میمو گیٹ کا فیصلہ۔۔۔ قوم منتظر

میمو گیٹ کا ایک شور اٹھا اور دب گیا۔ پاکستان میں ویسے بھی کمیشن صرف بنتے ہی ہیں اگر یہ اپنی سفارشات مرتب کرے بھی تو وہ ہمیشہ مخفی ہی رہتے ہیں کوئی نہیں جان پاتا کہ مجرم کون تھا سزا تو بہت بعد کی بات ہے سیاسی قتل، قومی سانحے ،بین الاقوامی سازشیں سب کچھ وقت اور مصلحت کی گرد میں دب جاتا ہے ۔تو کیا اب بھی ایسا ہی ہوا ،کیا میموگیٹ بھی مصلحت کی نظر ہوگیا۔ مجرم جو بھی ہے کیا قوم کو یہ حق نہیں کہ اُس کے بارے میں جان سکے۔ چیف جسٹس اور عدلیہ کی بحالی کے لیے عوام نے جس طرح تحریک چلائی اُس کے بعد عوام بجاطور پر دلیرانہ فیصلوں کی توقع کر رہے تھے اگر چہ کچھ فیصلوں نے عوام کی ہمت بھی بندھائی لیکن کچھ اہم ترین نوعیت کے معاملات پر قوم میں مایوسی ہی پھیل رہی ہے اگر ایسا اب بھی نظریہ ضرورت کے اصول پر کیا جا رہا ہے تو پھر پیسہ اور وقت بر باد کرنے کا کیا فائدہ۔

اس کیس میں فریقین کے بیانات کافی اہم ہیں۔ منصور اعجاز اپنا موقف کافی زور و شور سے بیان کر چکا ہے۔ مجھے اس شخص کے قابل اعتبار ہونے پر کچھ زیادہ بھروسہ نہیں ہے اس کا ماضی اور حال میرے خیال کی تائید کرتا ہے تا ہم اگر کوئی الزام لگا ہے اور اگر لگانے والا غیر ملکی بھی ہے تو بھی تفشیش ضروری ہے اور اب تک اُس نے عدالت سے تعاون بھی کیا ہے ۔ اگرچہ اس کے لیے عدالت کو خاصی تگ و دو کرنی پڑی اور کیمرہ سیشن کے ذریعے یہ بیان ریکارڈ ہوا ۔مجھے منصور اعجاز کے بارے میں کوئی خوش گمانی اور خوش فہمی نہیں ہے نہ ہی اس سے پاکستان کے لیے کسی نیک نیتی کی توقع ہے کیونکہ خود بقول اسکے وہ مختلف خفیہ اداروں کے لیے کام کرتا ہے اور اُن سے اُس کے تعلقات ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے اس دعوے کو نظر انداز کر دیا جائے جو اُس نے حسین حقانی کے متعلق کیا ہے۔ وہ اپنے کردار اور ’’پیشے‘‘ کے لحاظ سے ایسے موقعوں کی تاک میں رہتا ہے جہاں وہ اپنی چال چل سکے اور اس کے لیے وہ ثبوت بھی برابر رکھتا ہوگا۔ اب حسین حقانی اور منصور اعجاذ میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے یہ معلوم کرنا میرا یا کسی دوسرے عام پاکستانی کا کام نہیں ہے لیکن ہم اس کا حق ضرور رکھتے ہیں کہ اس معاملے کے حقائق جان سکیں اور اسی لیے پوری قوم کی نظریں عدالت پر لگی ہوئی ہیں کہ آخر کوئی تو ایسا قومی جرم بھی ہو جس کے حقائق اور جس کے مجرم قوم کے سامنے لائے جائیں۔ اب جب کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا بھی عدالت میں پیش ہو چکے ہیں منصور اعجاز نے بھی اپنے پاس موجود ثبوت پیش کر دئیے ہیں لیکن جناب حسین حقانی جو کہ اس کیس میں سب سے زیادہ مطلوب شخص ہیں ملک سے باہر ہیں اور عدالت سے کسی تعاون کے روادار نظر نہیں آتے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ بجا لیکن بصد معذرت اگر عدالت کو ثبوت بھی مہیا ہیں اور پھر بھی فیصلہ ہونے میں دیر کی جا رہی ہے تو کیوں، اور اس کیوں کے پیچھے وہ خوف چھپا ہوا ہے کہ کہیں اس انتہائی اہم معاملے کو بھی دبا نہ دیا جائے۔ ایک ایسا معاملہ جس میں مبّینہ طور پرکسی دوسرے ملک کی فوج یا حکومت کو یہ دعوت دی جائے کہ ہمارے ملک کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ان میں مداخلت کی جائے اور اپنی ہی فوج کے خلاف شکایت کی گئی ہے ایک ایسی فوج کے پاس جو پہلے ہی پاکستان کی تاک میں بیٹھی ہوئی ہے ۔ عدالت کو اس وقت اس معاملے پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ،چونکہ معاملہ امریکہ کے ساتھ ہے اس لیے انتہائی احتیاط کی ضرورت بھی ہے کیونکہ امریکہ کو ہمیشہ پاکستان سے اپنا کام لینے کی عادت ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ بات اب بھی کچھ ایسی ہی ہو ۔ بہر حال قوم بہت سے قومی سانحات کی طرح اس جرم کو سرد خانے میں ڈال کر دبا دینے کے خوف میں مبتلا ہے۔ خدا کرے کہ یہ خوف صرف ایک خوف ہی ہو اور حقیقت صرف یہ ہو کہ عدالت واقعی عدالت ہے وہ جگہ جہاں حق دار کو اس کا حق ملتا رہے اور مجرم کو سزا چاہے مجرم کوئی بھی ہو، با اثر ہو یا بے اثر حکومت ہو یا رعایا، حاکم ہو یا محکوم۔ میموگیٹ کا فیصلہ اب آجانا چاہیے اور مجرم کو اپنے انجام تک ضرور پہنچ جانا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی اس قسم کی سازش کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552558 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.