وطن کے سپوت

چشمِ تصور سے د یکھیں تو دل د ہل جاتا ہے کہ مائنس 40 ڈگر ی پر اپنے اہل وعیال،دوستوں، بیوی بچوں اور والد ین سے جدائی کا زہر پی کر ایک فوجی جواں قوم کی حفاطت کےلئے برف پوش داویوں میں اپنے فرائض کی ادا ئیگی کےلئے نکل کھڑا ہو تا ہے۔ایک ایسی جگہ جہاں پر زندگی کی کوئی رعنائی موجود نہیں اور جہان پر قدرتی فضا میں سانس لینا بھی ممکن نہیں ۔ ایسی بے رحم ٹھنڈ کہ جہاں ہر چیز برف کے ساتھ برف ہو جا ئے لیکن جذبوں کی ہمالیہ دل میں بسائے میرا فوجی جوان اپنی قوتِ ارادی سے اس جان لیوا برفیلی فضا کو شکست دے کر قوم کی امنگوں کو سرنگوں نہیں ہونے د یتا اور اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے سامنے ڈٹ کر وطن کی حفاطت کا فریضہ سر انجام دے کر پوری قوم کا سر فخر سے سربلند کر دیتا ہے۔موت کو میرا فوجی جوان بھی دیکھتا ہوگا اور اس کا احساس بھی اسے کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لیتا ہو گا لیکن موت و حیات کی اس کشمکش میں اگلے ہی لمحے وطن کی حفاظت کا فریضہ موت کے آسیب کو فتح کر لیتا ہو گا اور پھر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے میر ا فوجی جوان جراتوں کی علامت بن کر ابھرتا ہو گا اور دشمن اس کی کی ہیبت سے لرز اٹھتاہو گا۔ میں کوئی فوجی جوان تو نہیں ہوں اور نہ ہی کسی فوجی کے دل میں پلنے والے جذبات سے آگاہ ہوں لیکن فوجی جوانوں کی جرات اور بہادری کی سنہری داستانوں کی وساطت سے میں نے ان کی ایک تصویر بنا رکھی ہے جس کے اندر وطن کی خاطر ہر قوت سے ٹکرا جانے کا عزم موجود ہو تا ہے۔ اس ٹکراﺅ میں فوجی جوان کی سب سے پہلی اور آخری خواہش شہادت کا حصول ہوتا ہے۔جب زندگی موت سے زیادہ حسین لگنے لگے تو پھر جراتوں کا وہ دھارا پھوٹتا ہے جس کے سامنے ٹھہرنا کسی بھی قوت کے بس میں نہیں ہوتا۔ جراتوں کی یہی داستانیں میرے فوجی جوانوں نے 1965 کی جنگ میں بھی رقم کی تھیں جب دشمن لاہور اور سیالکوٹ کو فتح کرنے کے ناپاک منصوبے لے کر چلا تھا۔ انھیں کیا خبر تھی میجر عزیز بھٹی جیسا ایک دلیر جوان تنِ تنہا ان کی فتح کے درمیان حائل ہو جائےگا اور انھیں ایسی ہز یمت سے ہمکنار کرےگا جسے تاریخ کے صفحات سے کبھی بھی کھرچا نہیں جا سکے گا۔سیالکوٹ میں ٹینکوں کے نیچے بموں کو اپنے جسم پر باندھ کر سینہ سپر ہونے والے یہی فوجی جوان تھے۔ سوچتا ہوں اگر اس وقت میرے فوجی جوان اپنی جان کو وطن کی حرمت سے زیادہ عززیز رکھتے تو پھر ہمارا حال کیا ہوتا ۔باعثِ فخر ہے کہ انھوں نے اپنی جان کو وطن کے تقدس پر یوں قربان کیا جیسے اس جان کا واحد مصرف ہی یہی تھا کہ اسے وطن پر قربان کر دیا جائے۔
شہادت ہے مقصود و مطلوب و مومن۔۔نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
دو عالم سے کر تی ہے بے گانہ دل کو ۔۔ عجب چیز ہے لذتِ آشنائی (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)

ہٹ دھرمی اور انا نییت نے ہمیشہ سے تباہی اور بربادی کی بنیادیں رکھی ہیں ۔ قوت و حشمت کے نشے میں بد مست قوم دوسری اقوام پر اپنا تسلط قائم رکھنے کےلئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعما ل کرتی ہے جس سے فضا میں کشیدگی اور مخاصمت کی فضا پروان چڑھتی ہے ۔یہی وطیرہ ہٹلر اور مسولینی نے بھی اختیار کیا تھا اور انسانیت کو دوسری عالم گیر جنگ کی ہولناکیوں کی نذر کر کے کروڑوں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیلا تھا۔بھارتی قیادت بھی ایسی ہی سفا کانہ روش کا شکار ہے اور اپنے تو سیع پسندانہ عزا ئم کی وجہ سے پورے جنوبی ایشیا کے امن سے کھیل رہی ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ سیا چین آزادی کے بعد ہمیشہ سے پاکستانی کنٹرول میں تھا کیونکہ اسکی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ پاکستانی علاقے سے متصل ہونے کی وجہ سے وہاں پر پا کستانی کنٹرول قائم ہے اور اسے بھارت نے بھی تسلیم کیا ہوا تھا۔ برفانی علاقہ ہونے کی وجہ سے پاکستان نے کبھی بھی اس جگہ فوج رکھنے کی ضروت محسوس نہیں کی تھی کیونکہ فوج کا اتنی سخت سردی میں وہاں پر اپنے فرائض سر انجام د ینا ممکن نہیں تھا۔ بھارت نے اسی بات کا فائدہ اٹھا تے ہو ئے 1984 میں سیاچین کے کچھ علاقوں پر اپنا قبضہ قائم کر لیا اور پھر پاکستان کو بھی دشمن کا مقابلہ کرنے کےلئے اپنی فوجیں بھیجنی پڑیں۔سیاچین دنیا کا وہ بلند ترین مقام ہے جہاں پر پاکستان اور بھارت کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں اور انکی نقل و حرکت پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے اور اپنے محدود ذرئع کی وجہ سے اس تصادم کےلئے اتنے زیادہ اخراجات برداشت کرنا اس کےلئے ممکن نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی یہ اخراجات ا ٹھا رہا ہے کیونکہ وطن کی حفاظت اس سے اس بات کا تقاضہ کر رہی ہے۔دریائے سندھ کا پانی سیاچین کے ا نہی گلیشئر سے آتا ہے اور پھر شاہراہِ قراقرم بھی اسی جگہ سے گزرتی ہے لہذا بھارتی عزائم کو سمجھنا چنداں د شوار نہیں ہے ۔ ہندو کی ازلی مکاری سے ہم بخوبی واقف ہیں لہذا اس سے کسی بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ بھارت شروع دن سے ہی پاکستان کے وجود کے خلاف رہا ہے اور پاکستان کے وجود کو مٹانے کی خاطر وہ ہر حربہ استعمال کرتا رہتا ہے جس سے اسکی اس خواہش کی تکمیل ممکن ہو سکے اور اس کا اکھنڈ بھارت کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ کشمیر پر ناجا ئز قبضہ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے بھی اکھنڈ بھارت کی تمناﺅں میں رنگ بھرنا مقصود تھا۔بنگلہ دیش کے قیام سے پاکستان کا ایک بازو اس سے الگ ہو گیا اور پاکستان بہت کمزور ہو کر رہ گیا لیکن اس نے پھر بھی بھارت کے سامنے سرنگوں ہو نے سے انکار کر دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ا یٹمی طاقت کے حصول کو اگر ممکن نہ بنایا ہو تا تو نجا نے کیا سے کیا ہو جاتا لیکن شکر ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے اور بھارت اس قوت کی موجودگی کی وجہ سے اپنے جارحانہ عزائم کو بروئے کار لانے سے قاصر ہے۔جی تو اسکا بہت چاہتا ہے کہ کچھ کر گزرے لیکن پھر الٹے پاﺅں واپس بھاگ جاتا ہے کیونکہ اسے پاکستان کی ایٹمی قوت سے خوف آتا ہے۔۔

گیاری کے حادثے نے پوری قوم کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔ اس کے 139 سپوتوں کی اچانک موت نے ہر آنکھ کو اشکبار کر کے رکھ دیا ہے۔کون سا ا یسا دل ہے جو ان فوجی جوانوں کی موت پر تڑپ کر نہیں رہ گیا ۔فوجی جوانوں کا کام موت سے آ نکھ مچولی کرناہوتا ہے اور وہ ہر روز موت کو اپنے سامنے دیکھتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں کسی خوف کا گزر نہیں ہوتا۔ فوجی جوان دشمن سے لڑ تے ہوئے جامِ شہادت نوش کر لیں تو پوری قوم ان کی جراتوں کے گیت گاتی ہے اور انھیں ہدیہ تبریک پیش کرتی ہے لیکن اگر فوجی جوان برفانی تودے یا سماوی آفات کا شکار ہو کرموت کی وادی میں چلے جائیں تو ہر دل میں کسک مزید گہری ہو جاتی ہے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب 1971 کی جنگ میں ہمارے فوجی جوان بھارتی قید میں تھے تو اس زمانے میں فوجی بھائیوں کےلئے ریڈیو پر ایک پروگرام نشر ہوا کرتا تھا جس میں قیدی فوجیوں کا کوئی قریبی رشتہ دار پیغام ریکارڈ کرواتا تھا۔ ایک دفعہ میانوالی کی ایک ماں نے اپنے قیدی بیٹے کےلئے جو پیغام ریکارڈ کروایا وہی پاکستانی فوج کے جذبوں کا مکمل احاطہ کئے ہو ئے ہے۔ اس عظیم ماں نے کہا میرے بیٹے تم دشمن کی قید میں ہو لہذا جب کبھی تصادم کا وقت آجائے تو گولی سینے پر کھانا اگر تم نے گولی اپنی پیٹھ پر کھائی تو تماری ماں تمھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ا للہ تمھارا حامی و ناصر ہو۔زندہ قومیں ہمیشہ اپنے سپوتوں پر فخر و ناز کیا کرتی ہیں کیونکہ ان کا واحد مقصد وطن اور اس کے شہریوں کی حفاظت کرنا ہو تا ہے۔جب ساری قوم سکون سے سو رہی ہوتی ہے تو ہمارا فوجی جوان سرحد پر سینہ تانے کھڑا ہوتا ہے اور اس کا واحد مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہو تا ہے کہ اس ملک کے شہری امن وسکون سے ز ندہ رہیں اور اس کے وطن کی جانب کوئی میلی آنکھ سے دیکھ نہ پائے۔اس کا یہی جذبہ ہم وطنوں سے عزت و احترام اور محبت کی سوغات وصول کرتا ہے اور وہ قوم کا ہیرو بن کر سب کے دلوں کو تسخیر کرتا ہے۔ قوم کے محا فظوں کو جب موت کا بے رحم ہاتھ دبوچ لیتا ہے تو اہلِ وطن کے دلوں میں کہرام مچنافطری ہوتا ہے۔ وہ لوگ جن کی سب سے پہلی ذمہ داری اپنے ہم وطنوں کی حفاظت ہوتی ہے جب وہ ناگہانی موت کے ہاتھوں یوں بے بس ہو جاتے ہیں تو ہم سب کا درد و الم سے آنسو بہانا سمجھ میں آسکتا ہے۔

1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں سیاچین سے فوجوں کی واپسی کو یقینی بنایا جانا تھا لیکن بھارتی فوج نے راجیو گاندھی کے اس منصوبے کو سبو تاژ کیا اور اس کے عمل در آمد میں غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کیں۔اس کے بعد کسی نے بھی اس سمت میں سنجیدہ کوششیں نہیں کیں ۔ پاکستان اور بھارت دونوں غریب ممالک ہیں اور ان کے ہاں تعلیم ،صحت، علاج معالجے ، امن و امان اور روزگار کے بے شمار مسائل ہیں جو سیاچین کی بے مقصد جنگ کی نذر ہو رہے ہیں۔ضروت اس امر کی ہے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اپنی فوجیں 1984 والی پوزیشن پر واپس لے جائے تا کہ پاکستان بھی اپنی فوجوں کی واپسی کا اعلان کر سکے اور یوں انسانی ضیا ع کو روکنے کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکے۔میاں محمد نواز شریف نے فوجوں کی یک طرفہ واپسی کا جو اعلان کیا ہے وہ مناسب نہیں ہے جس نے فوجی جوانوں کے حوصلوں کو پست کیا ہے۔بھارت جیسے مکار دشمن کےلئے تو یہ تجویز کسی نعمت سے کم نہیں ہے کیونکہ ایسی تجاویز اسے بڑی سوٹ کرتی ہیں۔ دشمن با وقار ہو کسی اصول و ضوابط کا پابند ہو تو ایسی تجویز پر اعتراضات کو نظر انداز بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارا دشمن تو بہت کمینہ ہے جس نے اپنی ازلی مکاری سے رات کی تاریکی میں ہمارے علاقے پر غیر قانونی قبضہ کر لیا تھا اور اسے چھوڑنے کےلئے بھی تیار نہیں ہے۔اسے فوجوں کی یک طرفہ واپسی کی سہولت کی پیشکش کرنا خود کو مزید مصائب کے حوالے کرنے کے متراد ف ہے۔ جنرل ضیا لحق نے بھی اسی طرح کا موقف پیش کیا تھا جب اس نے کہا تھا کہ سیاچین پر تو گھاس بھی نہیں اگتی لہذا بھارتی قبضے سے ہمیں پریشان نہیں ہونا چائیے۔قوم آج تک جنرل ضیا الحق کو ان کی اس بد حواسی پر معاف نہیں کر سکی کیونکہ جنرل ضیا الحق کا یہ بیان قوم کی امنگوں کے خلاف تھا۔صدرِ پاکستان آصف علی زردار ی کا موقف زیادہ وزنی ہے کہ فوجوں کو اسی وقت واپس بلایا جا سکتا ہے جب دونوں ملکوں کی قیادتیں ان کے انخلا ءکا فیصلہ کریں۔ اگر ہمیں موسمی حالات کا نقصان ہے تو بھارت بھی تو اسی فضامیں سانس لے رہا ہے ۔فوجی جوان ملک کی سرحدوں کے محافظ ہیں اور پوری قوم انکی پشت پر کھڑی ہے ۔ ہم انھیں کسی بھی موقعہ پر تنہا ہونے کا احساس نہیں ہونے دیں گئے۔و ہ پو ری قوم کے ہیرو ہیں اور ہم انھیں ہمیشہ ہیروز کا احترام اور عزت دیں گے۔انھیں قوم کی عزت و ناموس کی خاطر ڈٹ جا نا ہو گا کہ وطن ان سے اسی بات کا تقاضا کر رہا ہے۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515729 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.