چند بری رسمیں

تحریر مسز پیرآف اوگالی شریف

جب تک اسلام عرب کی زمین تک محدود رہا اس وقت مسلمانوں کا معاشرہ اور ان کا طرزِ زندگی اسلامی اُصولوں کے مطابق تھا۔ لیکن جب اسلام عرب سے باہر دوسرے ممالک میں پہنچا تو دوسری قوموں اور دوسرے مذاہب والوں کے میل جول اور ان کے ماحول سے مسلمانوں کے طریقہ زندگی پر بہت زیادہ اثر پڑا اور کفار و مشرکین اور یہود و نصارٰی کی بہت سی غلط اور من گھرٹ رسموں کا مسلمانوں پر ایسا جارحانہ حملہ ہوا کہ مسلمان بھی ان میں ملوث ہو گئے آج بھی بد قسمتی سے شادی، بیاہ، خوشی، غمی اور دیگر تقریبات میں باپ داداؤں کی روایتی رسمیں پائی جاتی ہیں جو کچھ تو یقیناً حرام و ناجائز ہیں اور کچھ جائز بھی ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ جائز رسموں کی پابندی اس حد تک ہونی چاہئیے کہ اس میں کوئی فعل حرام شامل نہ ہو۔

اکثر مسلمانوں میں رواج ہے کہ بچوں کی پیدائش یا عقیقہ یا شادی بیاہ کے موقعوں یا رشتہ داروں کی عورتیں جمع ہو جاتی ہیں اور گاتی بجاتی ہیں یہ ناجائز و حرام ہے کہ اولاً ڈھول بجانا ہی حرام، پھر عورتوں کا گانا اور زیادہ بُرا، عورت کی آواز نامحرموں کو پہنچنا اور وہ بھی گانے کی اور وہ بھی عشق اور ہجر و وصال کے اشعار اور گیت یہ سب چیزیں کتنے فتنوں کا سر چشمہ ہیں۔ اسی طرح عورتوں کا رتجگا بھی ہے کہ رات بھر عورتیں گاتی بجاتی رہتی ہیں اور گلگلے پکتے رہتے ہیں پھر صُبح کو گاتی بجاتی ہوئی مسجد میں طاق بھرنے کیلئے جاتی ہیں اس میں بہت سی خرافات پائی جاتی ہیں نیاز گھر میں بھی ہو سکتی ہے اور اگر مسجد ہی میں ہو تو مرد لے جا سکتے ہیں عورتوں کو جانے کی کیا ضرورت ؟ ان عورتوں کے ہاتھ میں ایک آٹے کا بنا ہوا چار بتّیوں والا چراغ بھی ہوتا ہے جو گھی سے جلایا جاتا ہے حالانکہ جب صُبح ہو گئی ہو تو چراغ کی کیا ضرورت ؟ اور پھر تیل کی جگہ گھی کا چراغ جلایا جاتا ہے۔ بہرحال یہ سب کچھ اسراف اور فضول خرچی اور مال کو برباد کرنا ہے جو کہ شرعاً حرام ہے۔

دولہا دلہن کو ابٹن ملوانا اور مائیوں بٹھانا جائز ہے لیکن دولہا کے ہاتھ پاؤں میں زینت کیلئے مہندی لگانا جائز نہیں ابٹن بھی غیر عورتیں دولہا کو نہیں مل سکتیں یونہی دولہا کو ریشمی پوشاک یا زیورات پہننا حرام ہے خالص پھولوں کا سہرا جائز ہے بلاوجہ اس کو ممنوع نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں سونے چاندی کی تاروں، گوٹوں، لچھوں اور کلابتوں وغیرہ کا بنا ہوا ہار یا سہرا دولہا کیلئے حرام اور دلہن کیلئے جائز ہے۔

ناچ باجہ، آتش بازی حرام ہے شادیوں میں دو قسم کے ناچ کرائے جاتے ہیں ایک رنڈیوں کا ناچ جو مردوں کی محفل میں ہوتا ہے۔ دوسرا وہ جو خاص عورتوں کی محفل میں ہوتا ہے کہ کوئی ڈومنی یا مراثن ناچتی ہے اور کمر کولہے مٹکا مٹکا کر اور ہاتھوں سے چمکا چمکا کر تماشہ کوتی ہے یہ دونوں قسم کے ناچ سخت حرام و ناجائز ہیں۔

آتش بازی خواہ شبِ برات میں ہو یا شادی ہر جگہ ہر حال میں حرام ہے اور اس میں کئی گناہ ہیں۔ اس میں اپنے مال کو فضول برباد کرنا ہے قرآن مجید میں فضول مال اڑانے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے اور ان لوگوں سے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بیزار ہیں۔ پھر اس میں ہاتھ پاؤں کے جل جانے یا مکان میں آگ لگ جانے کا خوف ہے اور بلا وجہ جان یا مال کو ہلاکت اور خطرے میں ڈالنا شریعت میں حرام ہے۔

اسی طرح شادی بیاہ میں دولہا کو مکان کے اندر بلانا اور عورتوں کے سامنے آ کر یا تاک جھانک کر اس کو دیکھنا، اس سے مذاق کرنا، اس کے ساتھ چوتھی کھیلنا یہ سب رسمیں حرام و ناجائز ہیں۔

نیز عورتوں کا بہت باریک کپڑے یا بجتے ہوئے زیور پہننا جن کی آواز غیر مرد سنے یہ سب رسمیں ناجائز ہیں۔ عورت ایسی خوشبو لگائے جس کی مہک غیر مردوں تک پہنچے ناجائز ہے۔ لیکن آہ ! آج حالت تو یہ ہے خصوصاً شادیوں میں، عورتیں بن سنور کر غیر مردوب کے جھرمٹ میں دندناتی پھر رہی ہوتی ہیں حالانکہ بے پردگی حرام ہے کاش کہ ہماری ماں بہنیں پردے کی اہمیت کو سمجھتیں اور ان کے اندر خوف خدا پیدا ہوتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مرنے کے بعد بے پردگی مہنگی پڑ جائے اور خدا عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کے سبب جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔
اے میری بہنوں سدا پردہ کرو
تم غیر مردوں کے سامنے مت پھرو
ورنہ سن لو قبر میں جب جاؤ گی
سانپ بچھو دیکھ کر چلاؤ گی

عقیقہ میں سنّت صرف یہ ہے کہ لڑکے کے عقیقہ میں دو بکرے اور لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکرا ذبح کرنا اور اس کا گوشت کچا یا پکا کر تقسیم کر دینا اور بچے کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کر دینا اور بچے کے سر میں زعفران لگا دینا یہ سب کام تو جائز ہیں۔ باقی اس کے علاوہ جو رسمیں ہوتی ہیں کہ نائی سر مونڈنے کے بعد سب کنبہ و برادری کے سامنے کٹوری ہاتھ میں لے کر اپنا حق مانگتا ہے اور لوگ اس کٹوری میں پیسے ڈالتے ہیں۔ اس طرح نائی کی کٹوری میں جو کچھ ڈالا جاتا ہے وہ گھر والوں کے ذمّہ ایک قرض ہوتا ہے کہ جب ان دینے والوں کے یہاں عقیقہ ہوگا تو یہ لوگ اتنی ہی رقم ان کے نائی کی کٹوری میں ڈالیں گے اسی طرح سوپ میں کچا اناج رکھ کر نائی کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح عقیقہ میں لوگوں نے یہ رسم مقرر کر لی ہے کہ جس وقت بچّے کے سر پر استرا رکھا جائے فوراً اسی وقت بکرا بھی ذبح کیا جائے یہ سب رسمیں بالکل ہی غلط ہیں شریعت میں صرف بات اتنی ہے کہ نائی کو سر مانڈنے کی اجرت دے دی جائے اور بکرا خواہ سر مونڈنے سے پہلے ذبح کریں خواہ بعد میں سب جائز و دُرست ہیں۔ اسی طرح ختنہ میں بعض جگہ اس رسم کی بے حد پابندی کی جاتی ہے کہ بچّے کا لباس، بستر، چادر سب کچھ سُرخ رنگ کا تیار کیا جاتا ہے اور چوبیس گھنٹے بچّہ کے ہاتھ میں چاقو یا چھُری کا رکھنا لازم سمجھا جاتا ہے یہ سب رسمیں مَن گھڑت خرافات ہیں۔ شریعت میں ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 9 Articles with 10941 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.