1971ءکی پاکستان بھارت جنگ اور
مملکت پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان 2جولائی1972ءکو
شملہ سمجھوتہ طے پایا۔اس سمجھوتے کے تحت1947-48ءکی جنگ کشمیر میں اقوام
متحدہ کی مداخلت پر قائم ہونے والی سیز فائر لائین کولائین آف کنٹرول کا
نام دیا گیا۔شملہ سمجھوتے کے بعد کنٹرول لائین کے پوائنٹ NJ9852تک حد بندی
کی گئی اور اس سے آگے کے برفانی دشوار گزار علاقے کوناممکن قرار دیتے ہوئے
اس کی حد بندی نہیں کی گئی۔ اس سے آگے کے علاقے کے بارے میں یہی تصور کیا
گیا کہ قائم کی گئی لائین آف کنٹرول سیدھی ہی آگے بڑھتی جائے گی۔ 1984ءمیں
بھارت نے فوجی مہم جوئی کے ذریعے سیاچن،جس کا مطلب کالے گلاب کی سرزمین ہے،
کے برف زار علاقے میں اپنے فوجی دستے بھیج دیئے اور اس علاقے میں اپنی فوجی
پوزیشن مستحکم کر لی۔اس وقت کی فوجی حکومت نے اس معاملے کو زیادہ اہمیت
نہیں دی اور قوم کو بتایا گیا کہ وہ علاقہ غیر ضروری ہے،وہاں تو گھاس بھی
نہیں اگتی۔اس کے بعد بھارتی فوج کے مزید پیش قدمی کے آثار نظر آنے لگے تو
بھارتی فوج کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے پاکستانی فوجی دستے متعین
کئے گئے۔ یوں بھارتی فوجی دستوں کو سیاچن سے پیچھے دھکیلنے کے بجائے اسے
وہیں روکنے کی حکمت عملی اپنائی گئی اور اس حکمت عملی کے دفاع میں یہ کہا
گیا کہ بھارتی فوج کو سیاچن کے برفانی جہنم میں پھنسا دیا جائے گا۔دونوں
ملکوں کے درمیان فوجی جھڑپوں سے زیاد ہ جانی نقصان انتہائی سخت قدرتی ماحول
کی وجہ سے ہوا۔ اب تک سیاچن میںدونوں ملکوں کے تقریبا8ہزار فوجی ہلاک ہو
چکے ہیں اور زیادہ ہلاکتیں انتہائی بلند برفانی علاقے کی وجہ سے ہوئی
ہیں۔بھارتی فوجی مہم جوئی کی وجہ سے سیاچن کو دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ
قراردیا گیا۔
پاکستان نے سیاچن پر بھارتی قبضے کو قبول نہیں کیا اور دونوں ملکوں کے
درمیان اس بارے میں مزاکرات بھی ہوتے رہے۔پاکستان کا موقف تھا کہ بھارت
سیاچن سے اپنی فوجی نکالے جبکہ بھارت کا موقف تھا کہ سیاچن میںمیں قبضے کی
پوزیشن کو ’جوں کا توں‘ رکھا جائے۔1998-99ءمیں پاکستانی فوج نے کرگل کے
علاقے میں بھارتی فوج کی موسم سرما میں خالی کی گئی فوجی چوکیوں پر قبضہ کر
لیا اور مزید پیش قدمی سے بھارت کے لئے سیاچن کو جانے والی فوجی کمک بند
ہونے خطرہ پیدا ہو گیا ۔بھارت نے اس علاقے میں بھرپور جنگ شروع کی دی ،بھرپور
جنگ ہمارے پالیسی سازوں کی حکمت عملی میں شامل نہیں تھی اس لئے حاصل کئے
گئے علاقے خالی کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی۔2003ءمیں دونوں ملکوں کے
درمیان کشمیر کی لائین آف کنٹرول پر سیز فائرکا معاہدہ ہوا اور اس وقت سے
کنٹرول لائین کے علاوہ سیاچن میں بھی پاکستان اور بھارت کی فوجیں آمنے
سامنے موجود ہیں۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان میں یہ سوچ حاوی رہی کہ اب پاکستان کے پاس کھونے
کو اور کچھ نہیں ہے ۔لیکن اس کے بعد بھارت نے پاکستانی علاقوں پر قبضے کی
پالیسی اپنائی۔اسی پالیسی کے تحت سیاچن پر قبضہ کیا گیا۔معتبر ذرائع سے
ملنے والی ایک اطلاع کے مطابق سابق مشرف دور میںگلگت بلتستان سے ملحقہ آزاد
کشمیر کی نیلم ویلی میں دودرجن کے قریب دیکھ بھال کی چھوٹی چوکیوں پر
بھارتی فوج نے حیلے بہانوں سے قبضہ کر لیا اور ہماری طرف سے اس پر کوئی
ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔یوں اگر سیاچن پر بھارتی فوجی قبضے کی مہم جوئی پر
ہماری طرف سے سخت ردعمل ہوتا اور اپنی سرزمین کو آزاد کرانے کی حکمت عملی
اپنائی ہوتی تو پاکستانی علاقوں کو کترنے کی بھارتی پالیسی کا سد باب ہو
جاتا۔بقول شاعر ،
”مگر یہ ہو نہ سکا ا ور اب یہ عالم ہے کہ تو نہیں تیرا غم تیری جستجو بھی
نہیں “
حکمت وعمل والے دوراندیش جانتے تھے کہ اگر ہم نے کشمیر چھوڑدیا توکشمیرہمیں
کہیںکانہ چھوڑے گا“۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے پاکستان کے وسیع پر مفادات
کو نظر انداز کر کے ورلڈ بنک کی پیش کردہ بھارتی موقف کی تقویت پر مبنی
تجاویز کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کر لیااور یوں
مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو تسلیم کر لیا گیا۔1947ءمیں گلگت بلتستان کے
ڈوگرہ فوج میں شامل مسلمان فوجیوںنے کرنل مرزا حسن خان،میجر بابر،کیپٹن
حیدر اور دوسرے افسران کی سرکردگی میں گلگت بلتستان کے علاوہ نیلم ویلی
کوبھی آزاد کراتے ہوئے 11400فٹ بلند درہ تراگبل پہنچ گئے۔ٹائیگر فورس کے ان
جوانوں نے خوراک و سامان کی شدید کمی کے باوجود انڈین آرمی کو ناکوں چنے
چبوا ئے۔ان جوانوں نے درہ تراگبل عبور کر کے بانڈی پورہ کی ڈھلوان پر اپنے
مورچے قائم کر کے بھارتی فوج کو عاجز کر دیا۔ اس علاقے میں بھارتی جنرل
تھمایا کمانڈ کر رہا تھا ۔آخر جب بھارتی فوج ان بے سرو سامان مجاہدین کے
مقابلے میں درہ تراگبل تک ٹینک لے آئی تو وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔
تقریبا ایک ہفتہ قبل سیاچن کے گیاری سیکٹر میں ایک کلومیٹر طویل اور اسی فٹ
اونچے گلیشئر نے ناردرن لائٹ انفنٹری کے بٹالین ہیڈ کواٹر کا اپنی لپیٹ میں
لے لیااور وہاں موجود 128فوجی اور11شہری برفانی تودے تلے دب گئے۔خراب موسم
کے باوجود نہایت دشوار صورتحال میں گلیشئر میں کیمپ کے مقام پر کھدائی کا
کام جاری ہے۔امریکی ماہرین کے بعد جرمن اور سوئس ٹیمیں بھی برفانی تودے میں
دبے افراد کی تلاش کے کام میں مصروف ہیں۔ملک بھر میں ان فوجیوں اور سویلین
افراد کی سلامتی کے لئے خصوصی دعاﺅں کا سلسلہ جاری ہے اور اللہ تعالی کی
رحمت سے معجزے کی دعائیں کی جا رہی ہیں۔گیاری سیکٹر کے اس بٹالین ہیڈ کواٹر
میں دب جانے والے فوجیوں کی اکثریت کا تعلق گلگت بلتستان سے اور26فوجیوں کا
تعلق آزاد کشمیر سے ہے ۔ایک اطلاع کے مطابق برفانی تودے میں دب جانے والے
افراد کی تعداد 155ہے ۔ان میں ایک لیفٹینٹ کرنل اور دو کیپٹن بھی شامل
ہیں۔ابتدائی طور پر پانچ لاشیں نکالی جا سکی ہیں۔گیاری سیکٹر13ہزار فٹ کی
بلندی پر واقع ہے اور اس کے گرد و نواح میں دور تک کوئی آباد نہیں ہے
۔پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی فوری طور پر متاثرہ علاقے
میں پہنچے اور انہوں نے امدادی کاروائیاں شروع کرائیں۔پالیسی سازوں کی ناقص
پالیسیوں سے چاہے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو لیکن وطن کی حفاظت پر معمور ان
پاکستانی فوجیوں کا دکھ ہر محب وطن کا غم ہے۔پاکستانی عوام کو فخر ہے کہ ان
کی فوج کے جوان پاکستان کے لئے ہمہ وقت ہر امتحان سے گزرنے اور ہر قربانی
دینے کو تیار ہیں۔ |