پاکستانی عوام کی ا کثریت اپنے
قومی لیڈر شپ سے نا لاں اور ما یو س ہو چکی ہے۔آپ کسی سے بھی یہ سوال کریں
کہ پاکستان کے حالات کو کیسے ٹھیک کیا جا سکتاہے؟تو اس کا جواب ہوگا کہ
پاکستان کے حالات ایک خو نی انقلاب کے بغیر ٹھیک نہیں ہو سکتے۔مشہور ضرب ا
لمثل ہے کہ زبا ن خلق نقا رہ خدا ، اگر چہ ہم ہر گز یہ نہیں چا ہتے کہ
پاکستان میں کو ئی خو نی انقلا ب آئے مگر حالات و واقعات سے آ نکھیں بند کر
کے منہ پھیرنا بھی کو ئی دا نشمند ی نہیں۔پاکستان کو قائم ہوئے نصف صدی سے
زیادہ کاعرصہ گزر چکا ہے۔اس دوران کئی حکو متیں آ ئیں اور گئیں ہر کسی نے
ترقی و خو شحالی کا دعویٰ تو کیا مگر در حقیقت ہم او پر چڑھنے کی بجا ئے
نیچے تنز لی اور رسوائی کے طرف جا چکے ہیں۔آج جو حال پاکستان کا ہے اسے
دیکھ کر ہر محب وطن شخص کا دل خون کے آ نسو روتا ہے۔ ملک کے تمام اہم ادارے
تباہ ہو چکے ہیں۔
ہر ریاست کے تین بڑے ستون ہو تے ہیں ۔مقننہ، انتظا میہ اور عد لیہ۔ ان میں
سے مقننہ اور انتظامیہ تو زمین بو س ہو چکے ہیں ۔ عدلیہ بھی بے بس ہے۔ملک
کی معیشت تباہ ہو چکی ہے مگر حکمرانوں کے ا للوں تللوں میں کوئی فرق آیا ہے
نہ آ ئیگا بلکہ اس میں اضافہ ہو تا چلا جا رہا ہے جس کا ثبو ت حال ہی میں و
ز یروں کے تعداد میں بے مقصد اضافہ ہے ۔قومی غیرت و حمیت کا جنا زہ نکل چکا
ہے۔۔
اگر کسی بھی ملک کے حالات اتنے گھمبیر ہو جا ئیں تو تاریخ کا سبق یہی ہے کہ
اس ملک میں پھر کچھ نہ کچھ ہو کر رہتا ہے۔اور اگر تبد یلی پارلیمنٹ کے ذ
ریعے نہیں آتی تو پھر دوسرا راستہ خو نی انقلاب کا ہی رہ جاتا ہے۔اس کی
مثال 1789 میں ہمیں فرانس میں ملتی ہے۔ وہاں کیا تھا؟ وہاں ایک مرا عات یا
فتہ طبقے نے ملکی وسائل پر قبضہ جما رکھا تھا۔ وہ عیش و عشرت کی زند گی
گزار رہے تھے جبکہ عوام بھو کو ں مر رہی تھی۔آ خر جب عوام کا صبر کا پیما
نہ لبریز ہو گیا تو وہ سڑ کو ں پر نکل آئے، گلیوں میں پھیل گئے،انصاف اور
مساوات کے لئے انہو ں نے بھر پور آواز اٹھا ئی۔ جس کا نتیجہ ایک بہت بڑے
انقلاب کی صورت میں نکل آیا۔ مر اعات یا فتہ اور استحصا لی طبقے کے سر کا ٹ
دئیے گئے۔
غریبوں کا چوسا ہوا خون جب استحصالی ٹولے کی رگو ں سے نکال دیا گیا تو پھر
وہ رنگ لے آیا۔ملکی وسائل پر غریب عوام کا حق تسلیم کیا گیا۔اور نہ صرف یہ
کہ فرانس دنیا کا ایک ترقی یا فتہ ملک بن گیا بلکہ پو رے یو رپ پر اس کا
اثر ہوا اور اگر یہ کہا جائے کہ آج اگر یو رپ ترقی یا فتہ ہے تو اس کی بڑی
وجہ انقلاب فرانس ہے۔
مگر پاکستانی عوام کو یہ بات یا د رکھنی چا ہئے کہ انقلاب خود بخود نہیں
آتے،قو مو ں کی تقدیریں خو د بخو د نہیں بد لتیں، اس کے لئے جد و جہد کر نی
پرتی ہے۔ قر بانی دینی پرتی ہے۔اللہ تعالٰی کا فر مان ہے کہ انسان کو وہی
کچھ ملتا ہے جس کے لئے وہ کو شش کرتا ہے۔
حکیم ا لا امت شا عر مشرق علامہ محمد ا قبال کا نے بھی اسی بات کو شعر کے
قالب میں ڈ التے ہوئے فر ما یا ہے، اس قوم کی حالت کبھی نہیں بد لی۔نہ ہو
خیال جس کو اپنے آپ بد لنے کا۔۔۔۔۔۔گو یا یہ بات طے شدہ ہے کہاپنی حالت بد
لنے کے لئے کو شش اور جد و جہد لا زمی امر ہے۔پاکستانی عوام گھروں،کارخانوں
، حجروں۔ دفتروں اورچا ئے خانو ں میں اس تمنا کا اظہار تو کرتے ہیں یا اللہ
! پاکستان میں کو ئی خمینی پیدا کر،ورنہ ہم تو اس جینے کے ہا تھو ں مر چلے۔،،
مگر عملی جد و جہد کے لئے میدان میں نہیں نکلتے۔
جبکہ اب ان کے پا س کو ئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہا۔کیو نکہ دو سرا راستہ
پا ر لیمنٹ کے ذریعے انقلاب کا ہو تا ہے،جو نا ممکن ہے ۔ہمارا انتخا بی طر
یقہ کا ر ہی ایسا ہے کہ پا رلیمنٹ میں صرف مراعات یا فتہ طبقے کا فرد ہی شا
مل ہو سکتا ہے۔اور پا کستان کے مراعات یا فتہ طبقے سے انصاف اور مسا وات کی
تو قع رکھنا عبث ہے۔اگر چہ اس وقت عوام کی نظریں اگلے عا م انتخا بات پر
لگی ہو ئی ہیں اور وہ کسی معجزے کے منتظر ہیں ۔لیکن اگر ما ضی کی طرح اگلے
عام ا نتخا بات میں چا چا کی جگہ بھتیجا اور ما ما کی جگہ بھا نجا ہی پا
لیمنٹ میں پہنچے تو پھر مو جو دہ نظام میں کسی تبد یلی کی تو قع نہیں رکھنی
چا ہیے۔ بنا بر ایں اگر پا کستانی عوام نے اپنی حالت بد لنی ہے، اوردنیا
میں ایک با غیرت،با ہمت اور ترقی یا فتہ قوم کی شکل میں زندہ رہنا ہے تو
پھر مو جو دہ نظام سے بغاوت ہی اس کا حل ہے اور اس کے لئے سڑ کو ں پر آنا
ہی پڑے گا۔۔۔ |