بابے بشیر کی عمر اس وقت تقریباً
ستر سال کے قریب ہے، ایک وقت تھا جب لوگ اُسے چوہدری بشیر احمد کے نام سے
پہچانتے تھے اُن کی انڈسٹری اور امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار سے لوگ انہیں
بڑی عزتُ احترام کی نظر سے دیکھتے ،انہیں میں سے کچھ حسد اور کینہ رکھنے
والے دوست نما دشمن بھی تھے جو ہر وقت اُن کے کاروبار کو تباہ کرنے کے لیے
طرح طرح کی تدبیریں کرتے رہتے، انسان خطا کا پُتلا ہے ،جیسا کہ حضرت باوا
آدم سے ہوتا آیا ہے، بابے بشیرنے بھی شیطان کے بہکاوے میں آ کر ایک بہت بڑی
غلطی کر ڈالی جس نے اُس کے تمام کاروبار اور چلتی انڈسٹری کو دیمک کی طرح
چاٹنا شروع کر دیا ،باوجود اس کے کہ بابے میں نہ تو کوئی شرعی عیب تھا اور
نہ ہی کوئی بُری عادت ، مگر کاروبار تھا کہ دن بدن بابے کی لاکھ کوششیں
کرنے پر بھی نیچے جا رہا تھا، آہستہ آہستہ پہلے انڈسٹری بند ہوئی پھر
ایکسپورٹ بھی ہاتھ سے نکل گئی جو پارٹیاں سالہا سال سے مال امپورٹ کر رہی
تھیں بدظن ہوکر منہ پھیر گئیں، حالات نے ایسی کروٹ لی کہ وہ مثال بابے پر
صادق آنے لگی کہ سونے میں ہاتھ ڈالتے تو مٹی بن جاتا ، بابے نے چاول خریدا
تو اُس میں ایسا کیڑا لگا کہ چاول کی بوریاں پھینکنے کے لیے جگہ ملنی مشکل
ہو گئی، چوہدری بشیر احمد جس سے لوگ کاروبار کرنے کے لیے مشورے لینے آتے
تھے اب اُس میں اپنے کاروبار کو سنبھالنے کی سوجھ بوجھ نہیں تھی ۔
آخر کار نوبت دیوالیہ ہونے کی سی ہو گئی ،جس بنک میں لاکھوں ایسے ہی پڑے
رہتے تھے اب اُس بنک کے لاکھوں اوور ڈرافٹ کی شکل میں سر پر سوار رہتے، آخر
کار بابے نے گھر میں بیٹھ کر سوچنا شروع کیا کہ کونسا گناہ یا کونسی خطا
سرزد ہو گئی جس سے اللہ تعالٰی ہم سے ناراض ہو گیاہے کہ جس کام میں بھی
ہاتھ ڈالتے ہیں اُلٹا ہو جاتا ہے،جب انسان اپنا خلوصِ نیت سے اِحتساب کرنے
بیٹھ جائے تو اپنے سب عمل اچھے بُرے سامنے آ جاتے ہیں جن کے نتائج بھی سمجھ
میں آ جاتے ہیں، لہذا بات جب سمجھ میں آئی تو بہت دیر ہو چکی تھی!
ہوا کچھ یوں تھا کہ جب چوہدری بشیر احمد کا ستارہ عروج پر تھا اور بنک میں
لاکھوں جمع رہتے تھے تو بنک منیجر جو ہر وقت اُن کی جی حضوری میں لگے رہتے
اور اُن کو سرمایہ کاری کے نت نئے طریقے سمجھاتے رہتے، کہ اگر آپ دس سال کے
فکس ڈپازٹ کریں تو آپ کو اتنا ملے گا اور آپ کے کاروبار پر بھی کوئی اثر
نہیں پڑے گا کہ ہم آپ کو فکس ڈپازٹ کا نوے پرسنٹ O.D کی شکل میں واپس دے
دیں گے تا کہ آپ اُس سے اپنے کاروبار کو وسعت دے سکیں ، اب چوہدری بشیر
اتنا سیدھا بھی نہیں تھا کہ بنک والوں کی اِس چال کو نہ سمجھتا ، اُسنے پھٹ
سے منیجر کو ہنستے ہوئے جواب دیا کہ اِس کا مطلب تو یہ ہوا کہ چِت بھی آپ
کی اور پٹ بھی آپ کی یعنی پیسہ بھی میرا ہوگا اور آپ اُسے اوور ڈرافٹ کی
شکل میں مجھے لوٹا کر مجھ ہی سے انٹرسٹ لیں گے، اس پر منیجرنے انہیں لالچ
دکھاتے ہوئے کہا، اور آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ دس سال بعد آپ کا سرمایہ
بھی تو ڈبل ہو جائے گا ؟ چوہدری صاحب نے فیصلہ کُن لہجے میں جواب دیا ، نہ
بھئی مجھے سود کے نام ہی سے نفرت ہے مُجھے ایسا کام ہی نہیں کرنا جس میں
سود کا پیسہ ہو اور یہاں تو دونوں صورتوں میں سود ہے فکس ڈپازٹ میں بھی اور
جو آپ اوور ڈرافٹ دیں گے اُس میں بھی آپ نے شاید نہیں سُنا کہ سود لینے اور
دینے والا دونوں گناہگار ہیں ؟ بنک منیجر نے بڑی ڈھٹائی سے قائل کرنے کے
لیے ایک بھونڈی دلیل دیتے ہوئے کہا، ارے صاحب اب تو پوری دنیا سود پر چل
رہی ہے آپ کیسے بچ سکتے ہیں آپ کا مُلک بھی تو سود کے پیسے سے چل رہا ہے ،
آپ جو امپورٹ کرتے ہیں اُس پر بھی تو کسی نہ کسی شکل میں سود ادا کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں نہ کہ لالچ بری بلا ہے اور ہر روز ایک ہی بات کی تکرار بنک
والوں کے نت نئے نئے ہتھکنڈوں نے ایک دن رنگ دکھایا اور چوہدری صاحب موم کی
طرح لالچ کی آنچ سے پگھلنے لگے اب جب منیجر نے اُنہیں آفر کی کہ ٹھیک ہے آپ
فکس ڈپازٹ نہ کریں ہم آپ کو موڈگیج کی سہولت فراہم کر دیتے ہیں آپ کھلے دل
سے اپنی فیکٹری کے لیے کیمیکل اور میٹریل امپورٹ کریں آپ صرف دس پرسنٹ پر
ایل ،سی کھولیں گے باقی کا سرمایہ بنک فراہم کرے گا اور مال اپنے گودام میں
محفوظ کر لے گا جب بھی آپ کو جتنے مال کی ضرورت ہو گی آپ اُتنے پیسے بنک
میں جمع کروا کر ڈیلیوری آرڈر لیں اور کھلے دل سے دوسروں کو بھی سیل کریں ،
کبھی کبھی جب مال کی مارکیٹ میں کمی ہو جاتی ہے تو یہی کیمیکل دوگنے داموں
پر بھی فروخت ہوتا ہے جو کہ منافع ہے سود نہیں!
بنک منیجر کی بات سُن کر اور منافع کا نام سُن کر چوہدری صاحب کی رال ٹپکنی
شروع ہو گئی، انہوں نے بڑے کمزور سے لہجے میں کہا، مگر آپ سے پہلے جو منیجر
تھے اُن سے بھی میری اچھی صاب سلام تھی اُنہوں نے ایک دفعہ بڑے مخلصانہ
انداز میں کہا تھا کہ بنک ہمیشہ نارمل حالات میں چھتری فراہم کرتا ہے ،
دھوپ تیز ہو جائے تو سایہ کھینچ لیتا ہے، آپ بھی کہیں ایسا تو نہیں کریں گے
؟ انہوں نے بات کو ہنسی میں اُڑاتے ہوئے جواب دیا ، ارے واہ صاحب آپ بھی
کیسی بات کرتے ہیں ہم اپنی اتنی اچھی پارٹی کوبھلا کیسے غلط مشورہ دے سکتے
ہیں ، آپ کام شروع کریں اچھے بُرے حالات میں بنک آپ کے ساتھ کھڑا ہو گا۔
دوسرے روز جب چوہدری بشیر احمد بنک پہنچے تو منیجر نے کچھ فارم اُن کے
سامنے رکھتے ہوئے کہا ، میں نے ہیڈ آفس سے وربلی بات کر لی ہے آپ کو پچاس
لاکھ کی موڈگیج کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے جو آگے جا کر کروڑوں میں ہو
جائیگی، آپ اِن فارموں پر دستخط کر دیں ، جو انہوں نے بلا سوچے سمجھے کر
دیئے کہ بنک منیجر کا تیرنشانے پر لگ چکا تھا ، اب اُس نے دوسرا تیر چھوڑتے
ہوئے کہا ، چوہدری صاحب ایسے خانہ پُری کے لیے اگر کوئی زمین کی رجسٹری
وغیرہ ہو تو ؟ ہاں بھئی میں نے نئی فیکٹری کے لیے کچھ زمین خریدی ہوئی ہے
اُ س کی رجسٹری کل آپ کو مل جائے گی چوہدری صاحب نے نے ایک سحر زدہ معمول
کی طرح جواب دیا۔
دوسرے دن زمین کی رجسٹری لے کر جب چوہدری صاحب بنک گئے تو منیجر نے فاتحانہ
مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتے ہوئے کہا، جی جناب، پہلے تو آپ صرف ہمارے
کلائنٹ تھے ، مگر اب تو آپ ہمارے بنک کا ایک حصہ بن گئے ہیں، آپ گرم پینا
پسند کریں گے یا ٹھنڈا ؟ اور ساتھ ہی رجسٹری لے کر کھولتے ہوئے فرمانے لگے،
ویسے تو اِس کی ضرورت نہ تھی مگر فارم پوری کے لیے اور ہیڈ آفس کے اطمینان
کے لیے اِسے ضروری سمجھا جاتا ہے، یہیں سے چوہدری صاحب کی بربادی کا راستہ
شروع ہوتا گیا اور کاروبار دن بدن تباہ ہوتا گیا ، آخر کہ وہ دن بھی آ گیا
جب نقصان اُٹھاتے اُٹھاتے قرضے کا بوجھ بڑھتا گیا اور بنک نے بھی چھتری
چھین کر قرضے کی دھوپ میں جلنے کے لیے میدان میں اکیلا چھوڑ دیا ،دوست
احباب بھی منہ موڑ گئے کہ اس کے پاس جانے سے کہیں کچھ مانگ نہ بیٹھے، بنک
کے نوٹس آنے لگے وہی منیجر جو پلکیں بچھاتا تھا اب آنکھ ملانے سے بھی
کتراتا تھا ، بس ایک ہی بات دہراتا رہتا ، دیکھئے جناب، ہمیں ہیڈ آفس کو
جواب دینا پڑتا ہے آخر ہمیں نوکری کرنی ہے آپ بنک کو کلیئر کیوں نہیں کر
دیتے ؟
اب چوہدری صاحب کے پاس جب اور کوئی راستہ نہ بچا تو منیجر صاحب نے انہیں
مشورہ دیا کہ آپ اپنی زمین کیوں نہیں بیچ دیتے میرے پاس ایک بہت اچھی آفر
ہے آپ کہیں تو میں بات چلاﺅں ؟ اِس سے آپ کا قرضہ بھی اُتر جائے گا اور ہم
بھی ہیڈ آفس کو مُطمئین کر دیں گے۔
اور وہی ہوا منیجر نے زمین کا ٹکڑا جو بڑے ارمانوں سے چوہدری بشیر نے اپنی
فیکٹری بنانے کے لیے خریدا تھااونے پونے جلدی میں بیچ کر بنک کا قرضہ تو
ادا کر لیا مگر اب چوہدری صاحب کے پاس کاروبار کرنے کے لیے کچھ نھیں بچا
تھا جس سے وہ نئے سرے سے کوئی چھوٹا موٹا کام کر کے اپنی فیملی کو چلا
سکتے۔
لوگوں سے سُنا کرتے تھے کہ جب بُرا وقت آتا ہے تو اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ
جاتا ہے او ر یہ حقیقت انہوں نے اپنے سامنے دیکھ لی تھی کہ ایسے وقت میں
اپنے گھر والے بھی کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے ، یہاں تک کہ بیوی کے رویے میں
بھی فرق آ جاتا ہے وہ بھی بات بات پر بیکاری کا طعنے دینے لگتی ہے، طرح طرح
کی بیماریاں گھیر لیتی ہیں جن کا علاج یا تو اتنا مہنگا ہوتا ہے کہ ایک
بیکار انسان کے بس میں نہیں ہوتا یا پھر یہ لا علاج قسم کی ہوتی ہیں ۔
بابے بشیر میں ایک بات تھی کہ وہ حوصلہ ہار کر بیٹھنے والا نہ تھا ، پندرہ
سال تک بابے بشیر نے ادھر ادھر ہاتھ پاﺅں مارتے گزار دیئے مگر حالات میں
کچھ خاص تبدیلی نہیں آئی پھر بھی وہ تندہی سے حالات کا مقابلہ کرتا رہا ۔
جیسے کہتے ہیں کہ انسان اگر کوئی غلطی کرتا ہے تو اُس کی سزا جب تک پوری
نہیں ہوتی تب تک اُس کی رہائی نہیں ہوتی ایسے ہی گناہ کی سزا بھی ملتی ہے
بابے بشیر نے سود کا کام کر کے اللہ تعالٰی کے حکم کی نافرمانی کی تھی لہذا
اُس کی سزا بھی تو اُسی کو پوری کرنی تھی ۔
آخر وہ وقت آ ہی گیا جس کا بابے کو انتظار تھا، ایک قریبی عزیز نے بابے
بشیر کے تجربے کو دیکھتے ہوئے برابر کے منافع پر کچھ سرمایہ لگانے کی پیشکش
کی جسے لے کر بابے بشیر نے اللہ تعالٰی کی طرف سے مدد سمجھ کر کام نئے سرے
سے شروع کیا، جسے دیکھ کر یہ بات ہم سب پر واضح ہو جاتی ہے کہ انسان اگر
ہمت نہ ہارے اور حالات جیسے بھی ہوں اپنی کوتاہیوں کو دورکرتے ہوئے مسلسل
جدوجہد جاری رکھے تو اللہ تعالٰی کو بھی رحم آ ہی جاتا ہے ۔
اب بابے بشیر کو لوگ پھر سے اور زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں اور
کاروبار کرنے کا مشورہ لینے بھی آنے لگے ہیں ، کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے ”چلتی
کا نام گاڑی“ |