دیہاتی لوگوں کی پُکار

دنیا میں آدم ؑکی آمد کے بعد اللہ نے آدم کو علم عطا کیا اور اور اس طرح سے تدریس کا آغازہوا۔انبیاءکرم نے اس سلسلے کو جاری رکھا ۔نبی آخرو زماں حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی ذات نے پہلی وحی میں بھی علم کا حکم دیا کہ "اے نبی پڑھ"گویا علم کا باقاعدہ حکم بھی اللہ کے آخری نبی کو آخری کتاب میں دے دیا گیا۔پھر خود اللہ کے نبی نے اپنے رب سے ایک دعا فرمائی "اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما"اور ایک اور مقام پر اس کا حصول مسلمان مرد اور عورت پر فرض قرار دیا ۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کا یہ فرض بنتا ہے کہ نہ صرف خود علم حاصل کریں بلکہ فروغ تعلیم میں بڑھنے والے ہر ایک ہاتھ کا ساتھ دیں ۔مگر بدقسمتی سے ہم ایسا کرنے سے یکسر قاصر نظر آتے ہیں۔ہمارا دین جس با ت کی ہمیں ترغیب دے رہا ہے ہم اس سے دور رہنے لگے ہیں۔شہروں میں بسنے والے لوگ علم کی اس نعمت سے فیض یاب ہوتے ہیں مگر دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے آئے دن اس کے حصول میں مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔یوں تو ہماری حکومت نے اس بات کے نعرے لگائے ہیں کہ علم حاصل کرنا ہماراحق ہے اور ہماری ترقی کا ضامن ہے۔ لیکن شائد ان کو کبھی اس با ت کا اندازا تک نہ ہوا ہوگا کہ دیہاتوں میں اس کی کیا حالت ہے۔جس کی سب سے بڑی وجہ معذرت کے ساتھ شیخ رشید صاحب کی نظر میں یہ ہے کہ دو پاکستان ہیں ایک سیاستدانوں کا جو اسلام آباد سے لیکر راولپنڈی تک ہے جس میں انہوں نے اپنی ضرورت کی ہر چیز کی دستیابی یقینی بنائی ہے اور دوسرا پاکستان غریب عوام کا ہے جو اپنے بنیادی حقوق تک کے لیے دھکے کھا رہے ہیں۔ملک بھر میں تعلیمی اصلاحات اور طلبہ کو انعامات دینے کی آڑمیں کروڑوں روپے خرچ کر دیے گئے مگر دیہاتوں کے وہ علاقے جہاں تعلیم معیار انتہائی کم ہے شرح تعلیم دن بدن گھٹتی جارہی ہے وہاں پر توجہ دینا ہر لیڈر اپنی توہین سمجھ رہا ہے۔وہاں نہ تو پینے کے صاف پانی کی دستیابی ہے نہ باتھ روم میسر ہیں نہ وہاں چاردیواری ہے نہ کوئی آفس ،کئی سکول کمروں تک سے محروم ہیں،پنکھے اور فرنیچر تو بہت دور کی بات ہے۔اساتذہ کرام کی آسامیاں بھی ضرورت کے مطابق نہیں ہیں۔غیر تدریسی عملے کی موجودگی تو شائد ایک مذاق تصور ہو۔جہاں بچوں کے بیٹھنے کے لیے کمرے نہ ہوں ،پینے کا پانی نہ ہو، باتھ روم نہ ہوں ،چار دیواری نہ ہو، اساتذہ کی مکمل آسامیاں مکمل نہ ہوں ،پانچ جماعتوں کو دو اساتذہ کرام پڑھا رہے ہوں وہاں کے لوگ ملک میں تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ تو بخوبی لگا لیتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی ان میں علم حاصل کرنے کی جدوجہد موجود ہے اورنہ صرف یہ بچے بلکہ ان کے والدین آج بھی انتظامیہ سے سوال کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا کیا جرم ہے؟کیوں ان لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا رہا ہے جس سے بچوں میں احساس کمتری پیدا ہو رہی ہے؟ بلکہ اس کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے؟اگر ملک جمہوری ہے ،اسلامی ہے قوانین اسلام کے مانے جاتے ہیں تو پھر امتیازی سلوک کیوں؟کیا ہمارے لیڈر ہمیں اور ہمارے مسائل کو صرف الیکشن کے دنوں میں توجہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟اگر ایسا ہے تو میری ذاتی رائے کے مطابق ہمیں خود کو جمہوری یا اسلامی قوانین کا پاسدار کہنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا ضرور پڑے گا جس سے عین ممکن ہے کہ کسی کو اثر ہو نہ ہو عوام کی آنکھیں ضرور کھُل جائیں گی اور اگر ایسا ہوگیا تو سب کے سب سیدھے ہو جائیں گے۔ اور وہ وقت اب دور ہرگز نہیں۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 51481 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More