گندم کی کھڑی پکی فصل کے قریب
چنگاریوں کو ہوا نہیں دی جاتی۔محنت کی محبت کا جنازہ سیاہ خاک سے اُٹھایا
نہیں جاتا۔بچپن کا بھولپن جوانی کی دلنشینی سے تھپتھپایا نہیں جاتا۔بڑھاپا
جوانی کے در پہ دستک سے رکوایا نہیں جاتا۔کہیں تو کچھ ایسا ہے جو مزے سے
نیند نہیں دیتا۔چین سے جاگنے نہیں دیتا۔ادھوری خواہشوں سے جینا لولی لنگڑی
زندگی جینے سے پھر بھی بڑھ کر رہتا ہے۔مگر شخصیت کا ادھورا پن کبھی پہلی سے
چودھویں کے چاند تو کبھی پندرھویں سے تیسویں کے چاند جیسا ہوتا رہتا ہے۔جس
کا مقصد صرف دن گننے رہ جاتے ہیں۔
خیالوں میں پھول کھلانا نہایت آسان ہے مگر خوشبو صرف سونگھنے سے موجودگی کا
احساس دلاتی ہے۔جو کلی سے مرجھانے تک وجودِ ناتواں سے عشق بہاراں کا جشن
مناتی ہے اوربدنصیب کانٹے شاخوں میں رہیں تو رقابت سے ہاتھوں کو تختہ مشق
بناتے ہیں۔ ٹوٹے پڑے زمین پر دھول سے اَٹے پاؤں پر بھی حملہ آور رہتے
ہیں۔ریزہ ریزہ ہونے تک تکبر کے نشہ سے مستی میں رہتے ہیں۔رقابت میں جل جاتے
ہیں مگر محبت میں جینا نہیں سیکھ پاتے۔
عورت زندگی میں چھت کی طلبگار رہتی ہے۔مرد گھروندوں میں اپنے گھرانہ کے لئے
تین مرلہ سے تین کنال کے گھر کی جستجو میں پیٹ پر پتھر باندھنے پر بھی
آمادہ دکھائی دیتا ہے۔کھلی زمین میں ایک جگہ کو مقامِ محمود کا نام دئیے
ایک عرصہ بیت گیا۔ان دیواروں کو ترستے ترستے ایک عمر بیت گئی۔جن پر لکیریں
کھینچ کر چڑیا ، طوطا جیسے نقش و نگار بنا پاتے بچے۔جن کا بچپن دیواروں کی
محبت کے بغیر جوانی کی دہلیز تک جا پہنچا۔جہاں دروازوںسے گزرنے تو کھڑکیوں
سے جھانکنے کی عادت تک زندگی محدود ہو جاتی ہے۔
پانے کا نشہ شیر کے اپنے شکار کی گردن میں دانت گاڈ کر خون بہانے جیسا ہے
اور کھونے کا کھسیانی بلی کے کھمبا نوچنے جیسا۔کاش اور اگر جیسے الفاظ اپنی
اہمیت کا احساس نقصان و ناکامی میں زیادہ دلاتے ہیں۔بنا چھت کے گھر
بادوبارں کے طوفان سے بچائے نہیں جا تے اور دخول و خروج کے راستے اگر کھلے
بھی ہوں تو تحفظ کا احساس مٹنے نہیں دیتے۔
آسمان سے کبھی کچھ گرتا نہیں ، زمین سے کچھ اُٹھتا نہیں۔ٹانگوں پہ کھڑی
پاؤں پر چلتی وجود ہستی انسان زمین پر نخلستانی زرے سے زیادہ نہیں اور زمین
اس کائنات میں ایک زرے سے زیادہ نہیں۔سائنس نے کائنات کے دوسرے حصے تک
فاصلے کا وقت اندازے سے متعین کر دیا۔صرف پانچ بلین سال اور وہ بھی نوری۔
اب دیر کس بات کی چاند و مریخ کے پروگرام ہی موخر کر دئیے۔ جب اونچی دیوار
کے ساتھ انگور کے گچھے لٹکے ہوں تو وہ ہمیشہ کھٹے ہوتے ہیں۔
راز جاننے کی جستجو اندھیرے میں کالے دھاگے کی نسبت سفید تک پہنچنے جیسی
آسان ہوتی ہے۔جیسے کبھی کبھار نقصان اُٹھا کر بھی سکون کی نعمت سے انسان
مالامال رہتا ہے۔ویسے اکثر توقع سے کم نفع ملنے پر پریشانی کی صلیب پر
لٹکنا پسند کرتا ہے۔یہاں تک پہنچنے کے لئے ''کہ سکون کے لمحات پہاڑوں کی
طرح کوفت وبے چینی کی زمین میں کیل کی طرح گڑ جائیں''فاصلے ایسے طے کئے
جاتے ہیں جیسے آنکھوں کی روشنی لاکھوں نوری سالوں کے فاصلے پر تیرتے جہانوں
کو ایک نظر سے شکار کر لیتی ہے۔
قرآن کے الفاظ کئی بلین سال کا فاصلہ ایک پل میں محبوب خدا تک پہنچنے میں
طے کر لیتے ہیں۔اس کلام کا ایک ایک لفظ عبادت ہے۔کائنات کے کروڑوں سالوں پر
پھیلے فا صلے وجودِانسانی کو آرائش و زیبائش سے بدگمان کر دیتے ہیں۔نماز
فرض عبادت ہے،اگر یہ سوچ کر پڑھی جائے اللہ سبحان تعالٰی کو بندے کی زبان
سے اپنا ذکر محبوب ہے تو یہ عشق کے نشہ میں ڈھل جاتی ہے۔اس کا ذکر ہر
پریشانی سے مستقبل کے ان دیکھے خوف سے، عدم تحفظ کے احساس سے، زندگی کی
محرومیوں کی ندامت سے، رشتوں کی جھوٹی انا کی رقابت سے، خودنمائی کے احساس
کی حرص سے نجات دلا کر سچائی کی روشنیوں سے راہ دکھاتا ہے۔صبر کا دامن اتنا
پھیل جاتا ہے کہ دعاؤں کی جھولیاں کم پڑ جاتی ہیں۔
ایک غیر مسلم اس حقیقت سے آشنائی پاگیا۔سچائی کی تلاش میں صراط مستقیم پر
چلنے کی رضامندی سے ہی سکون کے گہرے سمندر سے خوشیوں کی موتی بھری سیپیاں
سمیٹنے لگا۔مگر پیدائش کے فوری بعد جس کے کان میں اللہ اکبر اللہ اکبر کا
پیغام پہنچا وہ کان آج بھی حقیقت پسندانہ سچائی کی تلاش میں بھٹک رہا
ہے۔علم کے قلم سے سچائی کی کتاب پر سنہری حروف میں لکھنا مقدر سمجھتا ہے۔سچ
کو عقل کے پیمانہ سے ماپنا چاہتا ہے۔تصدیق کے لئے تحقیق کا سہارا چاہتا
ہے۔ہبل سے اُتاری گئی تصویریں خوش رنگ امتزاج سے آگے بحث کے قابل نہیں
رہتیں۔وہ اپنی تعریف کے لئے لفظوں کے سہارے کی پابند نہیں۔مگر قرآن نے کسے
مخاطب کیا اسے جاننا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
اس پیراگراف تک پڑھ کر جو پہنچے ہیں،ان میں ایک الفاظ کے بہاؤ میں بہتے چلے
آئے ہیں۔جن کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس تحریر سے حاصل کیا مقصود
ہے۔زندگی پہلے ہی مکمل اور خوبصورت ہے۔اب مزید سوچ کے بار سے ضرب افکار کی
کیا ضرورت ہے۔
دوسرے وہ ہیں جنہیں مسائل اور پریشانیوں نے ستا رکھا ہے۔ہر طرف اُڑانیں
بھرتے بھاری بھر کم مقابل حریف چت کرنے کے درپے ہیں۔بار بار میدان
میںاُترنے کا چیلنج دیتے ہیں ۔ ایسے بہت سے چیلنجز گزر چکے۔کئی ایک اب بھی
سامنے کھڑے ہیں۔مگر چیلنج کرنے والے سکونِ قلب کی نعمت کے نخلستان میں
بکھرے ایک زرے سے زیادہ نہیں۔ وجود میںسکون کے احساس کا ایک سمندر صبر کی
لہروں سے بے یقینی اور بد دلی کے ساحلوں سے ٹکراتا رہتا ہے۔
ضرورت سے زیادہ دنیا کی آرائش و زیبائش لالچ و حسد کی حدیں پھلانگ لے تو
ایک وقت کے بعد ندامت ملامت نہ بھی بنے تو کم از کم صداقت نہیں رہتی۔جو
سچائی سے منہ چھپاتے ہیں وہ کلامِ پاک تک پہنچنے کا راستہ قلب سے نہیں طے
کر پاتے بلکہ رگوں میں دوڑتے لہو سے لیفٹ رائٹ حصوں پر مشتمل دماغ کے خلیات
سے جانچنے پرکھنے کے کیمیکل اثرات کے زیراثر اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔شاگرد جب
خود استاد کے منصب تک پہنچ جاتے ہیں۔تو وہ اپنے پسندیدہ اساتذہ کے خود پر
آزمائے فارمولوں کے ساتھ ساتھ تربیت میں کمی رہ جانے کیوجہ بننے والے نئے
فارمولے بھی آزماتے ہیں۔پھر یہ سلسلہ نئی نئی جہتیں متعارف کرواتا
ہے۔سیکھنے اور سکھانے کا عمل ایک کے بعد ایک چھ سات دہائیوں میں ختم ہوتا
رہتا ہے۔مگر کسی بڑی نئی تبدیلی کا مظہر پانچ دہائیوں میں ایک بار ہی ہو
پاتا ہے۔زیادہ تر پیروی ہوتی ہے۔رہنمائی کا علم صدی میں ایک دو کے ہاتھ ہی
لگتا ہے۔جو شاگردی میں جنونی ہوتے ہیں وہ استادی میں انوکھے ہوتے ہیں۔بقول
غالب!
مشکلیں اتنی مجھ پر پڑیں کہ آساں ہو گئیں
مگر اقبال کا کہنا ہے کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں |