دو مئی۔۔۔ پاکستان کی خود مختاری

دو مئی 2011 کی صبح جب پاکستان کے عوام بیدار ہوئے تو ایک عجیب و غریب خبر بلکہ ایک وقوع شدہ سانحہ ان کا منتظر تھا۔ قوم کے جذبات میں غم و غصہ بھی تھا اور شرمندگی بھی۔ شرمندگی تو اس بات کی تھی کہ آخر یہ کیسے ممکن ہو ا کہ رات کے اندھیرے میں ہم پر حملہ ہو بھی چکا اور حملہ آور جا بھی چکے جبکہ غم و غصہ اس بات پر کہ ہماری خود مختاری پر حملہ کیسے کر لیا گیا۔

اب یوں تو اس واقعے کو سال ہو چکا لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر یہ ابھی بھی بالکل تازہ تازہ معلوم ہوتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اسے بسا اوقات پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہاہے کہ پاکستان نے اُسامہ بن لادن کو پناہ دیئے رکھی تھی جبکہ دوسری طرف وہ بظاہر دہشت گردی کے خلاف ایک اہم امریکی اتحادی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ بات دراصل دو مئی سے شروع نہیں ہوئی ،بلکہ اس سے پہلے بھی باوجود اِس کے کہ پاکستان اس جنگ سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی یہ الزام تراشی مسلسل جاری رہی ہے۔ پاکستان نے اِس جنگ میں اپنے بے شمار شہریوں کی جانوں کی قربانی دی اور کسی باقاعدہ جنگ سے زیادہ فوجی شہادتیں ہوئیں لیکن امریکہ کی زبان اور رویے میں نہ کوئی تبدیلی آئی نہ شکر گزاری کا کوئی عنصر بلکہ ہمیشہ ناراضگی اور مزید کچھ کرنے کا مطالبہ ہی ہوتا رہا اور دو مئی کو اُس نے پاکستان کی خود مختاری پر جس طرح حملہ کیا اور اس کے بعد جس طرح الزامات کی بوچھاڑ کی وہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ یہ تعلقات کسی برابری کی بنیاد پر استوار نہیں رکھنا چاہتا بلکہ وہ اپنا ہاتھ بہر صورت اوپر ہی رکھنا چاہتا ہے۔ جس طرح وہ اور مغربی میڈیا اُس دن اس بات پر مُصر رہا کہ حکومت ِپاکستان، پاک فوج اور آئی ایس آئی بن لادن کی پاکستان میں موجودگی سے باخبر بھی تھے اور اس کے مدد گار بھی، اور گزشتہ ایک سال میں اس رویے میں کوئی تبدیلی بھی نہیں آئی ہے اور اس کا اصرار اب بھی اسی بات پر ہے کہ اسامہ ایبٹ آباد میں آئی ایس آئی کی مرضی سے بیٹھا ہوا تھا تو کیا امریکہ باقی دنیا سے اس تنظیم کا قلع قمع کر چکا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے، اگر چہ القائدہ کمزور ضرور ہوئی ہے لیکن اب بھی اُس کے ہمدرد، رہنما اور کارندے اپنی کاروائیوں میں کسی نہ کسی صورت میں مصروف ہیں۔ اب امریکہ جس چیز کا الزام پاکستان پر لگا رہا ہے کیا دھرا خود اُس کا ہے اگر امریکہ نے خود اس شخص کو اپنی آنکھ کا تارا بنا کر نہ رکھا ہوتا تو وہ اتنی اہمیت حاصل نہ کر سکتا تھا بلکہ 9/11 سے پہلے تو شاید ہی کوئی اُسامہ بن لادن کو پاکستان میں جانتا تھا یوں امریکہ اپنے کیے جرم کا الزام پاکستان کے سر تھوپ کر بری الذمہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح وہ اب بھی اُسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی پاکستان کے سر ڈال رہا ہے اور اِس بارے میں بھی انتہائی غیر مناسب رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ جبکہ اسی پاکستان اور آئی ایس آئی کی مدد سے اُس نے القائدہ کے کئی رہنمائوں کو گرفتار کیا بلکہ کئی تو پاکستان نے اُس کے حوالے کئے جن میں سے کچھ تو شاید بے گناہ بھی رہے ہوں اور صرف شبے کی زد میں آئے ہوں۔ لیکن امریکہ پھر بھی پاکستان کو مور دالزام ٹھہرانے سے باز نہیں آرہا اور مسلسل پاکستان کی خود مختاری کو سوالیہ نشان بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ دومئی اور اس کے بعد 26 نومبر کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ اس کے ثبوت ہیں۔ اگر وہ اُسامہ کی موجودگی سے کسی بھی طرح آگاہ ہو چکا تھا تو مناسب ترین بلکہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق تو ضروری یہی تھا کہ وہ پاکستان کو اس سے آگاہ کرتا ،آئی ایس آئی کو اعتماد میں لیتا اور حکومتِ پاکستان کی مدد سے اسامہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا لیکن اُس کا یہی جابرانہ رویہ اُس کوکسی بھی قسم کی بین الاقوامی حمایت یا کم از کم اِن ملکوں کی عوامی حمایت سے محروم کرچکا ہے ۔ امریکہ کا یہ کہنا کہ وہ پاکستان کی مدد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ وہ جب تک پاکستان کی خود مختاری کا احترام نہیں کرے گا تب تک پاکستانی اسے اس تعاون کا حقدار نہیں سمجھیں گے جس کا وہ مطالبہ کرتا ہے اور دو مئی اور سلالہ جیسے واقعات کا ہو نا یا مستقبل میں ایسے واقعات کا دہرایا جانا پاکستان کی خود مختاری پر تو حملہ ہوگا ہی امریکہ کے حق میں بھی بہتر نہ ہوگا ۔شاید پاکستانی اس صبر اور ضبط کا مظاہرہ نہ کر سکیں جس کا اب تک کیا گیا ہے ۔ جس جنگ کو وہ شروع کر چکا ہے اورجو اپنی طوالت کے باعث اس کے لیے درد سر بن چکی ہے وہ اس سے جان نہ چھڑا سکے گا۔ اُس نے اپنے لیے جو مخالفین پیدا کئے ہیں جنہیں وہ دہشت گرد کہتا ہے اِس طرح وہ مزید مضبوط ہوتے جائیں گے۔ اُسے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ پاکستانی حکومت، فوج یا آئی ایس آئی کی مدد کے بغیر ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اگر چہ اُس نے اِن لوگوں کو پاکستان پر مسلط تو کردیا ہے اور جس طرح اِن کوپنپنے میں مدد دی اور پاکستان کی مغربی سرحد پر روسی مخالفت میں ان کو لاکر آباد کیا گیا تھا اِس کا مداوا اب بہت مشکل ہوچکا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ لوگ پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ یہ امریکہ کی مدد اور تعاون کے خلاف ہیں لہٰذاہم اگر امریکہ کی مدد بند کردیں تو یہ ہمارے لیے خطرہ نہیں لیکن جب تک امریکہ اپنی حرکتیں بند نہ کردے اور افغانستان سے واپس نہ چلا جائے یہ امریکہ کو معاف نہیں کریں گے۔

امریکہ کو اب یہ سوچ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت سکتا لہٰذا واپسی کا یک باعزت فیصلہ ان کے لیے بہتر ہوگا ۔ اور ساتھ ہی پاکستان سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرکے اسے برابری کی سطح پر لانا ہوگا ۔ نیٹو سپلائی کی بندش اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی مزید اپنی خود مختاری کا سودا کرنے کے لیے تیار نہیں ،اور ساتھ ہی ساتھ اُسے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ بھی بند کرنا ہوگا جس طرح اُس نے اسے خطرناک ترین ملک کا نام دے کر اس کی معیشت، تجارت حتیٰ کہ کھیل تک کے شعبے کوتباہ کرکے رکھ دیا ہے، وہ دوستی کے پردے میں دشمنی کا واضح ثبوت ہیں۔

ذرائع کے مطابق پورا مغربی میڈیا دو مئی کو پاکستان کے خلاف چنگھاڑنے کے لیے تیار بیٹھا ہے اور امریکی میڈیا اُن کی سر کر دگی کا پروگرام بنا چکا ہے یہ سب امریکہ کی اِس خود ساختہ جنگ کے لیے اور زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے ۔ اگر چہ یہ تمام تر پروگرام پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے لیکن بات آجا کر وہیں آتی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی خودمختاری کا احترام نہیں کیا اور ایک دوسرے اور آزاد ملک کی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے ایک کاروائی کی جو یقینا ایک جرم ہے لہٰذا پاکستان کو الزام دینے کی بجائے وہ اپنا جرم قبول کرے اور اِن واقعات پر پاکستان سے معافی مانگتے ہوئے مستقبل میں ایسا نہ ہونے کی ضمانت دے تاکہ یہ دونوں ملک اور دنیا دہشت گردی سے بچ سکیں۔ امریکہ یاد رکھے کہ اُس کی یہ ضمانت اس خطے کے امن کی بھی ضمانت ہوگی۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 513313 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.