طیارہ حادثہ اور اہل ِعلم کی رحلت

ہم ابھی اسلام آباد کے مسحور کن موسم بہار کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے تھے ....رنگ برنگے پھول ،سرسبزی وشادابی ،خواشگوار موسم اور نظر نواز نظاروں کے ساتھ ساتھ دینی ،علمی اور روھانی بہاروں نے ایک سمان باندھ رکھا تھا کہ اچانک بھوجا ائر لائن کے طیارے کے حادثے کی خبر ملی ۔دل اداس ہو گیا ۔فوراامدادٹرسٹ کے امدادی قافلے کے ساتھ جائے حادثہ کی طرف روانہ ہوئے ۔واہموں کا ہجوم ہو گیا،فکر مندی اور پریشانی کے سائے پھیلتے چلے گئے اور پھر موبائل فون پر برقی پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔سب سے پہلے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی کے ناظم تعلیمات مولانا عطا الرحمن کی شہادت کی اطلاع ملی ،تھوڑی دیر بعد مولانا عبدالحکیم ؒ کے پوتے اورمولانا عبدالمجید ہزاروی کے بھتیجے اور دست ِراست جواں سال شہزادے برادرم پیر عثمان رشید کی خبر آئی،پھر مکہ مسجد کراچی کے مولانا یوسف کشمیری کے بڑے بھائی مولانا یونس کشمیری کا سنا ،اتنے میں معلوم ہوا کہ ہمارے محلے کے ایک ساتھی بھی اللہ کو پیارے ہو گئے اور پھر اوپر تلے دل دہلا دینے والی اطلاعات ....وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلی مولانا قاری محمد حنیف جالندھری سے ،کراچی میں جامعہ بنوریہ کے مولانا مفتی نعیم سے ، اسلام آباد میں مولانا عبدالغفور ،روزنامہ اسلام کے بردارم عنایت الرحمن شمسی اور حفیظ اللہ عثمانی سے راستے میں مسلسل رابطہ رہا،ایک دوسرے سے تعزیت کرتے ،احوال معلوم کرتے رہے ....ہر کوئی سوگوار ،ہر کوئی اداس ....جائے حادثہ پر پہنچے تو وہاں کا ماحول ہی سوگوار تھا .... کچھ دوست پولیس اور فوج کے آنے اور رش بڑھنے سے پہلے اصل جائے وقوع تک پہنچ چکے تھے لیکن جب رش بہت بڑھ گیا اور امدادی کاموں میں رکاوٹ پید اہونے لگی تو فوج اور پولیس نے راستے بند کر دئیے تھے اور عین جائے حادثہ پر جانے کی اجازت نہ تھی .... اپنے رشتے داروں کی تلاش میں دیوانہ وار پریشان اور سرگردان لواحقین کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا اور ان کی حالت دیکھ کرپریشانی دوچند ہوئے جاتی تھی ....اگر اپنا کوئی پیارا آخرت کے سفر پر روانہ بھی ہوجائے اس کی میت سامنے پڑی ہو ،یہ یقین ہو کہ ہمارا یہ عزیز اللہ کو پیارا ہو چکا تو پھر بھی کچھ تسلی ہو جاتی ہے ....انسان رو دھو کر چپ ہو جاتا ہے لیکن اگر خدانخواستہ ایسی کیفیت ہو کہ اپنے پیاروں کی موت وحیات کی ہی خبر نہ ہو ،میتیں ملنے اور چہرے دیکھنے کے امکان کا سورج بھی ڈوبتا دکھائی دے تو انسان کس کرب سے دوچار ہوتا ہے اس کا اندازہ اس طیارے حادثے میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کے غم سے نڈھال لواحقین کی بے تابی ،اضطراب اور بے بسی دیکھ کر ہوا ....جائے حادثہ کے قریب موجود تھے کہ استاذ مکرم مولانا شبیر احمد عثمانی تشریف لے آئے ....ایک وجیہ اور ہنس مکھ شخص کا چہرہ اس وقت اجڑا ہو اتھا، آنکھوں میں اداسی کے ڈیرے تھے ....استاذ مکرم بھوجا ائر پورٹ کی اسی پرواز کے ذریعے کراچی سے اسلام آباد تشریف لانے والے مولانا یونس کشمیر ی کے استقبال کے لیے ائر پورٹ گئے ہوئے تھے وہیں انہیں طیارے کے حادثے کی اطلاع ملی اور پھر وہ جائے حادثہ پر پہنچ گئے ....بکھرے لاشے ،کٹے پھٹے اعضاء،طیارے کے ٹکڑے ،مسافروں کا ساز وسامان مولانا شبیر ایسا کوئی باہمت اور دل گردے والا شخص ہی وہ منظر برداشت کرسکتا تھا ....مولانا نے ائر پورٹ پر کچھ دیر پہلے اپنے عزیزوں کے انتظار میںجو دمکتے چہرے اور بے تاب آنکھیں دیکھی تھیں اب جب انہیں جائے حادثہ پر روتے پیٹے دیکھا تو ان پر کیا گزری ہوگی وہی زیادہ بہتر جانتے ہیں ۔

وہ شب اسلام آباد کے باسیوں کے لیے بیت سوگوار،المناک اور پریشان کن شب تھی ۔جائے حادثہ اور ہسپتالوں کے درمیان بھاگتے دوڑتے ،اپنی جانیں ہار جانے والوں کے ورثاءسے تعزیت کرتے اور ان کو تسلی دیتے ہوئے اور حادثے کی جزئیات وتفصیلات کریدتے ہوئے بیت گئی ....اور رہ گئے وہ لوگ جنہیں اپنے پیاروں کی ”شناخت “ کٹھن مرحلے سے گزرنا پڑا اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے ۔خدا خدا کر کے رات بیتی اور اگلادن پھر جنازوں کو کندھے دیتے گزر گیا ....مولانا عطا ءالرحمن کی نماز جنازہ مولانا مفتی ابرار کی مسجد فاروق اعظم میں ادا کی جانی تھی ....ایک ایسی عظیم علمی شخصیت جن کے جانے سے پید اہونے والا خلا شاید کبھی پر نہ ہو سکے ....ان کی زندگی پر بردارم مولانا شفیع چترالی نے جو کچھ لکھ دیا شاید اس پر کوئی اضافہ ممکن نہ ہو....مولانا عطاالرحمن کا نام تو بہت سنا تھا ،ان کے کام کی تفصیل بھی وقتا فوقتا سامنے آتی رہی لیکن انہیں بہت قریب سے لیبیا کے ایک سفر کے دوران دیکھنے کا موقع ملا ....سفر میں ہی کسی کی شخصیت اور عظمت کھل کر سامنے آتی ہے یا پھر اس کی حقیقت اور اصلیت بے نقاب ہوتی ہے ....لیبیا کے اس سفر میں مولانا عطاءالرحمن کی سنجیدہ مگر دلکش شخصیت دھیرے دھیرے دل میں اترتی چلی گئی ....طرابلس اور بن غازی کے وہ مناظر،موہ مجالس ،و ہ محافل اور مولانا کی مسکراہٹیں اور عظمتیں کبھی فراموش نہ کی جاسکیں گی....مسجد فاروق اعظم کے باہر اتنی بڑی تعداد میں اہل علم وعمل کا ہجوم اور ان میں بڑی تعداد ان جواں سال علماءوفضلاءکی جنہوں نے جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن سے کسب فیض کیا انہیں دیکھ کر مولانا عطا ءالرحمن کی موت پر بھی رشک آنے لگا ....جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن عجیب دینی درسگاہ ہے جس کا فیض بھی بہت عام اور جس کے ابناءکی قربانیوں اور دکھوں کی ایک طویل داستان ہے ....جنازے میں یوں تو بہت سے چہرے دیکھ کر مولانا عطاءالرحمن یاد آئے لیکن مولان اامدا د اللہ اور مولانا انعام اللہ کے دکھی چہروں کو دیکھ کر مولانا عطا الرحمن بھی نگاہوں کے سامنے آکھڑے ہوئے ....گزشتہ دنوں مولانا ولی خان المظفر نے ایک کالم میں ”امداد وعطا “کا جوذومعنی ٰ عنوان باندھاتھا ان دونوں نامور علماءکرام کی طویل باہمی رفاقت کی اس سے اچھی اور کیا تعبیر ہو سکتی ہے ؟....دن کو مولانا عطا الرحمن کی نماز جناز ہ ادا کرنے کے بعد جب سہہ پہر جواں سال مولانا عثمان رشید کی نماز جنازہ کی ادائیگی کے لیے مسلم گراؤنڈ جانا ہوا تو غم ودرد سوا ہوگیا ۔جواں سال عالم دین،ہنستامسکراتا چہرہ ،چڑھتی جوانی،مولانا عبدالمجدی ہزاروی کے ساتھ بہت سی مجالس میں بردارم عثمان رشید سے ملاقات ہوئی ....عمر کی صرف چھبیس بہاریں دیکھنے والا عثمان رشید ایک شہزادہ دکھائی دیتا تھا....بہت سمجھدار ،بہت وجیہہ ،بہت سی صلاحیتو ں کا مالک ....اس نوجوان سے ڈھیر ساری توقعات وابستہ کر لی گئی تھیں ....جنازے کے لیے جاتے ہوئے شیخ الہند سیمینار کے اشتہارات اور پینا فلکس پر ہنستا مسکراتا عثمان رشید دیکھ دیکھ کر دل سے درد کی ایک ہوک سے اٹھتی رہی ....اور جب مولاناعبدالمجید ہزاروی سے ملاقات ہو ئی تو ان کی سرخ انگارہ بنی آنکھیں،ستا چہرہ،مغموم حالت دیکھ کر بے طرح آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ....
یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا تو ضرور مگرکھل کر مسکر ا نہ سکا

طیارہ حادثہ پاکستان کی تاریخ کا ایک افسوسناک اور المناک حادثہ ہے جس کا دکھ اور غم مدتوں رہے گا ....اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ مولانا عطا الرحمن ،پیر عثمان ،مولانا یونس،مولانا عرفان اور دیگر اہل علم سمیت اس جہاز کے تمام مسافروں کو غریق رحمت فرمائیں اور ان کے لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائیں ....آمین
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130199 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.