قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نے
اردو بولنے سے معذرت کرلی، صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
وہ اردو نہیں بول سکتے۔ خبر میں اس بات کی وضاحت نہیں ملتی کہ ان کے معذرت
کی وجہ کیا تھی، کیا وہ اردو سے ناآشنا ہیں، یااردو بولنے میں ان کی توہین
کا کوئی پہلو نکلتا ہے کہ ایسا کرنا ان کے منصب کو زیب نہیں دیتا، بہتر
ہوتا کہ اردو سے معذرت کی خبر کے ساتھ ہمارے صحافی بھائی اس کی وجہ بھی
معلوم کرلیتے۔ اگرچہ وجہ معلوم نہیں ، لیکن سب کو معلوم ہے کہ اس انکار کی
وجہ کیا ہے۔
ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جن کی قومی زبان بھی مظلوم ہے، جن کے حکمران اور
بیوروکریسی اردو کی بجائے انگریزی بولنے کو ترجیح دیتے ہیں، کئی ایسے
حکمران بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان پر مسلط رہے ہیں جو اردواخبارات ہی نہیں
پڑھتے تھے۔ جس فرد کو انگریزی نہیں آتی وہ کسی محفل میں معزز نہیں کہلاسکتا،
اہمیت اسی کی ہوتی ہے جو انگلش میں بات کرے۔ انگریزی کو پروٹوکول کی زبان
بنادیاگیا ہے، بعض تقریبات کو اعلیٰ سطحی بنانے کے لئے ان میں صرف انگلش
میں ہی خطابات فرمائے جاسکتے ہیں، ایسی تقریبات میں اردو کا داخلہ بند ہوتا
ہے۔
انگریزی بولنا تو عام ہے ، مگراب صرف انگریزی بولنے کی مثالیں بھی سامنے
آنے لگی ہیں، آخر اس تبدیلی کے پیچھے کو ئی سوچ تو ہے جو ماحول بنارہی ہے،
یہی وجہ ہے کہ اب سرکاری نصاب بھی انگلش میڈیم ہواکرے گا، اگرچہ ترقی کے اس
زینہ پر ہم صدیوں پہلے قدم رکھ چکے تھے ، مگر اب ہمارے حکمرانوں اور ماہرین
تعلیم نے یہ راز پالیا ہے کہ انگریزی کی تعلیم کو عوام وغیرہ کی مرضی پر نہ
چھوڑا جائے ،یعنی اختیاری یا صوابدیدی نہ ہو بلکہ اب اسے نصاب تعلیم کا
لازمی حصہ بنادیاجائے، چنانچہ اب ہماری نئی نسل اس بین الاقوامی زبان میں
ہی تعلیم حاصل کیا کرے گی، اب ہم بھی کسی سے کم نہ ہونگے۔ یہاں یہ گھسا پٹا
موضوع چھیڑنا مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ ایک ناخواندہ قوم کو پہلے سکول کی
راہ تو دکھائی جائے، پھر تدریس کی زبان کا تعین بھی ہوجائے گا۔
اگر ہماری گزارشات کو جذبات سے مغلوب نہ جانا جائے تو ہم عرض کریں گے کہ
ہمارا انگریزی بولنے والا طبقہ دراصل انگریزوں کی غلامی میں ذہنی اور دلی
طور پر جکڑا ہوا ہے، ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی وغیرہ کے لئے انگریز کی
جو حیثیت ہے وہی عوام کے لئے انگریز کے ان شاگردوں کی ہے جو قوم پر مسلط
ہیں۔ ہمارے دانشور بھی انگریزی کی مخالفت کو گناہ جانتے ہیں کہ یہ
’انٹرنیشنل ‘ زبان ہے، پوری دنیا میں سنی اور سمجھی جاتی ہے، اس لئے اس کے
بغیر چارہ نہیں۔ لیکن ہمارے ان رائے سازوں کو ان ممالک کے معاملات کا جائزہ
بھی لینا چاہیئے جہاں انگلش کا کوئی لفظ کسی سائن بورڈ پر بھی نظر نہیں آتا
، وہ قومیں یورپ میں نمایاں حیثیت سے زندہ ہیں، وہ قومیں نہ کسی کی محتاج
ہیں اور نہ ہی دست نگر۔
جن ممالک میں انگریزی پڑھائی،بولی ،لکھی اورسمجھی نہیں جاتی ان کو ہمارے
حکمران یا بیوروکریٹ یا دانشور کیا نام دینا پسند فرمائیں گے، وہ ممالک تنگ
نظر ہیں، وہ غیرمہذب ہیں، وہ ماضی سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں، وہ دقیانوسی ہیں۔
ٹھیک ہے بہت سے ممالک میں انگریزی کو بطور مضمون کے پڑھایا جاتا ہے، مگر
جاپان، چین، جرمنی، ڈنمارک، ناروے ، روس اور بھی بے شمار ملک ایسے ہیں جو
ترقی کی منازل طے کرچکے ہیں مگر انگریزی کے بغیر، ان پر کوئی فتوے بازی
نہیں ہوتی، بلکہ وہ بھی ہمارے لئے مثال ہی ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں مقتدر
لوگوں کا یہ آخری فیصلہ ہے کہ انگریزی ہی حرف آخر ہے، اسی کے راستے ترقی کی
منزل پر پہنچاجاسکتا ہے، ایسے میں اگر احتساب بیورو کے چیئرمین اردو بولنے
سے انکار فرما دیں تو اردو کی توہین کا پہلو نہیں نکلتا، نہ ہی اس کی بے
عزتی ہوتی ہے(وہ تو عزت والوں کی ہوتی ہے) البتہ اہم تقریبات اور مواقع پر
اردو بولنے والوں کو کمتر سمجھاجاتا ہے، آئندہ اس میں اضافہ ہی متوقع ہے۔ |