اپنے معاون سے ہماری زیادتی

انسان جب تعداد میں کم تھے تو مسائل بھی کم تھے جوں جوں انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اسی شرح سے مسائل میں بھی اضافہ ہو گیا۔جدید ترین ایجادات ایک طرف ہمیں سہولتیں دے رہی ہیں تو ایک طرف ہمارے مسائل میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔کوئی بھی چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔گاڑیوں کی ایجاد نے ہماری زندگی میں جہاں کافی آسانیاں پیدا کر دی ہیں وہیں اس کے غلط استعمال سے دنیا میں ہزاروں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔کئی لوگ زندہ لاشیں بن جاتے ہیں ۔حادثات کی تعداد میں دن بدن اضافہ کی ایک اہم وجہ سڑک پر بڑھنے والا رش ہے۔حادثات سے نمٹنے کے لیے جہاں ہم سب لوگ اپنی سطح پر کام کرتے ہیں۔وہیں حکومتی سطح پر اس سے بچاﺅ اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مختلف پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔کئی لائحہ عمل تیار کیے گئے ہیں۔اور ایسے ادارے بنائے گئے ہیں جو کسی بھی قسم کی ایمرجنسی کی صورت میں ہمارے لیے معاون و ممدن ثابت ہوتے ہیں۔اس میں قابلِ ذکر نام پولیس کے شعبہ میں (15)کا ہے۔جو ایمرجنسی کی صورت میں ہماری خدمت میں پیش پیش ہو تی ہے۔دوسرا نام ریسکیو سروس( 1122)کا ہے۔یہ بھی ایک انوکھی سروس کی حیثیت رکھتی ہو جو ذات پات اور نسلی گروہ بندی سے ہٹ کر ہر حادثہ میں ہر ایک کے لیے موجود ہوتی ہے۔ایک بزرگ عورت جس کو ایک حا دثہ میں سر پر ایک چوٹ لگی اس کے مطابق ابھی وہ اٹھ کراپنی اس گاڑی جس میں اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اس سے باہر تک نہ آئی تھی کہ ریسکیو کا عملہ اس کی خدمت میں حاضر ہو گیا ۔یہ تو ایک واقعہ ہے مگر اس سے جیسے کئی اور واقعات ہیں جہاں ریسکیو کا عملہ عوام کی خدمت میں عمل پیرا نظر آیا۔مگر سوچ اس بات کی ہے کہ کیا ہم اس سروس کا مناسب طریقے سے استعمال کر پارہے ہیں؟کیا ہم ان حقوق کو ادا کر رہے ہیں جو ایک شہری ہونے کے ناطے سے ہمارے ایسی سروس سے متعلق ہیں؟جواب کافی حیران کن ہے کہ ہم اس کا نہ تو خود استعمال مناسب طرح سے کرتے ہیں نہ ہی کسی ایسے شخص کو اس کا استعمال کر نے دیتے ہیں ۔جسے صحیح معنوں میں اس کی ضرورت ہے۔ایک باشعور اور ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے سے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس امر کو سمجھیں کہ ان کے پاس وسائل کم اور درپیش مسائل ذیادہ ہیں۔ہمیں چاہیے ان کی مدد صرف انتہائی ضرورت کے وقت اور کوئی دوسری راہ نہ ہونے کی صورت میں حاصل کریں۔عام تاثر یہ ثابت کرتا ہے کہ ریسکیو کہ عملہ کو آنے والی ہر پانچ ٹیلی فون کالز میں سے صرف ایک حقیقت پر مبنی ہوتی ہے۔اور باقی چار کالز صرف اور صرف ان کو تنگ کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔جس سے ان کے وقت کے ساتھ عوام پر سے اعتماد بھی ضائع ہوتا ہے ۔اب اگر ایسا ہونے لگ جائے کہ آنے والی ہر ٹیلی فو ن کال کی وہ تصدیق کریں تو عین ممکن ہے کہ اس دوران مریض کی جان چلی جائے۔اس امر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنی سطح پر عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف انتظامات کرے تاکہ عوام کو اس شرارت کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات کا اندازہ اور علم ہو سکے ۔ساتھ ہی ساتھ ایساکرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزادیکر ان کو با قی ماندہ عوام کے لیے عبرت بنائیں۔مگر سب سے پہلے اصول عوام میں وضع کیے جائیں کہ کن حالا ت میں ریسکیو کا عملہ ان کی مدد کرے گا اور کن حالت میں ان کی کوئی مددنہیں کی جائے گی۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 47908 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More