افغانستان ایک تاریخ ساز ملک ہے۔
مورخین کے مابین اِس بات پر اتفاق نہیں کہ ِان دور افتادہ پہاڑوں کو کب اور
کیوں افغانستان کے نام سے پکارا جاتاہے۔ایک مورخ تو یہ بھی لکھتاہے کہ
خودپشتونوں کا کہنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ پوری دنیا کو بناچکا تو اُس کے
پاس پتھروں اور چٹانوں کا ایک ڈھیر پڑا رہ گیا چناں چہ ِاس طرح افغانستان
وجود آیا۔ افغانستان اپنی ایک لازوال تاریخ رکھتاہے ۔ اپنے پُر پیچ وجود
میں بے شمار شہداء کا خون بھی رکھتا ہے ۔بڑے بڑے بت بھی یہاں گرے اور بہت
سارے بت پرستوں کا غرور بھی یہاں ہی ٹوٹا۔بے شک اِس ملک کا اپنا کلچر ،تہذیب
اور تمدن ہے۔ مثلا اِن کے کندھوں پہ رائفلیں ایسے لٹکی ہوتی ہیں کہ جیسے
اہل لندن بارشوں سے بچنے کے لیے اپنے ساتھ چھتریاں لیے ہوتے ہیں۔
بہر حال یہ وہ پشتون ہیں جن کے بارے میں صوبہ سرحد کے آخری انگریز گورنر سر
الف کرونے کہا کہ یہاں ہر نیا آنے والامہمان جو ”دیکھنے والی آنکھ“ اور”
سننے والے کان“ اور عقل رکھتا ہو، وہ یہاں ایسے لوگوں کو پاتاہے جو اُس کے
چہرے پہ نظریں جما کے اُسے احساس دلا دیتے ہیں کہ تم اپنے گھر میں آگئے ہو۔
یہ لوگ دراصل مہمان نوازی کے لیے اپنی مثال خود ہیں۔ اِس قوم میں ایسے کم
ہی لوگ ہوں جنہوں نے کوئی جنگ نہ لڑی ہو۔ اِس وقت بھی عالمی رائے عامہ
افغانوں کے حق ِ مدافعت، خودارادیت اوردفاع ِحاکمیت کو اِن کا مقصداور ان
کا حقِ اول سمجھتی ہے۔ جیسا کہ افغانستان میں ایک جنگوں کی تاریخ چلی آرہی
ہے۔ روسیوں کے چلے جانے کے بعد افغانیوں کے سیاسی ،معاشرتی، معاشی اور
عسکری زندگی پلٹ چکی تھی۔ اِس زخم خوردہ قوم کو سنبھلنے کے لیے کم عرصہ
درکار تھا۔ بھوک ننگ اور ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے جرائم نے اتنے مسائل کھڑے
کردئیے تھے ۔افغانستان میں بہت سارے دھڑے آپس میں دست وگریباں ہورہے تھے۔
اتنے میں اِس قوم سے طالبان نامی عنصر اُبھرکر سامنے آیا۔مکمل طور پر شریعت
کے پابند یہ مُلّاایک ایسے وقت میں سامنے آئے کہ گویا افغانستان کو اب اِن
کی ضرورت تھی ۔ باہمی سر پھٹوں سے تنگ آئی عوام کے لئے یہ طالبان رحمتِ
خداوندی ثابت ہوئے ۔ا نہیں اپنا نجات دہندہ سمجھا۔
افراتفری کو ختم کرنے کے علاوہ طالبان کچھ مثبت کام بھی کرنا چاہتے تھے۔
اسلامی نظام حیات سمجھ کر نافذ کرنا چاہتے تھے۔اِس لیے انہیں کافی وقت کی
ضرورت تھی اور ابھی تو چھ سال ہی گزرے تھے کہ مغرب اِن کے شک میں پڑگیا تھا۔
اب اِس عرصہ میں افغانستان امن کا گہوارا اور سلامتی کا شہ پارہ بنا ہوا
تھا ۔اس کے مختصر عرصے میں اِس انداز کے امن کاچاردانگِ عالم بول بالا توہو
ہی رہا تھا لیکن اِس کے ساتھ ساتھ یہاں چوری ،ڈ کیتی اور منشیات جیسی بری
عادتوں سے یہ قوم بہت دور تھی۔اِس قوم کے نوجوان کسی بُری لعنت میں مشغول
ہر گز نہ تھے ۔مومن کی یہ نشانی اِن نوجوانوں میں نظر آتی تھی کہ مومن کی
عقل ہر وقت فکر میں لگی رہتی ہے ۔اُس کی نظر دیکھتی رہتی ہے۔اُس کی زبان
ذکر کرتی رہتی ہے اُس کا دل شکر کرتا رہتا ہے اور اُس کاوجدان صبر کرتا
رہتاہے ۔
اِن نوجوانوں سے اِن صفات کومٹانے کے لئے تمام حربے آزما لئے گئے مگر
ناکامی ہی ہوئی ۔اب اس رپورٹ کوپڑھ کراندازہ ہوتا ہے کہ اِن کے دشمنوں نے
کچھ انداز بدل سے لئے ہیں ۔ ایک موقر جریدے میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق
اِس وقت افغانستان منشیات پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ منشیات
کی مجموعی پیداوار کا 70فیصد پڑوسی ملک اور 30فیصد دیگر ممالک کو سمگل کیا
جاتاہے ۔2006میں 61سوٹن ،2007میں82 سوٹن،2008میں 70سو ٹن، 2009سے2010 تک
79سو ٹن افیون پیدا کی گئی ہے۔ امن ، امن کا درس دینے والے جب سے اِس ملک
میں داخل ہوئے ہیں، اُس کے بعد کی یہ حالت اُن کے چہرے سے پردہ ہٹا رہی ہے
۔اب کا افغانستان منشیات میں اول نمبر پہ آیا ہے ۔ طالبان کے افغانستان کا
جائزہ لیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ اُس دور میں منشیات کی پیداوار نہ تھی۔
اب جب کہ حالت یکسر بدل کررہ گئی ہے۔ امریکا نے افغانستان میں امن کے نام
پہ وہاں کے امن کو پارہ پارہ تو کیاہے مگر اب اس ملک میں منشیات کو فروغ دے
کر اِس کے ذریعے پڑوسی ملک میں بھی منشیات کے فروغ سے نوجوان نسل کو تباہ
کرنا چاہتاہے ۔ امن کے داعی کی یہ حالت بھی اب کھل کر سامنے آچکی ہے ۔ اِس
حالت میں کرسٹینالیب کو ایک بار پھر افغانستان کا دورہ کرناہوچاہیے ۔ ایک
بار پھر اُسے یہ حقائق بھی جا کر اپنی عوام کو بتانا چاہیے۔تاکہ دنیا کو یہ
معلوم ہوسکے کہ منشیات کاکون اور کس کس انداز میں استعمال کرارہاہے مگر وہ
یہ حقائق نہیں بتائے گی کیوں کہ جب یہ ظلم کی داستانیں اور اصل حقائق سامنے
آگئے تو اُس بعد ہر شخص پھر ایک ہی بات کرے گا کہ ہم طالبان چاہتے ہیں ۔ |