گیاری سیکٹر میں این ایل آئی کی
چھٹی بٹالین کے سو سے زیادہ آئی ایس پی آر کے مطابق ایک سو انتالیس سویلین،
سپاہی اور آفیسر بشمول کمانڈنگ آفیسر ایک دیو ہیکل برفانی تودے کے نیچے آکر
دب گئے تودے کا حجم ہی وہ اندوہناک داستان سنادیتاہے جو رقم ہوچکی ہے۔ایک
مربع کلو میٹر کی لمبائی ، چوڑائی اور اسی فٹ اونچائی کی یہ سفید بلا کسی
بلائے ناگہانی کی طرح صبح کے چھ بجے اس یونٹ کے ہیڈ کوارٹرز پر آکر نازل
ہوئی لیکن در حقیقت یہ بلائے ناگہانی نہیں تھی کیوں کہ یہاں پہنچنے والا ہر
فوجی یہ سوچ سمجھ کر وہاں جاتا ہے کہ یہاں اسے کئی دشمنوں کا سامنا ہے لیکن
سلام ہے اِن حوصلہ مند، جرا ت مند بھائیوں اور بیٹوں کو کہ وہ پھر بھی وہاں
جاتے ہیں اور یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ رزق روزی کا معاملہ ہے ہی نہیں بلکہ
یہ وہ جذبہ اور ولولہ ہے جو انکی فطرت کا حصہ بن چکا ہوتا ہے کہ اس پاک سر
زمین کی حفاظت ہمارا فرض ہے چاہے وہ سیا چین کے برف زار ہوں یا تھر کے
ریگزار۔ سیاچین جو ہمیشہ سے پاکستان کا ہی حصہ تھا کبھی اس شدیداور مشکل
ترین علاقے میں فوج تعینات کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی اور1984تک اس مسئلے
کا کوئی وجود ہی نہیں تھا لیکن بھارت کی بد نیتی اور بد فطرتی کے باعث یہ
مسئلہ بن گیا جب اُس نے اپنی فوجیں پاکستانی علاقے میں داخل کردیں اور دنیا
کا یہ مشکل ترین اور مہنگاترین محاذ کھل گیا جس میں شاید آپس کی جھڑپوں کے
باعث اتنی اموات اور شہادتیں نہ ہوئی ہوں جتنا موسم کے ہاتھوں ہوچکی ہیں۔
معاشی لحاظ سے نہ ہی تو بھارت کے عوام خوشحال ہیں نہ پاکستان کے لیکن اس
جنگ پر کروڑوں اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں وہی پیسہ جو اِن ملکوں کے عوام کی
بھلائی پر خرچ ہونا چاہیئے تھاوہ اس محاذ پر موسم سے لڑتے ہوئے خرچ
ہورہاہے۔بھارت نے تو ازخود اس مسئلے کو پیدا کیا ہے لیکن پاکستان کے اوپر
تو یہ سب کچھ مسلط کردہ ہے اور یہی اس مسئلے کا افسوسناک پہلو ہے لیکن اس
سے بھی بڑھ کر دکھ اس بات کا ہے کہ نہ تو بین الاقوامی سطح پر بھارت پر
کوئی دباؤ ڈالا گیا نہ ہی اُسے لعنت ملامت کی گئی کہ اس نے اس غیر انسانی
جنگ کوشروع کیوں کیا اور نہ ہی قومی سطح پراس چیز کا احساس اس انداز میں
کیا گیا جس کی ضرورت تھی بلکہ اکثر اوقات تو فوج کے اخراجات اور بجٹ کو کچھ
اس انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جیسے کسی دشمن ملک کی فوج کا
ذکر کیا جارہا ہو۔ جب کہ آج اس دیو ہیکل برفانی تودے سے نمٹنے کے لیے ہمارے
پاس مناسب مشینری بھی موجود نہیں ہے کیونکہ یہ سب کچھ یقینا بہت مہنگا ہے
اور ہماری دسترس سے بہت دور۔اور وہی فوجی جو ملک میں آنے والے سیلاب ،طوفان
اور زلزلوں میں متاثرین کی ڈھارس بندھاتے ہیں نہ پانی دیکھتے ہیں نہ ہلتی
ہوئی زمین اور بے خطر ہر اُس خطرے میں کود پڑتے ہیں جہاں عقل محوِتماشائے
لب بام رہتی ہے آج ہزاروں ٹن برف کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ یہ صرف 139افراد
نہیں اس قوم کے محافظ ہیں جن کے لیے لڑتے ہو جان دینا کچھ انوکھا نہیں اور
نہ ہی افسوسناک لیکن یوں بغیر لڑے اور دشمن کو ٹھکانے لگائے بغیرایک ایسے
دشمن کے نرغے میں آجانا جس کا مقابلہ ممکن نہیں یقینا کسی فوجی کے لیے
انتہائی حسرت آمیز ہوتاہے۔ اس وقت قوم کی دعائیں یقینا اِن کے ساتھ ہیں۔
لوگوں کی طرف سے اُن کے لیے ایس ایم ایسز کی گردش اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ
اپنے شیروں اور مجاہدوں کے لیے فکرمند بھی ہے اور دعاگُوبھی۔ قوم کی یہ
محبت اس ملک کی سلامتی سے اور اس کی حفاظت کرنے والوںسے ہے اور اُن لوگوں
کے لیے لمحہ فکریہ بھی جو ملکی مسائل کا ذمہ دارفوج کو سمجھتے ہیں۔دیس کے
اِن سپوتوں کے لیے بے شمار دعاؤں کے ساتھ اُن لوگوں سے بھی درخواست ہے جو
بات بے بات فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں کہ فوج کی قربانیوں کا
اندازہ بھی لگائیے اور اُس تنقید کا بھی جو اکثر اوقات سیاستدانوں کی طرف
سے آتی ہے ورنہ قوم نے ہمیشہ اپنے اِن جیالوں پر فخر ہی کیا ہے اور آج بھی
وہ اِن کے لیے دعاگو ہے۔تین دن گزر جانے کے بعد بھی ان قابل فخر بیٹوں تک
رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے لیکن اِس حادثے نے شاید بہت سے لوگوں کو اپنے
رویوں پر سوچنے پر مجبور کردیا ہوگاکہ فوج جن مشکل حالات میں سرحدوں کی
حفاظت کرتی ہے وہ یقینا اس بات کی متقاضی ہے کہ قوم کی دعائیں اور محبتیں
ہر وقت ان کے ساتھ رہیں۔ |