یہ تو ہمارا فرض ہے۔۔۔
شریعت میں فرضوں کی بڑی سختی سے تاکید کی گئی ہے۔ نماز ، روزہ، حج اور
زکوٰة یہ اسلام کے بنیادی فرائض ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اخلاقی ،
سیاسی اور سماجی فرائض ہیں جن کو اد ا کرنے میں ہم کچھ زیادہ دلچسپی نہیں
رکھتے۔نہ ہی ان کا ہماری زندگی سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ ہوتا ہے۔مثال
کے طور پر اگر ہم سڑک کے کنارے جا رہے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ سڑک کے عین
درمیان میں ایک پتھر یا اینٹ پڑی ہوئی ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اُس پتھر یا
اینٹ کو وہاں سے ہٹا دیں تا کہ کوئی راہ چلتا دوسرا مسافر اُس سے ٹکرا کر
زخمی نہ ہو جائے لیکن ہم ایسا نہیں کر تے ۔۔۔اس لیئے نہیں کرتے کی ہم اس کو
اپنا اخلاقی فرض نہیں سمجھتے۔۔۔پتھر جانے یا پتھر سے ٹکرانے والا جانے۔۔۔
یہ بھی تو ہمارے فرائض میں شامل ہے نہ کہ ہم بھٹکے ہوئے کو راستہ
دکھائیں۔یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ پہنچائیں۔یہ
بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بھائی کی ضرورت کا بھی خیال رکھیں۔یہ بھی
ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے والدین کی خدمت کریں اُن کے ساتھ نرمی سے پیش
آئیں۔اور بھی بہت سے فرائض ہیں ہمارے اوپر جن کو ہم ادا کرنے کی کوشش نہیں
کرتے۔
لیکن مندرجہ بالا تمام فرائض سے بڑھ کربھی کچھ ایسے فرائض ہیں جن کا ادا
کرنا ہمارے لیئے بے حد ضروری ہے۔ اگر نہ ادا کیئے جائیں تو دنیا ہمارے اوپر
تھو تھو کرے گی۔ امریکہ ہمیں بھیک نہیں دے گا ۔ انڈیا ہمارا پانی بند کر دے
گا (جو تھوڑا بہت آ رہا ہے وہ بھی) اسرائیل ایران کے ساتھ ساتھ پاکستان پر
بھی حملہ کر دے گا۔اور کسی پاکستانی کو U.K. کا ویزہ نہیں ملے گا وغیرہ
وغیرہ۔۔۔
اس لیئے اُن تمام فرائض کو ادا کرنا ہماری مجبوری ہے۔ان فرائض میں سرِ
فہرست ویلنٹائن ڈے، اپریل فول، بسنت، نیو ایئر اور اس طرح کے اور بہت سے
فرائض ہیں جو ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔ جنہیں ہم اپنی حیثیت سے بڑھ
کر ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ ہمارے آقاﺅں کو ہم سے کوئی شکایت نہ
رہے۔
کچھ فرائض تو باقائدہ طور پر حکومتی سطح پر ادا کیئے جاتے ہیں اور اُس کو
ایک تہوار کی شکل دے دی جاتی ہے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں بھی ایک فرض
کی بھینٹ چڑھا تھا اور پورے بیس روپے سے محروم ہو گیا تھا ۔ ہوا کچھ یوں
تھا کہ سابق گورنر پنجاب مرحوم سلمان تاثیر نے بسنت والے دن شام پانچ بجے
کے بعد موٹر سائیکل چلانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ مجھے لاہور سے
تقریباً55 کلو میٹر دور اپنے گاﺅں بذریعہ موٹر سائیکل پہنچنا تھا ،مجھے
لاہور سے نکلتے نکلتے تقریباً 4 بج چکے تھے میرے زہن میں یہی تھا کہ یہ
پابندی صرف بڑے شہروں کے لیئے ہی ہو گی۔ لیکن جب میں اپنے گاﺅں سے پندرہ یا
بیس کلو میٹر دور ایک ویران جگہ پر پہنچا تو وہاں پولیس کا ناکہ لگا ہوا
تھا اور مجھے وہاں روک لیا گیا۔
ہاں جی کہاں سے آ رہے ہو اور کہاں جانا ہے۔۔ ۔ تمہیں نہیں پتہ کہ شام پانچ
بجے کے بعد موٹر سائیکل چلانے پر پابندی ہے۔گورنر صاحب کا حکم ہے۔۔۔پولیس
والے نے کہا۔۔۔
میں نے عرض کیا کہ سر !!! مجھے آفس سے نکلتے ہوئے دیر ہو گئی ہے اور ویسے
بھی یہاں کون سی پتنگ بازی ہو رہی ہے جو میری گردن کٹ جائے گی (خدانخواستہ)۔۔۔
پتنگ بازی ہو رہی ہو یا نہ ہو رہی ہو۔۔۔ بس گورنر صاحب کا حکم ہے۔۔۔ موٹر
سائیکل بند ہو گی تمہاری۔۔۔صبح تھانے سے آ کر لے جانا۔۔۔ مجھے حکمیا انداز
سے مطلع کیا گیا۔۔۔
میں نے سنتری بادشاہ کی بہت منت سماجت کی لیکن جناب نے میرے ایک نہ سُنی
اور میری بائیک کی چابی نکال لی۔۔۔میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا اب کیا
کروں ۔۔۔ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ میر ا ایک دوست بھی پولیس میں
ہے۔ میں نے فوراً اپنا موبائیل نکالا اور اُسے فون کر کے اپنی پریشانی کے
بارے میں بتایا۔۔۔ میرے دوست نے پولیس والے سے بات کی ۔۔۔کچھ دیر کے بعد
پولیس والے نے مجھے میرا موبائیل واپس لوٹایا اور بولا اُن کے کہنے پر ہم
تمہیں جانے دے رہے ہیں ورنہ گورنر صاحب کے بڑے سخت آرڈر ہیں۔۔۔
میں نے اُس کے ہاتھ سے چابی لی اور اُس کا شکریہ ادا کیا ابھی بائیک سٹارٹ
کرنے ہی لگا تھا تو جناب بولے کہ۔۔۔ کوئی بوتل چائے ہی پلا دیں۔۔۔
میں نے اپنی جیبوں کو ٹٹولا اور مجھے کسی جیب کی ایک نُکر پر لگے بیس روپے
مجھے مل گئے۔۔۔ میں نے جلدی سے وہ بیس روپے اُس کے حوالے کیئے اس سے پہلے
کہ گورنر صاحب کا کوئی نیا آرڈر نہ آ جائے میں نے فوراً موٹر سائیکل سٹارٹ
کی اور گھر کی راہ لی۔۔۔
مجھے ہنسی بھی آ رہی تھی اور غصہ بھی ۔۔۔ ہنسی اس بات پر کہ گورنر صاحب کے
آرڈر کی قیمت صرف بیس روپے اور غصہ اس بات پر کہ میرے پاس وہی بیس روپے بچے
تھے جس کا میں نے ایزی لورڈ کروانا تھا۔ |