روزنامہ جنگ (سنڈے میگزین) مورخہ
8 اپریل 2012 کے ٹائٹل پیج پر نیم برہنہ تصویر کی اشاعت اس امر کی غمازی
کرتا ہے کہ جنگ پبلشر شدید مالی بحران کا شکار ہے اور اب انہوں نے ٹائٹل تک
کمرشلائز کر دیا ہے۔ ایک ایسا کمرشل جس میں اسلامی شعارر، قومی تہذیب،
اخلاقی اقدار کا کھلا مذاق اڑایا گیا ہے اور 19 کروڑ پاکستانیوں کے مذہبی
جذبات کو مجروح کیا گیا ہے۔
خیر سے میر شکیل الرحمن صاحب کلمہ گو مسلمان ہیں، کم تر درجے کا مسلمان بھی
کسی مشکل تر ین حالات کے بغیر ایسی اخلاق سوز تصاویر کی اشاعت کا ذریعہ
نہیں بن سکتا۔ جب کہ اس نے اس کمائی سے اپنے اور ادارہ جنگ سے وابستہ
ہزاروں مسلمانوں کے بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہو۔ مسلمان تو مشکل ترین حالات
میں بھی یہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے بچوں کو حلال کمائی کھلائے۔ اگر میر شکیل
الرحمن نے ایسا انتہائی اقدام اٹھایا ہے تو جنگ کے قارئین اور اہل پاکستان
کو ان کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ اس مالی بحران کے باعث کہیں اپنے مذہب سے
ہی بیگانہ نہ ہو جائیں۔ میں محسوس کر رہا ہوں کہ میر صاحب مالی تنگی کی وجہ
سے حلال و حرام کی تمیز کرنے سے قاصر ہیں۔ مشکل حالات ہر انسان پر آتے رہتے
ہیں، اللہ کے نبی ﷺ نے بھی ایسے حالات سے پناہ مانگی ہے، جو انسان کو کفر
تک لے جائیں۔
میر صاحب کا مقام و مرتبہ ایسا نہیں کہ وہ لوگوں سے مدد کی اپیل کر سکیں۔
وہ یہی راستہ اختیار کر سکتے تھے کہ اپنے اخبار میں مذہب، قومی روایات اور
اخلاقی اقدار کے برعکس اشتہار قبول کرکے اپنی ضرورتیں پوری کریں۔ انہوں نے
۸ اپریل 2012 کی اشاعت میں یہ مکروہ کام شروع کر ہی دیا ہے۔ اس سے ان کی
غربت میں تو شاید کچھ کمی واقع ہو جائے لیکن 19 کروڑپاکستانی مسلمانوں کے
اخلاق بگڑنے کا بھی خطرہ موجود ہے۔ ایک اشتہار سے میر صاحب کی ضرورت پوری
نہیں ہوگی، خدشہ ہے کہ وہ اس سلسلے کو مزید کچھ عرصہ تک جاری رکھیں گے، جس
سے ہمارے معاشرے کا اسلامی تشخص بری طرح مجروح ہوگا، نوجوان نسل اخلاقی
تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی اور والدین بچوں سے آنکھیں چھپاتے پھریں
گے۔ اس لیے میں وزیر اعظم پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ”جنگ امدادی
فنڈ“ قائم کرکے عوام سے چندہ دینے کی اپیل کریں تاکہ ہم میر شکیل الرحمن
صاحب کو بھی مالی مشکلات سے نکال سکیں اور پوری قوم کو اخلاقی تباہی سے بھی
محفوظ رکھا جا سکے۔
میں مذہبی شعور کے حامل افراد سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ میر صاحب سے
ناراض ہونے، احتجاج کرنے اور انہیں بدنام کرنے کے بجائے ان کی مشکل کو
سمجھنے کی کوشش کریں۔ وہ بھی خیر سے مسلمان ہیں، نیکی اور برائی ، حلال و
حرام،معروف اور منکر میں فرق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ عورت
چھپانے کی چیز ہے، اسے گھر کی زینت اور عزت بنایا جاتا ہے نہ کہ کمائی کا
ذریعہ ۔ انہوں نے اگر یہ انتہائی اقدام اٹھایا ہے تو یقینا کوئی مجبوری ہو
گی۔ ان کی مجبوری کو سمجھنے، ان کی مدد کرنے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے
احکامات اور نبی اکرم ﷺ کی ہدایات کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
میں چیف جسٹس پاکستان سے بھی درخواست کروں گا کہ اس معاملے پر سو موٹو
ایکشن نہ لیا جائے کیونکہ میر صاحب نے شاید اضطراری حالات میں دستور
پاکستان میں دی گئی آزادی صحافت کی حدود کو پھلانگا ہو۔ پہلے جنگ پبلشرز کی
مشکلات کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور جب تک وہ معمول پر نہیں آجاتے ان کے
خلاف کوئی قانونی کاروائی عمل میں نہ لائی جائے کیونکہ اسلام کسی بھی جرم
کے پس منظر کو نظرانداز کرنے کا قائل نہیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ ایسی
صورت میں کئی بار اسلامی حدود کو مخصوص حالات کے پیش نظر کچھ عرصہ کے لیے
موخر کیا گیا تھا۔ اس لیے میر شکیل الرحمن کو بھی کچھ عرصہ کے لیے یہ
استثناءحاصل ہونا چاہیے۔
روزنامہ جنگ میر شکیل الرحمن کی ذاتی ملکیت ہے، وہ اسے جیسے چاہیں استعمال
کریں۔ وہ مذہب کو مدنظر رکھیں یا نہ ، یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن جب ہم
نقد رقم دے کر روزنامہ جنگ خریدتے ہیں تو پھر انہیں ہمارے جذبات و احساسات
کا خیال رکھنا چاہیے۔ وہ بھی اپنے کلائنٹس کو ناراض نہیں کرنا چاہیں گے۔ ہم
کچھ عرصہ کے لیے میر صاحب کو 10 روپے کے بجائے 20 روپے فی میگزین ادا کرنے
پر تیار ہیں صرف شرط یہ ہے کہ وہ عورتوں کی تصاویر فروشی کو آمدنی کا ذریعہ
بناکر اپنی اور کارکنان روزنامہ جنگ کی روزی کو حرام نہ کریں اور اہل
پاکستان کے اخلاق بگاڑنے اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے کا سلسلہ بند
کردیں۔
میں پرامید ہوں کہ وزیر اعظم پاکستان فوری طور پر ”روزنامہ جنگ امداد ی
فنڈ“ قائم کریں گے اور قارئین جنگ بھی مذکورہ شرائط کی قبولیت کی صورت میں
روزنامہ جنگ دوگنی قیمت پر خریدنے پر تیار ہو جائیں گے۔ میں دعاگو ہوں کہ
اللہ تعالیٰ جلد از جلد میر صاحب کو مشکلات سے نکالے تاکہ وہ ملک و ملت کی
بہتر خدمت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ |