عالمی سامراجی قوتوں کی ہمیشہ سے
یہ پالیسی رہی ہے کہ پسماندہ ممالک کے باشندوں کو عمومی جہالت میں رکھا
جائے۔ یہی واحد حربہ ہے جس کی بناءپر یہ استعماری طاقتیں کھلی آزادی اور
دھڑلے سے تیسری دنیا کے ملکوں کے خام وسائل پر قابض رہتی ہیں اور انہیں
جدید صنعتوں اور مشینری کے بل بوتے پر اپنی داخلی ترقی اور استحکام میں
بروئے کار لاتی ہیں۔
چھوٹے اور نسبتاً غریب ممالک کو قرضوں کے ذریعے اپنے شکنجے میں جکڑ کر
رکھنا عالمی طاقتوں کا پرانا طریقہ ہے۔ کشورکشائی کی ہوس میں میں مبتلا
قوتیں کمزور ممالک کے باشندوں کو تعلیم و ترقی سے دور رکھنے کیلئے اپنے
بہترین دماغوں کے ذریعے پالیسیاں ترتیب دیتی ہیں کہ کس طرح ان لوگوں کو
مختلف علاقائی، گروہی اور سماجی جھگڑوں اور ناہمواریوں میں ڈال کر ان کے
وسائل سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس ذیل میں یہ قوتیں مختلف عنوانات اور سلوگنز
کے ذریعے معاشرے میں اخلاقی پستی اور بگاڑ کے اسباب مہیا کرتی ہیں، تاکہ
وہاں کے افراد بالخصوص نوجوانوں میں قوت عمل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں
کو ضائع کیا جائے اور اپنے طویل المدت مقاصد کی برآری کو یقینی بنایا جائے۔
صنعتی ترقی بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں حیرت ناک انقلاب نے
پوری دنیا کو ایک گاؤں بنا دیا ہے۔ اس کے مثبت پہلووؤں کی فہرست کچھ مختصر
نہیں لیکن ابلاغی انقلاب طاقت کے نشے میں مست استعماری عناصر کے منفی اور
انسان دشمن اقدامات میں بے پناہ اضافے کا باعث بھی بنا ہے اور گزشتہ ایک
دہائی سے ہمارے معاشرتی رویوں اور عمومی اخلاقیات میں غیر معمولی تغیرات
رونما ہوئے ہیں۔
غاصبانہ عزائم کی حامل قوتیں اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ زیر دست ممالک
میں نوجوان ہی وہ واحد طبقہ ہے جو کسی بھی وقت ان کے خلاف صدائے احتجاج
بلند کر سکتا ہے اس لئے اسے مختلف النوع معاشی مسائل، غیراخلاقی سرگرمیوں
اور غفلت کوشی میں مبتلا رکھا جائے، اور مذکورہ چیزوں کیلئے ضروری اسباب کو
آسان اور سہل انداز میں قابل دسترس بنایا جائے۔ اس مقصد کیلئے بڑے سے بڑے
اخراجات ترغیبی مہمات اور بے شمار این جی اوز سے مدد لی گئی ہے۔
فحاشی اور عریانی کے فروغ کیلئے وقتاً فوقتاً مختلف عنوانات اور نعروں کی
آڑ میں کوششیں جاری رہتی ہیں۔ کہیں "عورتوں کی آزادی" تو کہیں "گھریلو تشدد
کے خاتمے" کے بظاہر پرکشش مطالبات سامنے آتے ہیں جیسا کہ آج کل ملک کے
حکومتی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے۔ اس حوالے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر
کثیر مقدار میں سرمایہ خرچ کر کے نوع بہ نوع اشتہارات اور مخصوص مغربی فکر
کی پرچار کیلئے درجنوں پروگرام اسپانسر کےے جاتے ہیں۔ اگر موجودہ نجی ٹی وی
چینلز کا سرسری سا جائزہ لینے پر اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ
روزانہ کی نشریات میں ثقافت اور کلچر کے نام پر مذکور الصدر مقاصد کی تکمیل
کیلئے کتنے پروگرام چل رہے ہیں۔ ان میں سے بیش تر پروگراموں اور ڈراموں کا
موضوع "عورت" کو بنایا گیا ہے، اور اس بات کی مقدور بھر کوششیں جاری ہیں کہ
"مشرقی عورت" کو مظلومیت کا استعارہ ثابت کیا جائے۔ اس مقصد کی تکمیل کیلئے
بالواسطہ طور پر اسلامیتعلیمات کا تمسخر بھی اڑایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ
مختلف ملٹی نیشنل کمپنیاں اور صنعتی ادارے اپنی مصنوعات کی تشہیر کیلئے
شہروں کی مصروف شاہراہوں اور پرہجوم چوراہوں پر جہازی سائز کے سائن بورڈز
نصب کرتی ہیں، جن پر صنف نازک کی تصاویر کو حیا باختہ انداز میں نمایاں
حیثیت کے ساتھ لگاتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے تو حالت بایں جا رسید کہ کوئی
شریف آدمی تو نظر اٹھا کر ان اشتہاری بورڈز کو نہیں دیکھ سکتا۔
کیبل اور نجی میڈیائی ادارے بنیادی طور پر کاروباری ادارے ہوتے ہیں۔ آخری
تجریے میں ان کی ترجیحات اپنی ویورزشب اورریڈرزشپ (حلقہ ناظرین و قارئین)
بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے ساتھ نتھی ہوتی ہےں۔ یہ ادارے
اکثر اوقات پبلک دیمانڈ اور Investers کی مرضی کو پیش نظر رکھ کر اپنی
نشریات پیش کرتے ہیں۔ قطع نظر اس بات سے کہ ان میں سے تعمیری مواد کون سا
ہے اور تخریبی کون سا۔۔۔؟ ہماری عمومی اخلاقیات اور معاشرتی رویوں کو منفیت
کی جانب لے جانے کیلئے میڈیا کے ادارے بطور ایک ہتھیار (Tool) کے استعمال
ہورہے ہیں۔ وجہ صاف واضح ہے کہ فحاشی اور بے راہ روی پھیلانے والے عناصر
براہ راست ہمارے گھروں میں تو داخل ہونے سے رہے لہٰذا میڈیا ان کی ہمارے
گھروں تک رسائی آسان تر بنا دیتا ہے اور اس طرح ہمارے بچے اور گھریلو افراد
کے ذہن و فکر مسموم اور آلودہ ہوتے جاتے ہیں۔
ابلاغیات کی دنیا میں انٹرنیٹ نے ایک تہلکہ مچا دیا ہے اور دنیا کے فاصلے
کم کرنے میں اس کا کردار دیگر ابلاغی آلات سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ پھر اس
میدان میں روز بروز ترقی، نئے رجحانات اور نت نئی سہولیات سامنے آرہی ہیں۔
اس طرح لوگوں کے درمیان باہم رابطے میں تیزی اور آسانی پیدا ہوئی ہے، لیکن
یہاں بھی منفی پہلووؤں کا تناسب بھی کچھ کم نہیں ہے۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ
منفی سائٹس اور مخرب اخلاق مواد تک رسائی کے طریقے کار کو حد درجہ آسان بنا
کر پیش کیا گیا ہے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ آپ جب کسی قسم کی معلومات، خبریں،
مطالعہ یا کسی مفید مواد کی تلاش کیلئے کسی مخصوص معلوماتی سائٹ کو سرچ
کرتے ہیں تو اس دوران اسکرین پر دائیں بائیں کئی ایک اشتہارات ناچنے لگتے
ہیں، اور مختلف ترغیبی جملوں کے ذریعہ ان پر Click کی دعوت دی جارہی ہوتی
ہے۔ بعض اوقات ناپختہ افراد مطلوبہ چیز کے بجائے فضول اور لغو بلکہ فحاشی
پر مبنی چیزوں میں الجھ جاتے ہیں اور ان کی سرچ کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔
اسی طرح انٹرنیٹ پر سوشل ویب سائٹس کی بھرمار ہے۔ یہ سماجی رابطے کا کام
دیتی ہیں۔ ان پر لوگ کھل کر اپنی رائے وغیرہ کا اظہار کرتے ہیں اور باہم
گفتگو بھی جاری رہتی ہے، لیکن منفی سرگرمیوں کی شرح یہاں بھی بہت زیادہ ہے۔
ایک اور المیہ دیکھئے۔ ہم اپنے بچوں کو روزانہ تعلیمی اداروں میں بھیجتے
ہیں اور ان کی جیب میں چند روپے بطورجیب خرچی کے ڈال دیتے ہیں۔ شہروں کی یہ
حالت ہے کہ بہت سے اسکولوں کے پاس انٹرنیٹ کیفے کھلے ہوئے ہیں اور ان کے
مالکان نے اسٹوڈنٹس کے لئے خصوصی رعایت کے اعلانات بھی لگا رکھے ہیں۔ اب یہ
بھولے بھالے بچے بجائے اس کے کہ انٹرنیٹ سے فائدہ اٹھائیں، منفی سرگرمیوں،
حیاسوز فلموں اور غیر اخلاقی مواد دیکھنے اور پڑھنے کی لت میں مبتلا ہوجاتے
ہیں۔ آج کل بہت سے بچے عام طور پر اسکولوں کے تعلیمی اوقات میں یا پھر چھٹی
کے بعد نیٹ کلبوں میں بیٹھے پائے جاتے ہیں۔ گو کہ والدین اور اساتذہ کی ذمہ
داری اس حوالے سے بنیادی اور اساسی ہے لیکن ان معاشرتی برائیوں کے سدباب
کیلئے ایک اجتماعی شعور اور عمومی بیداری کیلئے اقدامات اٹھانا وقت کا
تقاضا ہے۔
اب ہم کس طرح ان مخرب اخلاق چیزوں پر پابندی لگا سکتے ہیں؟ وہ کون سے
اقدامات ہیں جو نوجوانوں کو ان سرگرمیوں سے ہٹا کر تعمیری امور کی طرف
متوجہ کر سکتے ہیں؟ ابلاغی اداروں کو ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد پر کیونکر
مجبور کیا جاسکتاہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو مذکورہ حالات دیکھ کر ایک شریف
اور سلیم الطبع آدمی کے ذہن میں آتے ہیں۔
اس حوالے سے سیمینارز اور بیداری شعور مہموں سے کام لیا جاسکتا ہے اور
سیاسی اور مذہبی جماعتوں بالخصوص ان کے طلباءونگز کو چاہئے کہ ان ویب
سائٹس، رسائل اور پروگراموں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور پرامن
طریقے سے اپنے مذہبی، ثقافتی و معاشرتی مستقبل کو محفوظ بنانے کی سعی کریں۔
چند دن قبل ایک معاصر جریدے میں چھپنے والی خبر امید کی کرن ہے۔ کراچی کا
نوجوان عبداللہ غازی انٹرنیٹ پر فحش مواد کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور
پر ابھرا ہے۔ اس 15 سالہ نوجوان نے انتہائی کم مدت میں قابل اعتراض مواد کی
حامل 7 لاکھ 60 ہزار ویب سائٹس اور لنک کے متعلق پی ٹی اے کو شکایت درج
کرائی۔ شروع میں اس کی کوششوں کو نظر انداز کیا گیا لیکن بالآخر اس نے تگ و
دو کے نتیجے میں جیف جسٹس تک رسائی حاصل کر لی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کا
از خود نوٹس لیا جس کے نتیجے میں 22 جون 2011 کے فیصلے کی روشنی میں
انٹرنیٹ پر غیراسلامی مواد کی روک تھام کو یقینی بنانے کا ایک نظام وضع کیا
گیا۔ ایک دو ماہ تک بعض لنکس بلاک رہے لیکن کوئی باقاعدہ نظام اب تک نہیں
بنایا گیا۔
عبداللہ غازی کی ملک کے نوجوانوں کے اخلاقی تحفظ اور معاشرتی بگاڑ کے خاتمے
کیلئے انفرادی جد و جہد پورے ملک کے باشندوں کیلئے ایک پیغام اور عمل کی
دعوت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس طرح قانونی حدود میں رہتے ہوئے ملک میں
ایک مخصوص منصوبے کے تحت پھیلائی جانے والی فحاشی، عریانی اور بے راہ روی
کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، اور چھوٹے چھوٹے انفرادی اور گروہی مفادات کی
خاطر پریس کلب کے سامنے پلے کارڈ اٹھا کر پہنچ جانے والی سیاسی و مذہبی
جماعتیں اور محب وطن پارٹیاں اس مشترکہ معاشرتی ایشو پر کتنی سنجیدگی کا
مظاہرہ کرتی ہیں۔۔۔۔؟ |