عرفان قریشی مر گیا ....یہ خبر
امریکہ میں بیٹھے ہوئے مجھے ایسی لگی جیسے کسی نے میرے سر پر ہتھوڑے کا ایک
بھرپور وار کیا ہو پہلے پہل تو یقین ہی نہ آیا کہ عرفان قریشی ہمیں چھوڑ کر
چلا گیا ہے مگر جب کنفرمیشن کیلئے اس کے نمبر پر فون کیا تو عرفان قریشی کے
بھائی یاسر قریشی نے مجھے بتایا کہ ہاں بھائی جس بات کا ہمیں خدشہ تھا وہی
ہوئی او ر عرفان بھائی ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں یاسر کا یہ بتانا تھا
کہ میرے ہاتھ میں موجود چائے کا کپ چھڑاپ سے نیچے گر گیا اور آنسوں کا ایک
سمندر میری آنکھوں سے چھلک پڑا اور میں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا بہت
کوشش کی کہ نہ روﺅں اور یاسر سے بات کروں مگر ہمت نہ پڑی اسی دوران میں سر
پکڑ کر بیٹھ گیا اور آنکھیں موند لیں کہ اسی دوران میرے ذہن میں دو سال
پہلے امریکہ آنے سے پہلے عرفان قریشی کو کی گئی فون کال اور ملاقات یاد آ
گئی میں نے عرفان کو فون کیا کہ بھائی کدھر ہیں میں ایک پروگرام اٹینڈ کرنے
کیلئے امریکہ جا رہا ہوں مگر جانے سے پہلے آپ سے ملنا چاہتا ہوں جس پر اس
نے کہا کہ سردارمعروف تم میرے چھوٹے بھائی ہو کیا تمھیں مجھ سے ملنے کیلئے
فون کرنا پڑیگا اور یوں میں عرفان قریشی مرحوم سے ملاقات کیلئے اسلام آباد
ستارہ مارکیٹ میں واقع ایک معروف ہوٹل میں چلا گیا جہاں وہ قیام پذیر تھے
ملاقات کے دوران عرفان قریشی نے شکوہ کیا کہ سردار معروف جس طرح تم ہر سال
بنا بتائے یورپ چلے جاتے تھے اسی طرح امریکہ بھی جا رہے ہواگر تم مجھے بتا
دیتے تو میں بھی تمھارے ساتھ چلے چلتا-
عرفان قریشی سے میری شناسائی معروف خبر رساں ادارے این این آئی میں ہوئی
تھی جہاں میں مانیٹرنگ ڈیسک پر کام کرتا تھااور وہ روزنامہ خبریں میں
رپورٹر کی حیثیت سے کام کرتے تھے بعد میں یہ ملاقات ملاقاتوں کا ایک تسلسل
بن گئی اور جب تک ہماری ملاقات نہ ہوتی ہمیں چین نہ آتا مرحوم عرفان قریشی
اپنی ذات میں ایک انجمن تھے جب میں نے رپورٹر کی حیثیت سے فیلڈ میں آنے کا
فیصلہ کیا تو عرفان قریشی نے نہ صرف میری بھرپور مدد کی بلکہ اپنی خبروں کے
ذرائع سے ملاقات کرائی عرفان قریشی ذیابیطس کے مریض تھے اور کافی عرصے سے
اس مرض کے خلاف لڑ رہے تھے اپنی زندگی کے آخری چند سالوں سے عرفان قریشی
تصوف کی طرف چلے گئے تھے اور جو بھی کوئی مسئلہ ہوتا آپ فوری طور پر پیر ی
فقیری کے ذریعے اس کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے اور اس وجہ سے میری ان سے
کافی لڑائی بھی ہوتی رہی کیونکہ میں آجکل کے فراڈ پیروں' فقیروں کے سخت
خلاف بولتا تھا اور وہ ہمیشہ مجھے روک دیا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ آزمائے
بنا مت کسی کی اتنی مخالفت کیا کرو عرفان قریشی مرحوم سے میری ٹیلیفون پر
آخری گفتگو ان کی وفات سے چند روز قبل ہوئی تھی جب انھوں نے مجھے خبر سنائی
کہ ان کو خون کا سرطان ہے اوروہ علاج کیلئے آغا خان ہسپتال کراچی جانا
چاہتے ہیں کینسر کا سننا تھا کہ میرے پاﺅں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور ایک
لمحے کیلئے تو مجھے یو ں لگا کہ میری زبان گنگ ہو گئی ہو جس کو عرفان قریشی
نے فوری طور پر محسوس کر لیا اور ہنس کر کہنے لگے کہ سردار صاحب کہاں گم ہو
گئے ہیں عرفان قریشی میں بے شمار خوبیوں کا ایک مرکب تھا وہ سفید پوش تھا
مگر اس کا دسترخوان بہت بڑا تھا اور میں اس بات کا گواہ ہوں کہ اس نے وفاقی
دارالحکومت میں کام کرنے والے کتنے کشمیری صحافیوں کی اس طرح مدد کی کہ ان
کو آج تک اس کا پتا تک نہیں چل سکا کہ اللہ کے بعد غائب سے کس نے ان کی مدد
کی تھی دنیا میں جو بھی آیا اس نے ایک نہ ایک دن اسے چھوڑ کر واپس جانا ہے
کوئی بڑا ہویا چھوٹا اس نے موت کا ذائقہ ضرور چکھنا ہے کیونکہ یہی قانون
قدرت ہے اور اسی پر دنیا قائم ہے تاہم دنیا میں کچھ ایسے بھی لوگ آتے ہیں
جو اس چھوٹی سے زندگی کو اپنے لئے جینے کی بجائے دوسروں کیلئے جیتے ہیں
اورایسے بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں کہ زمانہ ان کو دنیا کے وجود تک یاد کرتا
رہے گاایسے ہی لوگوں میں عرفان قریشی بھی شامل تھا جس کا نام دنیا کے قائم
رہنے تک سب کی زبان پر رہے گا عرفان قریشی کو مرحوم لکھتے ہوئے نہ صرف میرا
قلم آج زخمی زخمی ہے بلکہ میرا دل بھی ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا ہے لیکن کیا
کروں دل پر پتھر باندھ کا یقین کرنا پڑرہا ہے کہ عرفان قریشی اب ہم میںنہیں
رہااور وہ صرف 40سال کی عمر میں چلا گیا ہے عرفان قریشی کی بے وقت موت سے
کشمیری صحافت میں ایک بڑا خلاءپیدا ہو گیا ہے جو اب مدتوں پورا نہیں ہو گا
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کے درجات کو بلند کرے اور ان کو کروٹ
کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطاء کرے اور ساتھ ساتھ ان کے پورے خاندان کو یہ
غم برداشت کرنے کی ہمت اور حوصلہ دے آخرمیں میں حکومت آزاد کشمیر کا تہہ دل
سے شکرگزار ہوں کے اس نے مرحوم عرفان قریشی کی خدمات کا نہ صرف بھرپور
اعتراف کیا ہے بلکہ اس کیلئے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اپنے وزراءکی ٹیم
کے ہمراہ جس طرح کوٹلی مرحوم کے گھر گئے اور مرحوم کی فیملی کا غم بناٹنے
کی کوشش کی ہے اس پرتمام صحافی برادری نہ صرف ان کاتہہ دل سے شکریہ ادا
کرتی ہے بلکہ اب ہم توقع کرتے ہیں کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید مرحوم کے
بچوں کی کفالت کیلئے بھی کوئی مناسب بندوبست کریں گے مرحوم کے علاج معالجہ
کے حوالے سے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ٬ چوہدری محمد یاسین اور سردار قمر
الزمان نے جو کردار ادا کیا ہے وہ مثالی تھا -
ختم شد |