یوپی محکمہ اطلاعات ونشریا ت میں اردو دشمنی

یوں توباشندگان ہند تقریباً 1452بولیاں بولتے ہیں ، ایک سروے کے مطابق 1455بولیاں ایسی ہیں ، جن کے بولنے والوں کی تعداد دس دس ہزار بھی نہیں ہے ، یعنی 197بولیاں ہی ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد کسی حد تک قابل ذکر ہے ،مگر یہ وضاحت سب سے ضروری ہے کہ ان میں سے صرف 18زبانوں کو ہی ملکی آئین کے آٹھویں جدول میں جگہ مل پائی ہے ۔ ان اعداد وشمار سے یہ آشکار ہوگیا کہ ہندوستان ایک کثیر لسانی ملک ہے ، مختلف زبانیں یہاں بولی جاتی ہیں ، ان زبانوں میں ایک صاف ستھری اورشگفتہ زبان اردو بھی ہے ، جواپنی حلاوت وچاشنی ، جاذبیت ودلکشی اورشائستگی وشفافیت کی وجہ سے ممتاز ہے اورانفردایت کی حامل بھی ۔ ملک کی مختلف زبانیں کسی نہ کسی حصار میں مقید ضرور ہے ، مگر اردو اپنی انفردایت کی بنیاد پر پورے ملک بلکہ کسی نہ کسی سطح پر بیرون ممالک میں بھی بولی جاتی ہے ۔ ایک سروے کے مطابق پوری دنیا میں اردو کے شیدائیوں کی تعداد تقریباً50کڑور ہے ۔ اگر ہندوستانی ریاست کے تناظر میں بات کی جائے تو کوئی سات کڑور اردووالوں کے ساتھ پوپی سرفہرست ہے ۔ بہار چارکڑور کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے ، وہیں ساٹھ ستر لاکھ اردووالوں کے ساتھ جھارکھنڈ ساتویں نمبر پر ہے ۔

اس حقیقت کے باوجود اردو لسانی فرقہ پرستوں کے نشانہ پر ہوتی ہے ، اس پر فرقہ واریت کا لیبل چسپاں کرکے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ، سازشی ذہنیت کی وجہ سے بھی سرکاری دفاتر میں اردو سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے ، اسے نظر انداز کردیا جاتاہے ، اس کے شیدائیوں پر ترچھی نگاہیں ہوتی ہیں ، حالانکہ یہ سب باتیں تاریخ فراموشی کا نتیجہ ہوتی ہےں ۔ ورنہ تو جگ ظاہر ہے کہ جنگ آزادی تک میں اردو کا بڑا اہم، بلکہ سب سے اہم کردار رہا ہے ۔ گزشتہ دنوں راقم اپنے کسی شناشا کے ساتھ محکمہ اطلاعات ونشریات اتر پردیش کسی اہم کا م سے گیا ، اسی دوران شعبہ پی آر ڈی (پبلک ریلیشن ڈپارٹمنٹ )کے آفیسر کے گفت وشنید ہوئی ، اس شعبہ کا عوام سے پالیسی میکروں کا رابطہ کروانے میں سب سے اہم کردا ہوتا ہے ، کیونکہ اسی کے ذمہ ہوتاہے کہ وہ ترقیاتی مسائل سمیت دیگر معاملوں کے تئیں عوامی صورتحال سے حکومت کو مطلع کرے ، عوام کی باتوں سے پالیسی میکروں کوآگاہ کرے ، قانون ساز اداروں کو عوامی مسائل سے باخبر کرے ، اس کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ وہ اخبارات کی کٹنگ وزیر اعلٰی کی میز تک پہونچاتاہے ، پھر ان مسائل کے تئیں وزیراعلی سمیت دیگر حکام ووزراءلائحہ عمل تیار کرتے ہیں ، بات چیت کے دوران پتہ چلا کہ ہندی انگریزی اوردیگر اخبارات کی کٹنگ اترپردیش میں وزیراعلٰی تک پہونچتی ہے مگر اردو کی نہیں۔ اس حقیقت کے واشگاف ہو تے ہی متعدد سوالات ذہنی افق پر نمودار ہونے لگے کہ آخر اردو کے ساتھ ایسا سوتیلا سلوک کیوں ؟ کیا اردو اخبارات میں عوامی مسائل نہیں ہوتے ہیں ؟کیا ڈیولپمنٹ ایشوز پر اردو اخبارات میں خبریں شائع نہیں ہوتی ہیں یا پھر اردو والوں کے مسائل سرے ہے ہی نہیں ؟ کیا واقعی اردو سے بے اعتنائی کی ایسی حقیقت ہے تو اردو صحافی برادران کو لائحہ عمل تیا رنہیں کرنا چاہئے ؟۔

ان سوالات کے پس پردہ صرف یہ اسبا ب نہ تھے کہ اردوجیسی حلاوت وچاشنی دیگر زبانوں میں نہیں ، اردو کا جنگ آزادی میں بڑا اہم کردا ررہا ہے ، بلکہ ان خیالات کے علاوہ بنیادی وجہ 2011-12کی آ راین آئی کی رپورٹ بھی تھی ، کیونکہ اعداد وشمار کے لحاظ سے اردو اخبارات تیسرے نمبر پر ہے ، اس کے اخبارات کی مجموعی تعداد938ہے اورشرکولیشن 2کڑور 16لاکھ 39ہزار دو سو ہے ۔ ہندی7910اخبارات اور15کڑور 54لاکھ94ہزار 770شرکولیشن کے ساتھ دووسرے نمبر پر ہے ، وہیں انگریزی 1406اخبارات کے دوسرے نمبر پر ہے ، جس کی مجموعی شرکولیشن 5کڑور 53لاکھ17ہزار 184ہے ۔ملک بھر کے مجموعی اخبارات کی تعداد 938ہے ، اعداد وشمار شاہد ہے کہ سب سے زیادہ اردو کے شیدائی اتر پردیش میں ہے تو ظاہر ہے کہ ان 938اردواخبارات میں سب سے زیادہ اخبارات یوپی سے ہی نکلتے ہوں گے۔ جس ریاست میں اردوں والوں کی سب سے بڑی تعداد اخبارات اوربولنے والوں کے لحاظ ہو ، اسے نظر انداز کرنا کتنی تکلیف اور حیرت واستعجاب کی بات ہے ۔ یہ حقیقت جہاں اردو صحافت کے لئے باعث شرم ہے ویہیں یوپی کے اعلٰی حکام کے لئے بھی ۔ ظاہر بات ہے کہ صحافت پالیسی میکروں سے جوڑنے کا انتہائی اہم ذریعہ ہے ، صحافت سے لوگوں کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ، اسی کے ذریعہ ہی مسائل کے تصفیہ کے تئیں آس ہوتی ہے ، اس کے باوجود بھی اردو اخبارات کے ذریعہ اٹھائے گئے مسائل سے حکومت کے اعلی عہدیداران و ذمہ داران کا واقف نہ ہونا کس قدر افسوسناک ہے ۔ صحافت دراصل جمہوریت کا چوتھا ستون ہے ، یہ ستون ریاست بہار میں گرچہ کمزور کیوں نہ مگر وہاں پی آر ڈی آفیسر ہندی انگریزی اخبارات کے ساتھ اردو کی بھی کٹنگ وزیراعلٰی کی میز تک پہونچاتاہے ، اسی طرح صوبہ جھارکھنڈ میں بھی ۔

انصاف پسندی کا تقاضہ ہے کہ اردو دشمنی کے اس معاملہ پرتمام صحافی برادران کو ایک لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے ، اردو صحافی برادران اس غرض سے کہ اردو صحافت سے ان کا کئی ایک زاویہ سے لگاؤ ہے اوردیگر زبانوں کے صحافی حضرات اس پہلو کوسامنے رکھ کر اس معاملہ پر آواز بلندکرے کہ حق تلفی کاخواہ معاملہ کوئی ہو اسے نظر انداز کرنا صحافت کا اصول نہیں ، حق گوئی اوربے باکی میں خواہ کسی طبقہ یا فرقہ کی بھلائی پوشدہ ہو ااس سے نظریں چرانا صحافیوں کا کام نہیں۔ قوی امید ہے کہ اگرصحافی برادران اس بات پر متفق ہوجائے کہ اردو کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیں گے تووہ دن دور نہیں کہ اردو کا تابناک مستقبل ہمارا منتظر ہوگا اورعصبیت اورلسانی فرقہ پرست گھٹ گھٹ کر آپ خود دم توڑدیں گے ۔ گذشتہ دنوں وزیراعلٰی اترپردیش نے اردو ٹیچروں کے ایک وفد کو امیددلائی کہ اترپردیش میں بھی عنقریب اردومیڈیم اسکول کھولے جائیں گے اوراردو اساتذہ کی بھاری اکثریت میں بحالی ہوگی، بعید ازامکان نہیں کہ وزیراعلٰی کے سامنے پی آرڈی شعبہ کے معاملہ کو بھی رکھا جائے تو کوئی حل نکلے ، کیونکہ جب تک سربکف ہوکر کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کریں گے تو حقوق کی پامالی سدا ہوتی رہے گی ، چنانچہ ضرورت ہے کہ محب اردو اس مسئلہ کو بھی ذرا گہرائی سے لیں ۔ مفا پرستی ، بزدلی اورحکومت کی منہ بھرائی سے ذرا اوپر اٹھ کر کچھ کریں ، تاریخ شاہداور مشاہدات وتجربات گواہ ہیں کہ اہل اردو صرف مسائل کا رونا روتے ہیں ، وسائل کی عدم فراہمی پر کف افسوس ملتے رہتے ہیں ، مگر عملی اقدام کرنے سے کتراتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جب بھی کبھی اصل محب اردو اردو کے لئے آواز بلندکرتے ہیں تو ان کی آواز صدابصحراہی رہتی ہے ۔ ایک سوال ہمیشہ ذہن میں کچوکے لگاتا رہتاہے کہ آخر محب اردوکس عہدہ پر پہونچ کر اردو کے حقوق کی بازیافت کے لئے کچھ کریں گے ؟ کیونکہ دیکھا یہ جاتاہے کہ اہم اہم عہدے پر فائز ہوکر بھی اردو کے دم بھرنے والے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ، اس عہدے کے پہونچنے میں اردو کی بھلائی کا بھی نعرہ ہوتاہے ، مگر عہدہ ملتے ہیں سب کچھ فراموش ۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر بھی سینہ ٹھوک ٹھوک کر اپنے کو محب اردو باور کراتے ہیں ، اردو ایواڑ بٹورنے میں ہمہ دم مصروف رہتے ہیں ، مگر جب اردو کی ترویج واشاعت کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے تویہ کہہ کر دامن جھاڑ لیتے ہیں کہ ہمارے اوپر قانونی بندش ہے ، چنانچہ ہم اردو کے لئے آوازتک بلندنہیں کرسکتے ، حتی کہ کمیشن میں بھی اردو پینل کے قیام کے بابت سرد مہری کے شکار رہتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اردو ایوارڈ لے کر محب اردو ہونے کا ڈھونگ رچانے والے اس حد تک مفاد پرستی ، بزدلی اورابن الوقتی کے حصار میں قید ہوجائیں تو بس اردو کا اللہ حافظ۔۔!!

بہرکیف ! یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ اتر پردیش کے شعبہ پی آر ڈی میں اردو سے ہونے والی بے اعتنائی کا اردو والوں کوعلم نہیں۔علم ہونے کے باوجود بھی کچھ اقدام نہ کیا گیا ہوتو اوربھی زیادہ شرم کی بات ہے ۔ چنانچہ اب متفقہ طور پر ہرریاست میں یہ مہم چلائی جائے کہ پی آرڈی شعبہ اردو سے چشم پوشی نہ کرے اوردیگر زبانوں کے اخبارات کی طرح اردو اخبارات کی کٹنگ بھی وزرائے اعلٰی کی میز تک پہونچائے ، تاکہ اردو کے ذریعہ اٹھائے گئے مسائل کا بھی تصفیہ ہوسکے اوراردو والے بھی ایسے اہم عہدوں پر بھی فائز ہوسکے ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100797 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More