آگے ہے۔

ایک عام انسان کی ذہنی نشونما 14سال کی عمر میں رک جاتی ہے کیونکہ جسمانی مقصدپورا ہوچکا ہوتا ہے۔14سال کی عمر میں فرد حیاتیاتی اعتبار سے اتنا پختہ ہوجاتا ہے کہ بچے پیداکرسکے۔یہی وجہ ہے کہ انسان کی اوسط ذہنی عمر14سال سے نہیں بڑھ سکی۔ لوگوں کی جسمانی عمر60سے100سال تک تو ہو سکتی ہے لیکن ان کی ذہنی عمر14سال پر آکر رک جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ والدین بچے کے ذہن میں 14سال کی عمر تک جو بھر دیتے ہیں وہی اس کے ساتھ چلتا ہے۔انسان بڑا ہونے کے باوجود انہی مفروضوں پر چل رہا ہوتا ہے۔اس صورتحال کو بدلنا چاہئے۔تبدیلی صرف اسی صورت ممکن ہے اگر آپ حیاتیات سے آگے سوچیں۔آئن سٹائن بنیں۔جب آپ پہلے سے قائم کئے ہوئے مفروضوں پر چلتے ہیں تو آپ کی ذہانت کی تیزی‘خوبصورتی اور شدت ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔یہ کند ہوجاتی ہے۔۔کند ذہانت کو ہی عقل کہا جاتا ہے۔نام نہاد دانشور لوگ ذہین نہیں ہیں۔یہ تو محض عقل پسند Intellectualہیں۔اور عقل مردہ جسم کی طرح ہے۔اس کی جتنی مرضی تزین کر لومردہ تو مردہ رہے گا۔زندہ ہونا ایک ایک بالکل مختلف بات ہے۔اور ذہانت زندگی ہے‘بے ساختگی ہے‘خوشادگی ہے‘عدم تحفظ ہے‘غیر جانبداریت ہے۔یہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھنے کا حوصلہ ہے۔وہ شخص جو سچائی کی تلاش کے لئے نکلا ہے اسے بہت سی غلطیوں کے لیے تیار رہنا چاہئے۔اسے خطرات سے کھیلنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ممکن ہے وہ بھٹک بھی جائے لیکن سچائی تک پہنچنے کا کوئی اور طریقہ بھی تو نہیں۔کئی مرتبہ بھٹکنے کے بعد اسے پتہ چل جائے گا کہ کیسے نہ بھٹکا جائے۔اگر آپ کوئی نتیجہ قائم کر کے کام کرتے ہیں تو نتیجہ آپ کو تحفظ دیتا ہے لیکن بغیر نتیجہ قائم کیے کام کرنامعصومیت میں کام کرنا ہے۔آپ بھٹک سکتے ہیں۔غلطیاں کرسکتے ہیں۔کئی غلطیوں کے بعد آپ کو پتہ چلتا ہے کہ غلطی کیا ہے۔غلطی کا پتہ چلنے کے بعد آپ سچ کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔یہ آپ کی اپنی دریافت ہے۔آپ دوسروں کے نتائج پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔ذہانت ذات کا کھلا پن ہے یعنی بغیر تعصب کے دیکھنے کی صلاحیت ہے۔چیزوں کے ساتھ پہلے سے قائم نظریات کے بغیر تعلق قائم کرنے کی صلاحیت۔یہی وجہ ہے ذہانت دانشوری سے بالکل مختلف ہے۔دانشوراپنے ساتھ تعصبات‘عقائد اور علم کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ تعصب biasness والی آنکھ تو اندھی ہوتی ہے۔اور ایسا دل یا دماغ جو پہلے سے ہی نتائج اخذ کر لے اندھا ہوتا ہے۔تمام ماہرین اندھے ہیں۔ ماہر کا مطلب ہے کہ آپ ہر چیز سے بے خبر ہیں۔ماہر تو ہر طرف سے بند ہوتا ہے۔ایک ایسے کمرے میں بند جس کی کھڑکیاں بھی بند ہیں۔تازہ ہواتک اندر نہیں آسکتی۔یہ ذہانت نہیں ہے۔ ذہانت تو یہ ہے۔کہ آپ سب کیلئے کھلے ہوں۔آپ بارش‘ہوا‘دھوپ اور سب کیلئے کھلے ہوں۔ماضی کے ہر لمحہ کے ساتھ تبدیل ہونا ذہانت ہے۔بے ترتیب اور معصوم رہنا ذہانت ہے۔

بے عقلی برف کی طرح منجمند ہوتی ہے۔بے عقلی ثابت قدم ہوتی ہے کیونکہ منجمند ہوتی ہے۔جبکہ ذہانت غیر مستقل ہوتی ہے۔صرف بے وقوف لوگ ہی مستقل مزاج ہوتے ہیں۔جتنے زیادہ آپ زہین ہیں اتنے آپ غیر مستقل مزاج ہوتے ہیں۔کیونکہ کل کی خبر کسے ہے۔کل کا دریا تو صحرا سے گزر رہا تھاآج ٹیکنالوجی کی دنیا سے گزر رہا ہے۔اگر کل کا تجربہ ہمیشہ کیلئے آپ کا رہنما بن جائے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کل ہی مر گئے تھے۔اگر آپ میں اتنی صلاحیت ہے کہ وقت کے ساتھ حرکت کر سکیں تو وقت کے ہر لمحہ کے ساتھ جاری رہیں اور کوئی شے نہ بنیں یہی ذہانت ہے۔
Shahid Chaudhry
About the Author: Shahid Chaudhry Read More Articles by Shahid Chaudhry: 13 Articles with 11892 views I am journalist and columnist. .. View More