یہ منظر دیکھ کر میں حیران ہوئے
بغیر نہ رہ سکا۔یہ کوئی خوشگوار منظر نہیں تھاکہ میں فرط ِ جذبات میں خوشی
کے مارے انگشت بدندا ں تھا، سوچ کی وادیوں میں ایسا سرگرداں کہ گرد و نواح
کے احساس سے یکسر عاری گویا کہ فکرو تخیلات کی اک پٹری پر چڑھ دوڑا۔ اور
دوڑتا ہی گیا بہت دور تک۔۔۔! اتنا دور کے شاید وہاں سے لوٹ آنا ممکن نہ تھا
۔ لیکن سوچ تو ایک ایسی گھاٹی کا نام ہے جہاں سے صدیوں کا پیاسا لمحہ بھر
میں بنا سیراب ہوئے لوٹ سکتا ہے ۔ بس میرا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ میں
بھی ایک گھاٹ پر بڑی آرزوئیں ، حسرتیں اور امیدیں باندھے گیا ۔ لیکن ان
آرزوں ، حسرتوں اور امیدوں کے بوجھ کو کندھوں پر لاد کر مایوسی کا اضافی
بوجھ بھی ہمراہ لے آیا!
یہ روداد چین یا جاپان کے کسی سفر کی نہیں بلکہ ایک ویب سائٹ کے سفر کی ہے
اور وہ ویب سائٹ بھی کسی عام چھوٹے موٹے ادارے کی نہیں بلکہ ” کراچی چیمبر
آپ کامرس “ جی ہاں۔۔۔!” ایوان صنعت وتجارت کراچی “کے ویب سائٹ
کی۔”www.kcci.com.pk“ یہ وہ ویب سائٹ ہے جس سے پورے ملک کی صنعت وتجارت
وابستہ ہے ۔ یہ ویب سائٹ 53 زبانوں کی ترجمانی بیک وقت کرتی ہے ، مطلب یہ
کہ اس ویب سائٹ سے” آپ “53 زبانوں میں استفادہ کرسکتے ہو۔ میری مراد ۔۔۔آپ
۔۔۔ سے ان ممالک کے باشندگان ہیں جن کی یہ ویب سائٹ نمائندگی کرتی ہے ۔
ہمارے پڑوسی ملک انڈیا کی ہندی زبان کی بھی یہ ترجمان ہے اور تو اور حد
کردی کراچی چیمبر آف کامرس نے کہ اسرائیل کی مردہ ترین زبان ”Hebrew“میں
بھی اس ویب سائٹ کا مکمل ویزٹ کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ بہت ہی قلیل
الاستعمال زبانوں میں میں بھی یہ ویب سائٹ دستیاب ہے ۔ لیکن یہ پڑھ کر آپ
حیران ضرور ہونگے ۔بشرطیکہ۔۔۔! آپ کو پاکستانی قومی زبان سے انس ومحبت ہو۔
کہ کراچی جس کو پاکستانی صنعت وتجارت میں کی ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت حاصل
ہے اور کراچی صنعت وتجارت کی ترجمانی کے لیے جس ویب سائٹ کو بنایا گیا ہے
اس ویب سائٹ میں پاکستانی قومی زبان کو شامل نہیں کیا گیا۔ جی ہاں اسرائیل
جس کو پاکستان سمیت بیشتر اسلامی ممالک نے تسلیم ہی نہیں کیا ان کی زبان
میں تو آپ اس ویب سائٹ کو پڑھ سکتے ہیں لیکن اپنی قومی زبان میں نہیں۔
کیا پاکستان کی قومی زبان اتنی گھٹیا ہے کہ کسی بھی لحاظ سے پاکستان کی
عکاسی کرنے والی ویب سائٹس پر اسے ترویج نہیں دی جاتی ؟ جب پاکستان میں
اپنی زبان کا یہ حشر ہے تو کیا دیگر ممالک میں ہماری قومی زبان کو کوئی خس
وخاشاک میں بھی شمار کرنے کے لیے تیار ہوگا؟ جب پاکستان میں ہی قومی زبان
کے جنازے کو کندھا دے کر دفنانے کی تیاریاں عروج پر ہیں تو دیگر ممالک والے
اگر اس تدفینی عمل میں شریک ہوجائیں تو کس منہ سے ان سے گلہ شکوہ کیا جا
سکتا ہے ؟اپنی ثقافت ، اپنی تہذیب، اپنے تہوار ، اپنے رسم ورواج کو ایک ایک
کر کے ہم نے ایسا تار تار کیا جیسا کہ ریشمی رومال کو کانٹے دار جھاڑی پر
بچھا کر کھینچا جائے تو جو حال اس رومال کا ہوگا کہ نہ تانے کی تمیز نہ ہی
بانے کی پہچان ؟ وہی حال آج ہماری ثقافت، تہذیب ، تہوار اور رسم ورواج کا
ہے کہ نہ تانے کی تمیز ہے کہ یہ مشرقی ہے یا مغربی اور نہ بانے کی پہچان کہ
قدیم ہے یا جدید! اپنے اثاثی ورثے کو گوانے کے بعد کہیں ہم اپنی قومی زبان
کو ختم کرنے کے گھناؤنے عمل میں تو شریک نہیں ہورہے ؟ کہیں ایساتو نہیں کہ
سازش کے تحت ہماری قومی زبان کی جڑوں کو کاٹا جا رہا ہے اور ہم بھولے
بادشاہ بنے ان کے دست وبازو کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اس امر پر غور وفکر
کی ضرورت ہے اہل ِ اقتدار کو ، انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والی عدلیہ کو ،
مجھے ۔اور آپ کو بھی ۔۔۔! |