ہم مسلسل مصیبتوں اور مشکلات کا شکار
ہیں۔ہم مسلسل ہار رہے ہیں ۔کیا ہمیں اس کا احساس بھی ہے؟ہم اپنی قدروں سے
کتنا گر رہے ہیں ،کیا ہم جانتے بھی ہیں؟ہم مسلسل تباہی کی طرف دوڑ رہے ہیں
اور اگلی نسلوں کے لئے ایک خطرناک نمونہ چھوڑے جا رہے ہیں ؟کیا ہمیں اس کا
ادراک ہے کہ ایک مؤرخ ہمارے بارے میں کیا لکھے گا۔اسکے سامنے جب ہماری اس
دور کی تاریخ آئے گی تو وہ حیران ضرور ہوگا ۔
کچھ لمحوں کے لئے رک جائیے اور پیچھے مڑ کر دیکھیے کہ ہم کن حالات سے نبرد
آزما ہیں اور پچھلے چند سالوں سے کیا کرتے آ رہے ہیں؟وطن عزیز میں روشن
خیالی اور نام نہاد اعتدال پسندی کے نام پر کھلے عام مغربیت اور لادینیت کا
سیلاب برپا گیا گیا۔فحاشی و عریانی کا طوفان سب کو نگلنے لگا۔آنکھوں کے
سامنے اپنوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا لیکن ہم خاموش رہے۔دین کے نام
لیواؤں کو قتل کیا جانے لگا،بعض کو پابند سلاسل کیا گیا اور ہم آنکھیں
ملتے رہ گئے۔ان مجرمانہ غفلتوں نے دلوں کو سخت کر دیا۔دین سے مسلسل دور
ہوتے چلے گئے۔کفر کی نفرت اور دین کی محبت دلوں میں ختم ہونے لگی اور پھر
وطن عزیز کو قدرتی آفات نے گھیر لیا۔ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے لیکن کسی
نے سبق حاصل نہ کیا۔قدرت کی دی ہوئی وارننگ کو ہم آج بھی نہیں سمجھ پائے
اور اندھیروں کی طرف بغیر کسی مقصد کے مسلسل دوڑے چلے جارہے ہیں۔بنا کسی کی
رہنمائی لیے ،بغیر کسی سے پوچھے کہ آخر ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ہمیں
زندگی کس طرح گزارنی چاہیے؟ہمارا رخ کس طرف ہونا چاہیے؟تاکہ ان اندھیروں سے
جان چھوٹے،زندگی روشنیوں میں بسر ہو اور اس مقصد کی تکمیل ہو جسکی خاطر
زندگیاں وجود میں آئیں۔تاکہ ہمارا مؤرخ کچھ تو ہمارے بارے میں اچھا
لکھے۔اسے محسوس ہو کہ مسلمانوں کی موجودہ تاریخ اس شاندار تاریخ سے کچھ
زیادہ متفاوت نہیں۔اس شاندار تاریخ کے ’’پنوں ‘‘کو شروع سے نہ کھولیے بلکہ
ماضی قریب کی تاریخ میں جھانک لیجیے ؟کیا یہ ہماری تاریخ نہیں کہ ایک مرد
مجاہد کی جنبش ابرو حکمرانوں کا نشہ اتار دیا کرتی تھی۔ایک مرد قلندر نے
اپنے ایک مسلمان بھائی کی حفاظت کی خاطر ایک پوری سلطنت کو قربان کر دیا
تھا۔زیادہ دور نہ جائیں بلکہ پرویزی دور کے سخت آزمائش اور کٹھن مرحلہ میں
ایک جماعت صرف اللہ کے بھروسے پر سینہ سپر ہو کر ٹھہری رہی اور ہرا ٓزمائش
و مصیبت کا دیدہ دلیری سے مقابلہ کیا۔
بہر حال ہماری گزشتہ تاریخ بہت سنہری ہے۔اگر ہم چاہیں تو آج بھی اپنی تاریخ
کو اپنے روشن ماضی کی طرح سنوار سکتے ہیں۔لیکن اسکے لئے ہمیں غورو فکر کرنا
ہو گا کہ ہم ان مصائب سے کیسے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں جو آج ہمیں چاروں
طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ہم کس کی رہنمائی حاصل کریں کہ جو ہمیں
حقیقتاً زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بتا سکیں اور کس طبقہ کے ساتھ اپنا
رشتہ و ناطہ جوڑیں کہ اسلام اور دین سے ہمارا رشتہ مضبوط ہو جائے۔
آج کے اس مضمون میں ایک ایسے رہنما کا ذکر کرتے ہیں جن کے ہاتھوں میں ہاتھ
دے کر آج امت سنور سکتی ہے۔اندھیرے چھٹ سکتے ہیں اور ایک جماعت کا ذکر خیر
کرتے ہیں جس میں شامل ہو کر ہم اپنی زندگیاں سنوار سکتے ہیں۔فیصلہ آپ خود
کیجیے گا میں آپ کو مجبور نہیں کروں گا۔
جب امت مسلسل ظلم کی چکی میں پس رہی ہو۔بے دینی اور بے راہ روی کے خوفناک
طوفانوں کی زد میں ہو تو ہوتا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو
امت کی زبوں حالی ختم کرنے کے لئے مقتدا بناتے ہیں تاکہ وہ لوگ محنت اور
لگن کے ساتھ امت پر آئے کڑے وقت کا مقابلہ کر سکیں۔اس زمانے میں بھی اللہ
تعالیٰ نے ہمارے درمیان موجود ایک محبوب بندے کے دل میں امت کا درد اور اس
کڑے وقت میں امت کو سنبھالا دینے کی تحریک پیدا فرمائی ہے۔انہوں نے امت کو
بتایا کہ آج مسلمان کیوں در بدر ہیں؟وہ اندھیروں میں کیوں بھٹک رہے ہیں ؟کیوں
آج مسلمانوں کا خون پانی سے زیادہ سستا ہو گیا ہے؟کیوں آج مسلمانوں پر
چاروں طرف سے ظالم بھیڑیے حملہ آور ہیں۔انہوں نے ملک کے کونے کونے میں اپنی
آواز پہنچائی۔ان کی درد بھری آواز جہاں پہنچی لوگوں نے لبیک کہا۔ہاتھوں میں
ہاتھ دے کر اپنی زندگیاں سنوارنے لگے۔دنیا کا کفر یہ سب دیکھ کر لرزنے
لگا،حالات دیکھ کر پریشان ہو گیا،شیطان کے چیلے اس مبارک آواز کو دبانے کے
لئے سرگرم عمل ہو گئے۔ہتھکڑیاں جیلیں ،سزائیں اور نظر بندیاں سب طرح سے اس
مرد مومن کو آزمایا گیالیکن مجال ہے کہ ان کے موقف میں ذرا بھر تبدیلی آئی
ہو ۔وہ امت کی خاطر ڈٹے رہے۔دین کی خاطر سب تکلیفیں برداشت کرتے رہے۔تاکہ
امت لوٹ آئے اللہ کی طرف اور دین کے صحیح راستوں کو پہچان پائے۔ان کی اس
محنت کو پھل لگتے لوگوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا۔حالات کا رونا رونے والوں
کو جینے کا سبق ملا ۔صرف برائیاں،بے یقینیاں اور بے بسیاں دیکھنے والوں نے
فتوحات کا عظیم الشان سلسلہ دیکھا۔مردہ دلوں میں جذبہ جہاد کا ٹھاٹیں مارتا
ہوا سمندر دیکھا۔سخت کٹھن حالات میں دعوت جہاد کا عموم دیکھا ۔فدائیوں کے
لشکر در لشکر دیکھے۔ماؤں،بہنوں میں صحابیات والا کردار زندہ ہوتے اپنوں
اور غیروں نے دیکھا۔اس زمانے میں بھی نوجوانوں کو معاذ اور معوذ کے راستوں
پر خراماں خراماں چلتے ہوئے دیکھا۔انہوں نے ایسی روح پھونکی کی بوڑھوں تک
میں عمرو بن جموح جیسا ایمان اور جذبہ جہاد تازہ ہوتے دیکھا۔بہت سے لوگوں
نے زنگ آلود دلوں میں ایمانی جذبے زندہ ہوتے محسوس کیے۔مسلمانوں کو ان کی
زندگی کا مقصد سمجھ میں آنے لگا۔شکوے کی بیماری سے نجات ملی۔شکر کے مواقع
نصیب ہوئے۔
جی ہاں!اس زمانے میں یہ سب ہے تو حیرت کی بات مگر واقعی ایسے مبارک حضرات
آج بھی موجود ہیں جنہوں نے اس مرد مجاہد کے ہاتھ پر بیعت کی اور اپنی
زندگیاں دین اسلام کے لئے وقف کر دیں۔یہ وہ مرد قلندر ہیں جنہیں وقت کے بہت
بڑے عالم حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی (رح) نے حجۃ اللہ فی الجہاد کا لقب
عطا فرمایا،جن کے دست اقدس پر ان کے اکابر اساتذہ تک نے بیعت علی الجہاد
فرمائی۔جنہوں نے بہت مختصر عرصے میں لاکھوں افراد تک اپنی دعوت پہنچائی اور
اکابر علمائ کی سرپرستی میں ایک مبارک جماعت امت کو عطا فرمائی۔
اس مرد مجاہد کو آج دنیا امیر المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ
اللہ تعالیٰ کے نام سے جانتی ہے۔آج امت کو ایسا امیر اللہ نے عطا فرمایا ہے
کہ ان کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر ہمیں اپنی زندگی کا مقصد سمجھ میں آ جائے
گا۔زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی میسر ہو جائے گا۔آئیے شامل ہو جائیے ان کی
قائم کردہ مبارک جماعت میں اور ایمانی حلاوت کے مزے لوٹیے ،اور جہاد کی
بہاریں دیکھیے۔
میرا اللہ واقعی بہت بڑا ہے بلکہ صرف وہی طاقت والا ہے۔جس دور میں کہا جائے
کہ لفظ جہاد بولنے والی زبان کاٹ دی جائے اس دور میں اس مبارک جماعت نے
دعوت جہاد کو بام عروج تک پہنچایا۔جب فرعون وقت اعلان کرے کہ جہاد لکھنے
والی انگلیاں کاٹ دی جائیں گی اس دور میں جہادی لٹریچروں کا یوں عام ہو
جانا معجزہ سے کم نہیں۔جس دور میں کفریہ طاقتیں شیطانی گٹھ جوڑ کر کے قرآن
پاک کی آیات جہاد کو مٹانے اور انکی تحریف کے درپے ہو جائیں اور اسوقت ایسا
تجدیدی کارنامہ رونما ہو جائے کہ آیات جہاد کو گن کر ،انہیں ممتاز کر کے
امت کو سنا کر،اور ترجمہ و تشریح کر کے سلف صالحین کے اقوال کے مطابق ان کی
صحیح تفسیر کر کے ڈنکے کی چوٹ پر سنا دی گئیں اور کتاب کی شکل میں پھیلا دی
گئیں۔
’’الرحمت‘‘ کی بے شمار مہمات سارا سال جاری رہتی ہیں۔ آئیں اور ان مہمات
میں سرفروشان اسلام کا ساتھ دیں اور دنیا و آخرت کی لازوال نعمتیں اور
سعادتیں حاصل کریں۔ |