تنگ نظر کون............ مسلمان یا مغربی اقوام؟

صاحبان علم و دانش کا کہناہے کہ مغرب، دین اسلام کے حوالے سے احساسِ کمتری اور خوف کا شکار ہے۔ اپنی عالمگیر سچائیوں کی بدولت دین اسلام مغرب کے ہر گھر پر ہی نہیں ہر درِ دل پر بھی دستک دے رہا ہے اور خوشبو کی طرح پھیلتا ہی چلا جارہا ہے۔ اپنے دفاع کے لیے مغرب کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اب ان کے تھنک ٹینکس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسلام کی ہر دلیل کا جواب گالی سے دیں گے۔ یورپی اخبارات و رسائل میں گاہے بگاہے حضور نبی کریم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے شائع ہونے والے مضامین اور خاکے اسی ناپاک منصوبے کا حصہ ہیں۔ ان بزر جمہروں کو معلوم نہیں کہ اس سے شانِ رسالت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس ان کا اپنا ہی خبث باطن دوسروں کے سامنے آشکار ہوجاتا ہے۔ ایسی گھٹیا اور مذموم حرکتیں دین اسلام کا راستہ نہیں روک سکتیں بلکہ یہ اپنی آفاقی سچائیوں کے سبب تیزی سے بلندی کی منازل طے کر رہا ہے۔

کئی سال پیشتر ملعون پادریوں کے ایک گروہ نے قرآن مجید کے خلاف بنائی جانے والی دل آزار فلم ”فتنہ“ انٹر نیٹ پر ریلیز کی جس میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کی تضحیک اور اس کی پاک تعلیمات کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے دہشت گردی کا منبع قرار دیا۔ پادریوں کی اس ناپاک جسارت سے ہر مسلمان خون کے آنسو روتا رہا۔ قدرت کا کمال دیکھیے کہ اس فلم کے ریلیز ہونے سے اب تک تقریباً 1200 کے قریب عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس فلم کو دیکھنے کے بعد قرآن مجید کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ فلم ”فتنہ“ میں پیش کی جانے والی تمام باتیں نہ صرف غلط بلکہ اسلام کے خلاف چھوٹے پروپیگنڈے کا نتیجہ ہیں۔

حقیقت بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی کا شور مچانے اور نعرے لگانے والے عیسائی رہنما خود سب سے بڑے انتہا پسند ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں سے جو امتیازی سلوک ہو رہاہے وہ کسی ذی شعور سے پوشیدہ نہیں۔ محمد اور احمد ناموں کے حامل مسلمانوں پر، ویزہ اور ملازمت کی پابندی لگانا، نئے نئے سخت امیگریشن قوانین بنانا، سکینینگ کے ذریعے مسلمان خواتین و مردوں کی تلاشی لینا۔ انٹرنیٹ پر ”الفرقان“ کے نام سے جعلی قرآن مجید پیش کرنا کس ذہنیت کی غمازی کرتا ہے؟ کیا یہ سب انتہا پسندی اور دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا؟

انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے مغرب کے اپنے پیمانے اور معیارات ہیں۔ وہ مسلمانوں کے لیے نہایت متعصبانہ رویہ رکھتا ہے مثلاً جب ایک یہودی لمبی داڑھی رکھتا ہے کہ تو کہا جاتا ہے کہ یہ اس کے مذہب کاحصہ ہے، لیکن ایک باریش مسلمان کو انتہا پسند اور دہشت گرد گردانا جاتا ہے۔ ایک عیسائی راہبہ (نن) جب اپنے سر کو کپڑے سے ڈھانپتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو خدا وند کے لیے وقف کردیا ہے۔ لیکن جب ایک مسلمان خاتون سکارف لیتی ہے تو مغرب اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ عیسائی مرد و عورت اگر صلیب (کراس) کا نشان گلے میں ڈال کر برسرعام پھریں یا سینے پر کراس بنانے کے لیے انگلیاں گھمائیں تو اسے ہرگز ناروا نہیں سمجھا جاتا لیکن ایک مسلمان کو دینی و شرعی صورت اور اعمال پر معترضہ قرار دیا جاتا ہے۔ چرچ کی عمارت پر گھنٹیاں بجیں تو درست ہیں، مگر مسجد سے اذانوں کی آوازیں بلند کی جائیں تو اسے سماعت پر بوجھ اور نیند کش کہا جاتا ہے۔ جب ایک مغربی عورت ملازمت کرنے کے بجائے اپنے خاوند اور بچوں کی خاطر ایک گھریلو عورت کا کردار ادا کرتی ہے تو پورا معاشرہ اس کی تحسین کرتا ہے کہ اس نے اپنے گھر کے لیے خارجی زندگی کی قربانی دی ہے مگر جب ایک مسلمان عورت ایسا کرتی ہے تو اس پر زبردست تنقید ہوتی ہے کہ اسے گھٹن کے ماحول سے باہر نکلنا چاہیے کیونکہ اسے آزادی کی ضرورت ہے۔ مغرب میں نوجوان لڑکی کو مکمل آزادی اور حقوق حاصل ہیں کہ وہ یونیورسٹی یا کالج میں اپنی مرضی کا لباس پہنے، چہرے اور بازوﺅں پر نقش و نگار بنوائے لیکن جب ایک مسلمان لڑکی حجاب پہن کر کالج جاتی ہے تو اس کا مکمل بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔ مغرب میں جب ایک بچہ کسی خاص موضوع کے لیے خود کو مخصوص کردیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اس کی ذہانت اور Potential کا بین ثبوت ہے لیکن جب ایک مسلمان بچہ خود کو اسلام کے لیے وقف کر دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنا مستقبل تباہ کرلیا ہے۔ جب ایک یہودی کسی کو قتل کرتا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل قرار دیا جاتا ہے، اس کے برعکس جب ایک مسلمان اپنے دفاع میں کسی کو قتل کردیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر ایسا کیا ہے۔ جب کوئی یہودی کسی کی خاطر خود کو تیاگ دیتا ہے تو ہر شخص اس کے کردار کی تعریف کرتا ہے لیکن جب کوئی فلسطینی مسلمان اسرائیلی فوج سے اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے ایسا کرتا ہے تو اس کے بھائیوں کے بازو توڑ دیے جاتے ہیں۔ اس کی والدہ کی عزت لوٹ لی جاتی ہے، اس کے گھر کو تباہ کردیا جاتا ہے اور اسے دہشت گرد قرار دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹارچر سیل میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود مغرب کو یہ زعم ہے کہ وہ انتہائی تہذیب یافتہ اور رواداری کا عالمی چیمپئن ہے۔ ان دوغلے اور دوہرے معیار اور سلوک کی نہ جانے کتنی مثالیں ہیں جو ان ملکوں میں نمایاں نظر آتی ہیں جو انسانی آزادی، انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے علمبردار کہلاتے ہی نہیں، دعویدار بھی بنتے ہیں۔

عجیب بات ہے کہ مغرب گستاخیِ رسول کو آزادی اظہار سے تعبیر کرتا ہے لیکن اس کے ہاں کسی شخص کو یہ جرات نہیں کہ وہ ہولوکاسٹ پر ایک لفظ بھی ادا کرسکے۔ ہولو کاسٹ کا مفہوم یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے دور اقتدار میں پولینڈ کے شہر شوئز میں بنائے گئے گیس چیمبرز میں تقریباً 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا۔ اس بنیاد پر یہودیوں نے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں ایک الگ ملک دیا جائے۔ اس پروپیگنڈہ کے نتیجہ میں اُن کو اسرائیلی ریاست الاٹ کردی گئی۔ بعد میں تحقیق ہوئی تو یہودیوں کا دعویٰ سراسر جھوٹا نکلا۔ تب یہودیوں نے ایک قانون بنوا دیا کہ ہولوکاسٹ کی مبینہ صداقت کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جو شخص ہولوکوسٹ کے جھوٹ پر تحقیق کرے گا، وہ قابل گردن زدنی ہوگا۔ چند سال پیشتر معروف تاریخ دان ڈیوڈ ارونگ (David John Cawdell Irving) کو آسٹریا کی عدالت نے محض اس لیے تین سال کی سزا سنا ڈالی کہ اُس نے صرف اتنا کہا تھا کہ ہولوکاسٹ میں یہودیوں کے قتل کی تعداد اتنی نہیں جتنی مبالغہ آرائی کی جاتی ہے۔ امریکا میں ہٹلر کا نشان Swastika شائع یا کسی جگہ پینٹ کرنا بھی صریح جرم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں مغرب کی آزادی اظہار کہاں چلی جاتی ہے؟

چند ماہ بیشتر امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک چرچ میں ملعون امریکی پادری ٹیری جونز ار اس کے ساتھی پادری وائن ساپ نے 30 آدمیوں کی موجودگی میں قرآن کریم کی بے حرمتی کی اور اسے نذر آتش کردیا۔ اس خبیث، بد فطرت اور مخبوط الحواس پادری نے گیارہ ستمبر 2010ءکو بھی قرآن کریم نذر آتش کرنے کا اعلان کیاتھا، اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا، اس کے علاوہ امریکہ، کنیڈا، فرانس اور جرمنی کی حکومتوں نے بھی ٹیری جونز کے اس اعلان کی مذمت کی تھی، جس کے بعد اس پادری نے مجرمانہ چپ سادھ لی تھی۔ پھر 21مارچ 2011ءکو اس نے اپنے ناپاک منصوبے پر عمل کرتے ہوئے نعوذ باللہ! قرآن کریم کو نذر آتش کردیا۔

قرآن پاک کی شہادت کا انکشاف فرانسیسی خبررساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں کیا جس کے بعد یہ خبر درجنوں آئن لائن اخبارات اور بالخصوص عرب ویب سائٹس پر شائع ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق فلوریڈ۱ کے قصبے گینس ویل میں اتوار کو ملعون پادری ٹیری جونز نے قرآن پاک کی شان میں گستاخی کے لیے ایک نام نہاد عدالت لگائی، جس کے بعد اس کے ساتھی ملعون پادری وائن ساپ نے قرآن پاک کے ایک نسخے کو آگ لگا دی۔ خبررساں ادارے کے مطابق چرچ میں قرآن پاک کے خلاف ”مقدمہ“ چلایا گیا۔ ملعون ٹیری جونز نے اللہ تعالیٰ کی مقدس کتاب کو (نعوذ باللہ) دہشت گردی اور دیگر جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کے بعد ”جیوری“ نے آٹھ منٹ تک غور و خوض کیا اور پھر ”سزا“ سنائی۔ اس دوران قرآن پاک کو ایک گھنٹے تک مٹی کے تیل میں ڈبوئے رکھا گیا۔ ملعون پادریوں نے شیطانی عدالتی کارروائی کے بعد قرآن کو نکال کر پیتل کی ایک ٹرے میں چرچ کے عین درمیان رکھا۔ معلون ٹیری جونز کی نگرانی میں دوسرے ذہنی دیوالیہ پادری وائن ساپ نے قرآن پاک کے نسخے کو آگ لگادی، اس موقع پر چند لوگوں نے جلتے قرآن مجید کے نسخے کے ہمراہ فوٹو بھی بنوائے۔ اطلاعات کے مطابق چرچ میں 30 کے قریب لوگ موجود تھے جن میں ایک خاتون سمیت اسلام سے مرتد ہونے والے 3 بد بخت بھی شامل تھے۔ ملعون ٹیری جونز کا کہنا تھا کہ میں نے ستمبر میں مسلمانوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت کرلیں اور اس کا دفاع کریں لیکن مجھے کوئی جواب موصول نہ ہوا تو میں نے سوچا کہ حقیقی سزا دئیے بغیر حقیقی ٹرائل نہیں ہوسکتا، اس لیے میں نے قرآن پاک کو (نعوذ باللہ) سزا دے دی۔ مبصرین کے مطابق اس سماعت کے بعد امریکہ میں اسلام مخالف انتہاءپسندوں کی حوصلہ افزائی ہوئی، کیونکہ پاکستان میں تحفظ ناموسِ رسالت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دفعات کو اقلیت کے خلاف قرار دینے والے امریکہ نے اپنے ملک کی مسلم اقلیت کے خلاف امتیازی سلوک کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔

ملعون و مبغوض امریکی عیسائی پادری اسلام، قرآن، نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کی دشمنی میں ایسے اندھے اور پاگل ہوچکے ہیں کہ ان کے دل و دماغ اور فکر و نظر سے صحیح اور غلط، حق اور باطل میں امتیاز مفقود اور رخصت ہوچکا ہے، اس لیے کہ جس کلام مقدس و مطہر نے حضرت بی بی مریم علیہا السلام کی پاکدامنی کی گواہی دی، جس عظیم کتاب نے یہودیت کی طرف سے بی بی مریم علیہا السلام پر لگائے جانے والے الزامات اور بہتانوں کا دفاع کیا، جس کلام الٰہی نے ان کو صدیقہ کے لقب سے نوازا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی مکمل تفصیلات کو بیان کیا، اور گہوارے میں ہوتے ہوئے ان کا اقرار (کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں، مجھے اللہ نے کتاب دی، اللہ تعالیٰ نے مجھے منصب نبوت عطا کیا، اللہ تعالیٰ نے مجھے بابرکت بنایا، اللہ تعالیٰ نے مجھے نماز اور زکوٰة کی تاکید کی) تفصیل سے ذکر کرکے دنیائے عیسائیت پر عظیم احسان کیا ہے۔

حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اگر قرآن کریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ کی عفت، پاکدامنی اور پاکیزگی کی صفائی اور گواہی نہ دیتا تو عیسائی دنیا قیامت تک یہودیوں کے پروپیگنڈوں کے سامنے شرمندگی سے سر نہ اٹھا سکتی تھی اور نہ ہی ان کے اتہامات اور الزامات کا دفاع کرسکتی تھی، لیکن قرآن کریم نے نہ صرف یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اولوالعزم اور برگزیدہ نبی ہونے کی تصدیق کی، بلکہ یہودیوں کی جانب سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام پر لگائے جانے والے تمام اتہامات اور الزامات کا منہ توڑ جواب بھی دیا، لیکن یہ ملعون، ناپاک اور بدبودار عیسائیت کے نام نہاد پیروکار، غلیظ و پلید پادری پھر بھی اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔

ملعون پادری ٹیری جونز کا لوگوں کو اس شرمناک فعل اور مذموم حرکت میں شرکت کے لیے دعوت نامے تقسیم کرنا، امریکی مقامی انتظامیہ کا مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا اور ان ناپاک پادریوں کو اس گھناﺅنی حرکت سے باز رکھنے کے لیے موثر اقدامات نہ کرنا، اور اس کے بعد امریکی کانگریس کی کمیٹی کا مسلمانوں میں دہشت گردی کے رجحانات کے جائزے کے نام پر متعصبانہ سماعت کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مسلمانوں کو مذہبی تنگ نظری اور عدم برداشت کا طعنہ دینے والے خود تشدد پسند، برداشت سے عاری اور متعصب ہیں۔ ورنہ بتلایا جائے کہ جو امریکہ اور اس کے حواری پاکستان میں کسی خود ساختہ واقعے پر مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مذمت کرتے دیر نہیں لگاتے، انہوں نے ان پلید پادریوں کی اس ناپاک جسارت کو ابھی تک مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کیوں قرار نہیں دیا؟

الحمد للہ! مسلمان جس طرح تمام انبیاءکرام علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں، اس طرح تمام انبیاءکرام علیہم السلام کی تعظیم و تکریم اور عزت و حرمت کو بھی فرض گردانتے ہیں۔ مسلمان جس طرح قرآن کریم کا ادب و احترام کرتے ہیں، اسی طرح تورات، انجیل اور زبور کا ادب کرنا بھی اپنے اوپر لازم، فرض اور ضروری قرار دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک جس طرح کسی نبی کی ادنیٰ توہین یا تنقیص سے کفر لازم آتا ہے، اسی طرح کسی نبی پر نازل شدہ کتاب یا صحیفہ کے انکار، توہین یا تنقیص سے بھی آدمی کافر ہوجاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جائے کہ متعصب، متشدد اور مذہبی تنگ نظر مسلمان ہیں یا یہ مغربی اقوام؟
Muhammad Mateen Khalid
About the Author: Muhammad Mateen Khalid Read More Articles by Muhammad Mateen Khalid: 17 Articles with 25303 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.