ترقیاتی،” تعلیمی شعبے“ میں روزنامہ جنگ کے کردار کا تنقیدی جائزہ

تحقیقی مقالہ

شرح خواندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے انتہائی کم پڑھے لکھے معاشروں میں سے ایک ہے۔ ہمارے لئے کیسی شرمساری کا مقام ہے کہ دنیا کے 112 ترقی پزیر ممالک میں اس کی پوزیشن 111 ہے۔

معاشرتی حقوق (CIVIL RIGHT) میں حق تعلیم کو نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ کیونکہ تعلیم کی اہمیت کسی معاشرے کی سیاسی زندگی میں تعارف کی محتاج نہیں۔ یہی ہمیں آزادی سے روشناس کراتی ہے۔ اس کے ذریعے باشعور ہوکر ہم ملک میں مضبوط سیاسی نظام پیدا کرسکتے ہیں۔ جمہوریت میں عوام کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کا حق دیا جاتاہے۔ اگر عوام پڑھے لکھے نہ ہوں گے تو بہتر نمائندہ منتخب نہیں کرسکیں گے۔

تعلیم حاصل کرنا ہر فرد کا بنیادی حق ہے ریاست کا فرض بنتاہے کہ ہر شخص کو حصول تعلیم کی سہولتیں بہم پہنچائے۔ اس میں ذرائع ابلاغ پر بھی نہایت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تعلیمی شعبے کے حوالے سے اخبارات کی دلچسپی صرف اتنی ہے کہ وہ اخبارات کے اندرونی صفحہ پر خبر لگاکر تعلیم کو رواج دلوانے والے عمل سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اور اپنی ذمہ داریوں کو کافی سمجھتے ہیں۔

اس تناظر میں روزنامہ جنگ کہ اپریل 2010 کے شماروں کو تحقیق کےلئے منتخب کیا گیا۔ جنگ ایک بڑا اشاعتی اخبار ہے ۔ جس کے قارئین کی تعداد(ملک اور بیرون ملک دونوں جگہ) سب سے زیادہ ہے۔ چنانچہ اس روزنامہ کی معاشرتی اعتبار سے ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے قارئین کو ایسے مواد کی فراہمی ممکن بنائے جو ترقیاتی منصوبہ بندی کے تحت (پاکستانی عوام میں خصوصاً) تحریک دنیا پیداکرنے اور تعلیمی اعتبار سے آگے بڑھنے کی جسجتو اور آگاہی پیدا کرنے کا موجب بنے روزنامہ جنگ کے اپریل 2010 کے شماروں کا بغور جائزہ لےا گیا اور مواد کے تجزئیے کےلئے جانچ موضوعات طے کئے گئے۔

خبر کے موضوعات:۔
سیاسی، علاقائی، بین الاقوامی، جرائم، کاروبار، کھیل، تعلیم
خصوصاً شعبہ تعلیم کی خبروں کا جائزہ
اخبار کے کس صفحے پر خبر شائع کی گئی
کتنے کالم میں خبر دی گئی
موضوع کے اعتبار سے خبروں کا تناسب
اشتہارات
خبر کا ذریعہ

ابلاغ برائے تعلیم کے بڑے اہم نتائج سامنے آتے ہیں۔ جبکہ ”جنگ“ اخبار بطور اہم ذریعہ ابلاغ کے اپنی پالیسیوں کی بناءپر یہ تو خیال کرتاہے وہ جو خبر پیش کررہاہے اور جسطرح خبر پیش کی جارہی ہے وہ معاشرتی ترقی کے شعبہ ”تعلیم“ اور ”شرح خواندگی“ کو کم کرنے کے لحاظ سے نہایت موثر ہے۔ لیکن درحقیقت یہ صد فیصد خام خیالی اور اخبار مرتب کرنے والوں کی کوتاہیوں کو واضح کرتاہے۔

تعلیم انسانی کردار کی سب سے اہم خصوصیت ہے۔ ہمارا معاشرہ جس روش پر چل رہا ہے وہاں سدھار کا واحد ذریعہ اور تبدیلی عمل فقط تعلیمی شعور سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ تعلیم مقصدیت (PURPOSTVENESS) کو جنم لیتی ہے۔ تذکرے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ روزنامہ جنگ جو عوام کی رائے کے ساتھ ساتھ چلتا اور اس ہی کی رائے کا ترجمان اور عکاسی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِسے ملک کے تمام طبقوںکا نمائندہ اخبار کہا جاتاہے پاکستان کے نہایت اہم مسئلے ”شرح خواندگی میں اضافہ اور تعلیمی خبروں سے عوام کی آگاہی“ کو وہ اہمیت نہیں دیتا جو موضوع کی سنگینی اور معاشرے کی ”اولین ترجیح“ کی بنیادوں پر دینی چاہیئے۔

مقصد کا حصول یوں ممکن ہوتاہے نظر نہیں آتا کہ تعلیمی خبروں کو نہ تو مناسب جگہ دی جاتی ہے اور نہ ہی قابل فہم بنایا جاتا ہے۔

روزنامہ جنگ کے صفحات کے مطالعے سے اندازہ ہوا جنگ کو عوامی رائے کا ترجمان کہا جاتاہے کیونکہ یہ کسی سیاسی جماعت یا حکومت کا ”آرگن“ نہیں۔ اسکے باوجود صفحہ نمبر اول پر شخصیات کےلئے جگہیں مخصوص ہوتیں ہیں۔ ہمیشہ چند شخصیات کا بیان مخصوص جگہ پر مخصوص کوریج میں چھپتا ہے مثلاًالطاف حسین صاحب کا ماہ اپریل 2010 کے شماروں میں ہمیشہ دوکالمی بیان صفحہ پر نظر آتا رہا چاہے وہ اہم بات کہیں یا نہ کہیں لیکن تعلیمی شعبے سے متعلق خبروں کےلئے جگہ نہیں۔

اشتہارات کی سب سے زیادہ بھرمار”جنگ“ میں ہی ملتی ہے صفحہ اول پر نیچے کا نصف حصّہ اشتہارات کےلئے مخصوص ہے اور چونکہ صفحہ اول کی اہمیت بھی اپنی جگہ ہے چنانچہ ان اشتہارات کے ریٹ کا تناسب اندرونی صفحات سے زیادہ ہے بڑے بڑے اشتہاری ضمیمے باقاعدہ مضامین کے ساتھ شائع کئے جاتے ہیں جس کی ایک تازہ مثال سندھ حکومت کی جانب سے اپنے ترقیاتی کاموں کی تشہیر کے سلسلے میں شائع کئے جانے والے ضمیمے ہیں۔

روزنامہ جنگ میں اہم ترین خبر کو صفحہ نمبر اول کے درمیان سے کچھ اوپر نمایاں کیا جاتاہے ان اہم خبروں میں عموماً علاقائی بین الاقوامی یا سیاسی نوعیت کی خبریں شامل ہیں۔ صفحہ اول کو خبروں میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

اشتہارات کے ساتھ ساتھ تصاویر اخبار کی خوبصورتی اور تزئین میں اضافے اور خبر کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے لگائی گئی ہیں۔ اور اس طرح خبر کے لئے جگہ برائے نام ہی نظر آتی ہے۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ ایک عام فرد صفحہ اول کی سرخیوں کو ہی اہمیت دیتا ہے شازونادرہی اخبار کھولنے کی زحمت ہوتی ہے ساتھ ساتھ افراد کی قوت خرید نہ ہونے کہ باعث بسوں کے اسٹاپ پر لوگوں کا مجمع اخبار کے اسٹال پر دور سے پیچھے ہاتھ باندھے صرف سرخی پڑھ کر اپنی علمی پیاس بجھانے کی کوشش کرتاہے ہمارے معاشرے میں وہ شخص پڑھا لکھا سمجھا جاتاہے جو ”پڑھ لکھ “ سکتاہے ۔ لیکن اگر اس تعریف کو وسعت دی جائے تو ”تعلیم یافتہ“ کی اصطلاح سامنے آتی ہے۔

ایک ”پڑھ لکھ“ سکنے والے فرد سے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اخبار کے اندورنی صفحات میں دلچسپی کم لے گا اور صفحہ اول کی سرخیوں پر اکتفا کرے گا۔ لیکن ہمارے معاشرے کے ”تعلیم یافتہ“ ذرائع ابلاغ کے کلید بردار اور روزنامہ جنگ (جس کی مجموعی تعداد اشاعت پانچ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا اردو روزنامہ کی حیثیت سے سامنے آیا ہے) کیوں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے سنجیدہ روش اختیار نہیں کررہا۔ تاکہ معاشرے کی نبض پکڑتے ہوئے پاکستان کے سب سے اہم مسئلہ تعلیم سے آگاہی اور شرح خواندگی میں اضافہ کو اس طرح حل کیا جائے جیسے ہماری قوم کی سوچ بن چکی ہے۔ کیوں نہ اُنہیں ان کی محدود سوچ کے ساتھ لیتے ہوئے ایسی حکمت عملی تیار کی جائے کہ نتیجتاً ایک بلند ذہنی سطح کے معاشرے کا نظام عمل میں لایا جاسکے۔

تحقیق کے دوران دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ تیس شماروں میں سے صرف ایک دن تیئس اپریل کو ایک خبر تعلیمی شعبے کی ایسی تھی جسے روزنامہ جنگ میں صفحہ اول پر قابلِ اشاعت سمجھا گیا جس کی سرخی یوں لگائی گئی۔
”سندھ بھر میں اسکول، کالجز اور جامعات میں ۲ چھٹیوں کا فیصلہ“

اس سے کہیں زیادہ اہم خبریں مہینے بھرمیں اندرونی صفحات میں تعلیمی شعبے کی شائع کی گئی جنھیں نمایاں طور پر صفحہ اول میں شامل اشاعت کرنا چاہیے تھا لیکن ان خبروں کو عموماً صفحہ 4 ، صفحہ 5 ، صفحہ 6، صفحہ 8 ، صفحہ 11 میں جگہ دی گئی۔

اندورنی صفحات میں تعلیم و صحت کے صفحہ پر شائع کی جانے والی خبریں یہ ہیں۔

شعبہ تعلیم کے حوالے سے ان خبروں کا جائزہ جنہیں صفحہ اول پر جگہ ملنی چاہیے۔

تاریخ
سرخی
صفحہ
سینٹی میٹر
کالم
2 اپریل
بی۔ایل سال اول کا پرچہ 13 اپریل کو ہوگا۔
4
2.5 cm
1
3 اپریل

4 اپریل
انٹرکامرس کے 1600سے زائد پرائیوٹ طلبہ سے امتحانی فارمز کی وصولی۔

5 اپریل
* جامعہ کراچی شعبہ مائیکرو بائیولوجی ایم ایس اور پی ایچ ڈی کی داخلہ فہرست آج جاری ہوگی۔
* صوبائی محکمہ تعلیم کی جانب سے بازار میں درسی کتب کی عدم دستیابی کا نوٹس ، ٹیکسٹ بورڑ کے افسر کا تبادلہ۔
4
6 cm
5 cm
3
3

6اپریل
کوئی اہم خبر نہیں تھی۔

7 اپریل
میٹرک کے امتحانات: طبیعات کے پرچے میں غلطی سے طلباءکو مشکلات کا سامنا۔
گورنر ہاوس کی ویجلنس ٹیم کا مختلف اسکولوں پر چھاپہ اصلی امیدواروں کی جگہ امتحان دیتے ہوئے تین افراد پولیس کی حراست میں۔
8
11 cm
3
8 اپریل
جولائی 2009 سے مارچ 2010 تک 1400 اسکول کھولے گئے(1500 فیڈر ٹیچر مقرر)
4
10 cm
3
9 اپریل
میٹرک کے امتحانات: امتحانی مراکزکے 6 سینئر سپرنڈنٹس اور اساتذہ معطل۔
4
4.5 cm
3
10 اپریل
چیئرمین میٹرک بورڈ کی معائنہ ٹیم کے چھاپے، 19 طلباءپکڑے گئے۔
6
4 cm
1
11 اپریل

12 اپریل
طلباءکو درسی کتابیں زیادہ قیمت پر دینے کا نوٹس
6
5 cm
2

13 اپریل
سائنسی لیبارٹریوں کےلئے آلات کی خریداری میں 50 فیصد اضافہ(اطلاق سائنس اور فارمیسی کے شعبوں پر ہوگا)۔
5
5 cm
3
14 اپریل
غیر رجسٹرڈ تعلیمی اداروں کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ
5
4 cm
2
15 اپریل
پی ایچ ڈی کا معیار بہتر کرنے کےلئے مقالہ دو غیر ملکی ماہرین کی جانچ سے مشروط
4
7 cm
3
16 اپریل
اسکولوں کو 2سال کے دوران فراہم کئے گئے فرنیچر کی تفصیلات طلب ( اسکول سہولتوں سے محروم)
11
5 cm
2
17 اپریل
میٹرک بورڈ میں ڈائریکٹر ریسرچ کی تقرری کا معاملہ پیچیدہ۔
4
7 cm
3
18 اپریل

19 اپریل
میٹرک کے امتحانات ملتوی کرانے اور دیگر معاملات کے ذمہ دار 25 اسکول
4
8 cm
3
20 اپریل

21 اپریل
جامعہ کراچی جرمیات میں ڈاکٹریٹ کرنے والوں کے داخلے شعبہ عمرانیات منتقل۔( باقاعدہ خط جاری کر دئے گئے)
11
8 cm
3
22 اپریل

23 اپریل

24 اپریل

26 اپریل
قومیائے گئے نجی تعلیمی اداروں کی واپسی کو روکنے کےلئے قانون سازی سرد خانے کی نذر
4
7 cm
3
27 اپریل
تعلیم پر 60 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود معیار بہتر نہیں
4
7 cm
3
28 اپریل
انٹر کے امتحانات شروع ۔ سینکڑوں طلباءنقل کرتے ہوئے پکڑے گئے۔
5
6 cm
3
29 اپریل
اسکولوں اور کالجوں کے تدریسی اوقات میں ایک گھنٹے کا اضافہ
4
12 cm
3
30 اپریل
انٹر امتحانات 32 امیدوار نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے۔
8
7 cm
3
یہ خبریں اس نوعیت کی تھیں جنھیں اصولن اخبار میں نمایاں مقام ملنا ضروری تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے ان تمام خبروں کا معیار تعلیمی سرگرمیوں سے آگاہی تو ہوسکتا ہے لیکن کہیں بھی ترقیاتی حکمت عملی کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی تحقیقی خبر، حکومت کو مشورے یا عوام میں شعور پیداکرنے کی کوشش نہیں ہے۔

اور پاکستانی عوام کے وہ مسائل جو نا خواندگی کا باعث ہیں کی طرف نشاندہی نہیں کی گئی۔ مثال کے طور پر دیہات میں سینکڑوں ایسے اسکول ہیں جہاں عمارت نہیں اور درس اور تدریس کا سلسلہ کھلے آسمان کے نیچے مٹی کے فرش پہ جاری رکھا جاتاہے اور سینکڑوں اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت نہایت خستہ حالت میں ہے میلوں پیدل چل کر بچے اسکول آتے ہیں

اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے تعلیم کی لئے مختص کردہ رقم کو بڑھا دیا گیا یہ اب 314 روپے فی کس فی سال ہے یعنی فی روز ایک روپے سے بھی کم۔ کیا یہ رقم قوم کے نونہالوں کے لئے کافی ہے۔

یہ تعلیم ہی تو جو ہمیں برے بھلے کی تمیز سکھاتی ہے ہمارے ملک کی 37فیصد شرح خواندگی کا مطلب یہ ہے کہ 63فیصد لوگ جاہل ہیں جو انسانی حقوق نگہداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھ سکتے۔

مزید یہ کہ معاشرتی لحاظ سے خاص طورپر پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں منفی پیغامات کا چلن رہتاہے۔

یہ تمام ایسے مسائل ہیں جنہیں باقاعدہ طورپر منصوبہ بندی اور تحقیق کے ذریعے اخباری مواد کی صورت میں اخبار میں جگہ ملنی چاہیے تاکہ عوام میں شعور پیدا ہو اور فیصلے کی قوت پیدا ہو۔ فیصلہ کا وقت اس وقت آتاہے جب کوئی فرد، ذرائع ابلاغ ایسے سرگرمی سے وابستگی اختیار کرتاہے پھر معاشرے میں ترقی اور اختیار کرنے (adoption) کا عمل آگے بڑھتا ہے۔

روزنامہ جنگ میں تعلیمی شعبے سے متعلق کوئی By Lineنہیں دی جاتی۔ خبر کا ذریعہ (source) کے طورپر”جنگ نیوز“ تحریر کیا جاتاہے جبکہ دوسرے شعبے جات اور مقامی بین الاقوامی سیاسی خبریں باقاعدہ By Lineدی جاتی ہے۔ یعنی اس شعبے کواتنی کم اہمیت دی جاتی ہے کہ ابھی تک اخبار میں باقاعدہ تربیت یافتہ اس شعبہ سے وابستہ صحافی ہی نہیں جبکہ موجودہ معاشرتی بدحالی میں ایسے کارپردازوں کی ضرورت ہے جو معاشرے میں ترقی کو فروغ دینے اور افراد معاشرے کے ذہن میں مثبت تبدیلی حالات کے لئے تحریک پیدا کرنے کی ضرورت کو سمجھتے ہوں۔

شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ترقیاتی حکمت عملی کے تحت تعلیمی شعبے میں تحقیق اور اہل معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا نسبتاً زیادہ محنت طلب اور مسلسل محنت کا مطالبہ کرتاہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں محنت نہ کرنے کا کلچر تیزی سے پھیل رہاہے یہاں لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ کام کریں نہ کریں کام کرنے کا تاثر دیں اور اس کا ڈھول پیٹتے رہیں تو سب ٹھیک ہی رہتاہے اور ترقی کے دروازے بھی کھُلتے جاتے ہیں۔

اخبارات منافع طلبی کی جدوجہد میں اندھادھن آگے بڑھنا ضروری سمجھتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو یہ محسوس ہونے لگتاہے کہ اصل مقصد اشتہار پیش کرنا ہے اور چونکہ ابلاغی مواد کے بغیر اشتہارات پیش نہیں کئے جاسکتے لہٰذا مجبوراً کچھ ابلاغی مواد دے دیا جاتاہے۔

روزنامہ جنگ جیسے بڑے اور سنجیدہ اخبار میں بھی صاف فریب دہی کے ساتھ رنگا رنگ اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔

اخبار ایک ایسا(Mass Media Channal) ہے جس کے ذریعے کسی ایک فرد یا چند افراد پر مشتمل ماخذ (Source) بہت سے لوگوں تک رسائی پاتے ہیں۔روزنامہ جنگ ایک ایسا اخبار ہے جو ایک ساتھ بے شمار مخاطبین(Audience) تک پیغام پہنچانے اور علم و آگہی پیدا کرکے اطلاعات کی اشاعت کرنے کا دعویدار ہے۔

روزنامہ جنگ عوامی خدمت بہتر انداز میں کرسکتا ہے لیکن ابھی تک اس کردار میں بڑی حد تک کمی ہے۔

کتابیات
۱۔ تعلیم
تحریر : ڈاکٹر سی اے قادر (مرحوم)
کتاب : تعلیمی نفسیات
۲۔ میر خلیل الرحمٰن اور جنگ
کتاب : صحافت
۳۔ شہریوں کے حقوق
تحریر : فرحانہ خٹک
کتاب : انسانی حقوق
۴۔ پاکستان میں انسانی حقوق
تحریر : اقبال احمد راشد
کتاب : انسانی حقوق
۵۔ ترقیاتی صحافت(Development Journalism)
تحریر : ڈاکٹر محمد انعام باری
کتاب : معاون ترقی ابلاغ
۶۔ پاکستان میں معاون ترقیِ ابلاغ (Development Support Communication In Pakistan)
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد زبیری
کتاب : معاون ترقی ابلاغ
۷۔ اختراح اختیار کرنے کا فیصلہ کیسے ہوتا ہے
تحریر : Everett M. Rogers
تدوین و ترجمہ : راحت ناز
۸۔ ترجیحی ترقی کی حکمتِ عملی اور ابلاغ The Strategy of Growth and Communication
تحریر : Harry T. Oshima
تدوین و ترجمہ : سبین نور
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283147 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.