خونِ مسلم کی طاقت

یہ خبر آپ نے پڑھی؟ اگر پڑھی ہو تب بھی اسے وہ حیثیت اوراہمیت نہ دی ہوگی جس کی وہ مستحق تھی۔ کوئی بھی ایسی خبر جس میں مسلمانوں کی عزت اور اسلام کے شعائر کی حرمت کاپہلو اجاگر ہوتا ہواسے یوں ہی چند سطروں میں سرسری ساذکر کرکے ہر خبر پرنظر کی دھول میں گم کردیاجاتاہے۔ یہ واقعہ اسلام کی حقانیت کاثبوت ہے اور اس بات کاپتہ دیتا ہے کہ اسلامی احکام فطری تقاضوں کے مطابق ہیں اور جو افراد اپنی اسلامی شناخت کو بچانے کیلئے عظیم قربانی دیتے ہیں وہ قربانی ہرگز ضائع نہیں جاتی بلکہ اس کی وجہ سے نفس وشیطان کے ڈالے ہوئے غیرفطری پردے اٹھ جاتے ہیںاور بہت سوں کے لئے اسلام کے قریب آنے کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ملاحظہ فرمایئے یہ واقعہ جو امریکہ میں رونما ہوا۔

”امریکہ میں حجاب پہننے پر قتل کی جانے والی عراقی نژاد مسلمان خاتون شاعمہ العوضی کی حمایت میں 10 لاکھ غیر مسلم خواتین نے حجاب پہننے کا اعلان کیا ہے۔ شاعمہ العوضی کی یاد میں فیس بک پر بنائے گئے صفحہ کے لئے صرف ایک دن میں 10 ہزار افراد نے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ نتائج کی پرواہ کئے بغیر حجاب پہن کر شاعمہ العوضی کے لئے یکجہتی کا اظہار کریں گی“

یہ ہے مسلمانوں کے خون کی طاقت ،یہ ہے اس امریکہ کے دل میں گھر کرتااوراپنی جگہ بناتااسلام جسے اپنے زعم میں یورپ شکست دینے چلاہے مگر انہیں کیامعلوم کہ اسلام ایک سچا،دلیرانہ اورسخت جان مذہب ہے جس کسی نے اسے مٹانے کی کوشش کی اور اس سے عداوت قائم کی یہ اسی کے قلب میں تیر قضابن کرایسا اترا کہ اس دشمن کونابود کرکے چھوڑا ۔ تاتاری یورش کی سنگینیاں اورمظالم کس سے مخفی ہوں گے لیکن تاریخ عالَم گواہ ہے کہ وہی فاتح تاتاری اسلام کے قدموں میں سررکھتے ہیں اور اسلام کی عظمت اورسربلندی کی ایک روشن مثال قائم ہوجاتی ہے:
ہے عیاںیورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو،صنم خانے سے

امریکہ ویورپ میں مسلمان خواتین پر حجاب کی پابندیوں کے بل منظور ہورہے ہیں اور معاملہ الٹ ہورہاہے کہ وہاں کی غیر مسلم خواتین حجاب کاعزم کررہی ہیں ۔ آج وہ شاعمہ العوضی ان میں موجود نہیں ہے لیکن اب وہاں ہزاروں شاعمہ العوضی پیدا ہوچکی ہیں، اس سے قبل جرمنی کی عدالت میں ایک مسلمان خاتون شہیدة الحجاب مروہ الشربینی کو اسی حجاب کے جرم میں بھری عدالت میں ایک بدبخت نے خنجروں کے وار کرکے شہید کیا تھا لیکن ان قاتلوں کوکیا پتہ کہ یہ معاملہ ایک مروہ الشربینی کانہ تھا یہ توہر خاتون کی فطرت کی پکار ہے یہ ہر خاتون کی فطری پیاس ہے جو اس قسم کے گھٹیا اقدامات سے نہ دبتی ہے نہ کمزور پڑتی ہے بلکہ اس آواز میں مزید سوز پیدا ہوجاتا ہے اور یہ فطری پیاس مزید بھڑک اٹھتی ہے اور پھر ایک کے جانے سے ہزاروں اس کے قائم مقام بن جاتی ہیں۔غیر مسلم خواتین کایہ عزم ان قاتلوں اورحجاب دشمن یورپ کے منہ پر ایساطمانچہ ہے جو انہیں باربار تڑپاتا رہے گا اوریہ ایسا جال ہے جس میں زیادہ پھڑکنے سے یہ جال ٹوٹے گا نہیں بلکہ ان کی کھال میں مزید گہرا ہوتاچلاجائے گا اور یہ بدبخت اسلام دشمن اپنی حسرتیں لئے ناکام اس دنیا سے چلے جائیں گے ۔امریکہ ویورپ کی حجاب اور دیگر اسلامی شعائر سے نفرت کوئی ایسی بات نہیں جو کسی سے ڈھکی چھپی ہولیکن برا ہواحساس کمتری اور مرعوبیت کے مرض کا کہ جس کولاحق ہو اسے ذہنی مفلس بنا کرچھوڑتا ہے ایسا ہی معاملہ ہمارے ان قلم کاروں اور دانشوروں کا ہے جو ہر اچھائی امریکہ کے کھاتے میں ڈالنا اپنا فرض منصبی(یاحق نمک حلالی؟) جانتے ہیں اور اس قسم کے واقعات کی بھی ایسی دورکی توجیہ کرتے ہیں جس سے الزام مسلمانوں ہی کے سر آئے اور ان کے ممدوح یورپ کاتارتاردامن صاف نظر آئے۔

حالانکہ آنکھوں نظر آنے والی ، نہ جھٹلائی جانے والی حقیقت یہ ہے کہ یورپی قائدین اور ارباب سیاست اپنے استعماری مقاصد کے حصول کے راستے میں اسلام کو سب سے بڑی رکاوٹ یقین کرتے ہیں اور اس کے سوا کسی دوسری تہذیب و ثقافت یا نظریہ و نظام کو رکاوٹ خیال نہیں کرتے، وہ اسلام کو ایک آہنی دیوار تصور کرتے ہیں اور انہیں اس امر کا یقےن ہو چکا ہے کہ اسلام اپنی حقانےت اور صداقت کی وجہ سے خود مغربی ممالک کے عوام کے قلوب واذہان میں دن بدن اثر ونفوذ کی وجہ سے ان کے لئے ایک مہیب خطرہ بنتا جا رہاہے ۔اسی لئے ان میں مسلمانوں کے خلاف ایسا متشددانہ رویہ پیدا ہورہاہے اور وہ اسلام دشمنی میں حواس باختہ ہوکرہرالٹا سیدھا کام کررہے ہیں۔ہمارے اس دعویٰ کی صداقت کا یقین ان کے معتبر اور ذمہ دارمفکرین اور رجال سےاست و حکومت کے کچھ نظریات سے ہو سکتا ہے ۔

معروف یورپی مفکر لارنس براون نے اسلام سے اپنے خوف اورڈر کوظاہر کرتے ہوئے لکھاہے:
” ہمارے قائدین ہمارے عوام کو کئی طرح کے خطرات سے ڈرایا کرتے تھے، لیکن جب ہم نے ذرا گہرائی میں اُتر کر ان خطرات کے بارے میں تحقےق و تنقید کی تو پتہ چلا کہ وہ سارے کے سارے خطرت اوہام اور وساوس کے سوا کچھ نہ تھے۔ یہ قائدین ہمیں یہود،جاپانیت اور سرخ اشتراکیت(روس) کے ہوّوں سے ڈرایا کرتے تھے، لیکن ےہ سب کچھ بھی جھوٹ ہے کیونکہ یہودی تو ہمارے دوست ہیں، کمیونسٹ بھی ہمارے سچے حلیف بن سکتے ہیں البتہ جاپانیوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی حد تک ہمارے لئے خطرہ بن سکتے ہیں، لیکن ان سب موہوم خطرات کے برعکس جو چیز بالفعل ہمارے لئے خطرہ بن سکتی (اوربن چکی)ہے وہ صرف اسلام ہے۔ اسلام ہی صحیح معنوں میں ہمارے لئے، ہمارے وجود کے لئے، ہماری تہذیب و ثقافت کے لئے حقیقی طور پر خطرہ ہے، کیونکہ اسلام کے اندر آگے بڑھنے پھےلنے اور دوسری تہذیب وثقافتوں ، دوسری قوموں اور ان کے عوام کے قلوب واَذہان کو مسخر کرنے اور انہیں اپنے زیر سایہ لانے اور اپنے اندر جذب کرنے کی کامل استعداد وصلاحیت پائی جاتی ہے۔ مزید برآں یہ کہ زندہ رہنے اور دوسروں کو زندہ رکھنے کی جو قوت و صلاحیت اسلام میں پائی جاتی ہے، وہ اپنی ذات میں حیرت انگیز اور اپنے اَثرات کے حوالہ سے تسخیر کن ہے۔ “

گارڈنر ایک بڑا یورپی مفکر ہے وہ اسلام اورجہادکے بارے میں لکھتا ہے:
” جو استعداد و صلاحیت اور جہادی قوت وطاقت اسلام میں پوشیدہ ہے، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اوردرحقیقت اسی کے اندر یورپ کے لئے حقیقی خطرہ پوشیدہ ہے۔ “

فرانس جہاں حجاب کے خلاف بل بھی پاس ہوچکاہے اور فرانس کی اسلام دشمنی کا عرصہ کئی دھائیوں پر پھیلا ہواہے اس کا ایک سابق وزیر کاکہناہے :
” روئے زمین پر کوئی ایسا علاقہ نہیں ہے، جہاں کسی نہ کسی صورت میں اسلام نہ پہنچ چکا ہو اور وہاں کے لوگوں کے دل و دماغ میں اُتر کر ان کے اوپر اپنا اثر و نفوذ قائم نہ کر چکا ہو، کیونکہ تمام اَدیان میں صرف اسلام ہی ہے، جسے قبول کرنے کی لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں اس قدر کشش و جاذبیت پائی جاتی ہے، کہ اس کے حوالے سے کوئی بھی دوسرا دین اس کے ہم پلہ نہیں یا ہم پلہ ہونے کا ادنیٰ ترین دعویٰ بھی نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں میں جہادی قوتیں زور پکڑتی جا رہی ہیں، جو ہماری بقاءکے لئے شدید خطرہ کی گھنٹی ہے۔ (اس لئے اے یورپ وفرانس والو!)اب خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ، اور ان جہادی قوتوں کا راستہ روکنے کے لئے وہ کام کرو، جو تمہارے آباو اجداد نے کیا تھا۔“

ایک اوریورپی دانشور اشعیالومان اہل یورپ کوتنبیہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
” یورپ کو اسلام سے شدید خطرہ ہے، یورپ کے لئے لازم ہے کہ وہ اسلام کو خوف و خطرہ کا سبب قرار دے۔ اسلام کو خوف و خطرہ کا سبب قرار دینا بلا جواز نہیں ہے اور نہ ہی بلااسباب ہے۔ ان اسباب میں صرف یہی سبب کافی ہے، کہ اسلام اپنے ابتدائی ایام ظہور سے لے کر آج تک مسلسل و پیہم نہ صرف اپنا وجود باقی رکھے ہوئے ہے بلکہ وہ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہاہے، بلکہ آگے بڑھ رہا ہے،ا ور باقاعدگی کے ساتھ براعظموں میں پھیلتا جا رہا ہے۔ اسلام سے خوف محسوس کرنے کا ایک اور اہم ترین سبب یہ ہے کہ اسلام کے اَساسی و بنیادی اَرکان میں سے ایک اہم ترین رکن جہاد ہے “

یورپی مفکرین اور وہاں کے ارباب سیاست وارباب اختیار اسلام اورمسلمانوں کوکس نظر سے دیکھتے ہیں درج بالااقتباسات سے اس کابخوبی ادراک ہوجاتاہے۔آج اگر انہوں نے اپنی سرزمین پر اسلام اورمسلمانوں کے وجود کوبرداشت کررکھا ہے تو اس کی وجہ ان کی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی نہیں ہے بلکہ ان کے اپنے مفادات پورے ہورہے اور وہ ان مسلمانوں کی صلاحیتوں کواپنے مفادات کیلئے استعمال کررہے اس لئے اس کو برداشت کررہے ہیں ورنہ ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف جو بغض ہے وہ اس سے بہت درجہ کم ہے جو ان کے مونہوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہم بھی یورپ اورامریکہ کوکہنا چاہتے ہیں کہ واقعی تمہارے لئے اسلام سب سے بڑا خطرہ ہے ۔جی ہاں! یہ تمہاری حیوانی تہذیب کے لئے خطرہ ہے،یہ تمہاری فحاشی پر مبنی ثقافت کے لئے خطرہ ہے، یہ تمہاری اخلاق باختگی کے لئے خطرہ ہے، یہ تمہارے مادرپدرآزاد معاشرے کے لئے خطرہ ہے،یہ تمہارے استعماری ایجنڈوں کے لئے خطرہ ہے، یہ تمہارے ولڈآرڈر کے لئے خطرہ ہے، یہ تمہاری عالمی دہشت گردی کے لئے خطرہ ہے۔اوراب تم اندرونی وبیرونی طور پر اسلام کے شکنجے میں کسے جاچکے ہواورتمہاری اپنی خرمستیوں کی وجہ سے اسلام کو تقویت مل رہی ہے کہیں تمہارے مظالم وجارحیت کی وجہ سے غافل مسلمانوں میں بیداری پیدا ہورہی ہے اوران کے سامنے تمہارا اصلی چہرہ ہر آئے دن بے نقاب ہورہاہے اوران میں اسلام سے مضبوط تعلق اورجہاد کی بے پناہ محبت لمحہ بہ لمحہ کروٹیں لے کر انہیں تم سے انتقام لینے اوراپنے مذہب پر فدا ہونے کیلئے بے چین کررہی ہے اورکہیں خود تمہارے معاشرے میں تمہاری اقدار کا بائیکاٹ ہورہاہے اور کیوں نہ کہ اسلام ہی کے دامن میں وہ سکون اوراطمینان کامل طریقے سے موجود ہے جس کو پانے کیلئے شیطان نے انہیں خلاف فطرت کاموں میں لگایاتھا مگرجب انہیں اسلام کے دامن رحمت کے قریب آنے کاموقع ملا تو سب شیطانی کاوشیں خس وخاشاک کی طرح بہنے لگیں اوراب بھی جس قدر اسلام کی تیغ سے تمہارے ائمة الکفر کی گردنیں اُڑتی جائیں گی تو دیکھنا اسلام کی کرنیں کہاں سے کہاں سے آفتاب بن ابھرتی ہیںاورمسلمانوں کاخون کس طرح اپنا رنگ جماتاہے!۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372672 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.