زندگی مت گنوائیے!

گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ہاں ایک نہایت افسوسناک معاشرتی دیوالیہ پن بڑھ رہاہے اور وہ ہے زندگی سے مایوس افراد کاخود کشی کرنا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جس میں اپنے ہاتھوں جان ہارنے والوں کی کوئی خبر نظروں سے نہ گزرتی ہو۔ اس وقت خود کشی کا بڑھتا ہوارجحان اس دور کے سماجی مسائل میں سر فہرست آچکاہے، آج پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں لوگ خودکشی کررہے ہیں، اور جان جیسی بیش قیمتی چیز خود اپنے ہاتھوں ضائع کررہے ہیں، اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہ مسئلہ یہاں کچھ زیادہ ہی سنگین شکل اختیار کرتاجارہا ہے اور ابھی تک ارباب حل وعقداس کی سنگینی کی طرف متوجہ نہیں ہوسکے ،جبکہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ یہ مسئلہ پوری شدت کے ساتھ ابھرتا اور سنگین ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان میں خود کشی کے اسباب و عوامل اور محرکات دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کچھ کم ہیں یازیادہ ؟ اس بحث سے قطع نظر مگر اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ اسبا ب وعوامل زیادہ تر مصنوعی اور حکومتی نااہلیوں سے پیداشدہ ہیں، ان میں سے بعض اسباب تو ایسے ہیں جو صرف اسی ملک میں پائے جاتے ہیں، جب تک خود کشی کے صحیح اسبا ب کا پتہ لگا کراس کا تدارک نہیں کیا جائے گا اور مرض کو جڑسے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت تک خود کشی کے واقعات پر قابو پانا بے حد مشکل ہے، ہمارے ہاں ابھی تک منصفانہ اورغیرسودی اقتصادی نظام پوری طرح متعارف نہیں ہوسکا ہے، آج بھی نہ صرف غریب لوگ اپنی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے سودی نظام استبداد میں جکڑے نظر آتے ہیں بلکہ متوسط اورامیرطبقہ ان سے بڑھ کراس دلدل میں غرق ہورہا ہے، اوریہ سودی وغیرمنصفانہ نظام اس ملک کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے، ایک متوسط اورغریب شخص آج بھی اپنی موروثی زمین پر سر چھپانے کے لئے گھر بنوانے کی خاطر اونچی شرح سود پر قرض لینے کے لئے مجبور ہے،اور پھر یہ سود ان کی گردن پر ہمیشہ کیلیے سوار ہوجاتا ہے۔

خود کشی کے من جملہ اسباب میں سے ایک بڑا سبب گھریلو مسائل اور جھگڑے ہیں اور یہ جھگڑے اب اس قدر بڑھ چکے جو انفرادی حیثیت سے نکل کر ہمارے معاشرے کی پیشانی پر بدنما داغ بن چکے ہیں، اخبارات کے صفحے کے صفحے اذیت رسانی کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں ، شرح خواندگی میں اضافے کے باوجود ابھی تک ہمارا سماج جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ تعلیم کارجحان اگرچہ بڑھ رہا ہے مگر اس میں اپنی خواہشات کی تسکین ہی پیش نظر ہے اور جذبہ احترام انسانیت معدوم ہوتا جارہا ہے اور اس مقابلے کی دوڑ میں ضروریات زندگی کا معیار بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے ، خاندان کو ابھرنے کے لئے پیسے کی ضرورت ہے، جو کسی اچھی ملازمت یا وسیع تجارت کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتا ہے، زندگی کی دوڑ میں برپا اس مسابقت نے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا ہے، والدین ان سے تعلیمی میدان میں اعلٰی کار کردگی کی توقع کرتے ہیں، بسا اوقات بچے ان کی توقعات پر پورا نہیں اتر پاتے ان میں سے کچھ بچے حالات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور کچھ کم حوصلہ بچے ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں ، خود کشی کا یہ رجحان تازہ ہے اور تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ان کے علاوہ بھی کچھ ایسے اسباب ہیں جو آدمی کو خود کشی کی طرف لے جاتے ہیں ،شہری زندگی میں اگرچہ معاشی اسباب و وسائل کی کثرت ہوچکی ہے مگر ایک بڑی آبادی معاشی ترقی کے فوائد وثمرات سے محروم ہے ۔جو لوگ ابھی تک غریب ہیں، یا متوسط طبقے میں شمار کئے جاتے ہیں وہ ترقی کی چکاچوند میں اپنا مستقبل تلاش کرتے ہیں اور جب انہیں مایوسی ہاتھ لگتی ہے تو بہت سے کم ہمت لوگ حالات سے نبرد آزما ہونے کے بجائے موت کی آغوش میں چلے جانے کو ترجیح دیتے ہیں، انسان کی گھریلو الجھنیں بڑھ رہی ہیں ، اس میں امیر و غریب کی بھی تخصیص نہیں ہے، امیر کی پریشانیاں دوسری نوعیت کی ہیں، غریب کی مشکلات کسی اور طرح کی ہیں خود کشی کے جو واقعات پیش آتے ہیں ان میں دس فیصد کے پیچھے گھریلو مسائل ہوتے ہیں۔ اب تو خودسوزی کاایک نیا رجحان یہ پیدا ہوا ہے کہ بعض لوگ سرکاری حکام کی بددیانتیوں کے خلاف بہ طور احتجاج اپنے آپ کو آگ کے حوالے کررہے ہیں بہ حیثیت مجموعی ہمارے ملک میں خود کشی کے واقعات تشویشناک حد تک بڑھتے جارہے ہیں ، خود کشی کرنے والے ان افراد میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں اور بچے بھی ،غربت میں گھرے نادار افراد بھی ہیں اور دولت کی ریل پیل میں کھیلتے مایوس امیر بھی اور یہ تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے ، اور آنے والے سالوں میں اس رجحان کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ان حالات میں ضروری ہے کہ خودکشی کے پیچھے موجودحقیقی سبب کا پتہ لگایا جائے اور اس کے تدارک کی کوشش کی جائے ۔

درحقیقت جولوگ ہم پر استحصالی نظام مسلط کیے ہوئے ہیں انہیں تو اپنے مفادات ہر چیز حتی کہ دوسرے انسان کی قیمتی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں اور انہیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے کہ اس سے متاثر ہوکر کتنی جانیں ضائع ہوں گی اوراسی طرح جو مایوس فرد اس عمل کاارتکاب کرتا ہے وہ انسانی جان کی قدر وقیمت سے صحیح طور پر واقف نہیں ہے، انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی امانت ہے، ہمیں اسے ختم کرنے کا کوئی حق نہیں، اورپھر یہ احساس ختم ہوتا جارہا ہے کہ مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے جو دائمی اور ابدی ہے، جہاں انسان کو اس کے کئے کا پھل ملے گا، یہ بات بھی ذہنوں سے اوجھل ہوچکی ہے کہ مایوسی انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے ، صحیح معنی میں انسان وہی ہے جو بلند حوصلہ رکھتا ہو، مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اور کسی بھی حالت میں مایوس نہ ہوتا ہو، حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتا ہو،خاص کرہمارامذہب اسلام تو ایک ایسا مذہب ہے جو انسان کو عزم وہمت اور صبر وبرداشت کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے،اب اگر اسی مذہب کو ماننے والے ہی صبر کادامن ہاتھ سے چھوڑ دیں گے تو اور کون ان ہمت افزائ تعلیمات سے روشنی لے گا؟

ہم میں سے کسی کی جان یا مال اپنا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے شرف وفضیلت عطا فرمائی ، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ’’اور ہم نے عزت دی ہے آدم کی اولاد کو اور سواری دی ان کو جنگل اور دریا میں اور روزی دی ان کو پاکیزہ چیزوں سے ، اورانہیں بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی‘‘﴿بنی اسرائیل:۷۰﴾۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اکثر مخلوقات پر انسان کی فضلیت کا ذکر فرمایا ہے یہ فضیلت ان خصوصیات کی وجہ سے ہے جو صرف انسان میں پائی جاتی ہیں اس کے علاوہ دوسری مخلوقات میں نہیں پائی جاتیں، مثلاً یہ کہ اسے حسن صورت ، اعتدال جسم، اعتدال قدو قامت اور اعتدال مزاج کے علاوہ سب سے بڑھ کرعقل وشعور، سمجھ بوجھ ، صبر واستقامت اور عزم وہمت عطا کیا گیا، جس کے ذریعے وہ کائنات میں پھیلی ہوئی دوسری مخلوقات سے اپنے کام نکالتا ہے، بعض مخلوقات کو وہ اپنی سواری کے لئے استعمال کرتا ہے، بعض مخلوقات کے ذریعہ وہ اپنی غذا اور لباس تیار کرتا ہے، اسے عقل وشعور کے ساتھ قوتِ گویائی بھی عطا کی تاکہ اپنا مافی الضمیردوسروں تک پہنچا سکے، اور دوسروں کے خیالات آسانی کے ساتھ سمجھ سکے،یہ امتیازات وخصوصیات ہیں جن میں انسان کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہے، کیا یہ دانش مندی ہوگی کہ اس قدر بیش قیمت عطیہ الٰہی و جو دکواپنے ہاتھوں ختم کرلیا جائے ، اور اسے موت کے حوالے کردیا جائے ، یہ صحیح ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے، اور ایک دن ہر زندہ وجود کو موت کی آغوش میں جانا ہے، لیکن اس کاکامل اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ، اسی نے پیدا کیا ہے اور وہی موت دے گا ، انسان کو صرف جینے کا اختیار دیا گیا ہے اور موت کا اختیار نہیں دیا گیا ،ہاں اگر اس کاجینا اللہ تعالٰی کی فرماں برداری کے مطابق ہوگا تو وہ جینا بھی قیمتی بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خود کشی کو حرام قرار دیا ہے ۔

قرآن کریم کی مندرجہ ذیل دوآیتوں سے خود کشی کی حرمت پر روشنی پڑتی ہے ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا:’’اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہیں ، اور جو شخص ظلم وجور سے ایسا کرے گا تو ہم اسے ضرور آگ میں ڈالیں گے‘‘﴿النسائ :۲۹۔۳۰﴾۔

اس آیت کے مفہوم میں باتفاق مفسرین خودکشی بھی داخل ہے، اور اس کی یہ سزا بھی متعین فرمادی ہے کہ ہم اسے آخرت میں دوزخ کے عذاب کی دورد ناک سزادیں گے۔ ایک دوسری آیت میں فرمایا گیا :ولاتلقوا ابایدیکم الی التہلکۃ ﴿البقرۃ:۱۹۵﴾’’اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں مت ڈالو‘‘۔ اس آیت کابنیادی مفہوم اگرچہ یہ ہے کہ مسلمان جہاد میں مال خرچ کرنا نہ چھوڑیں کیوں کہ اگرانہوں نے ایسا کیا تو دشمن قوی ہوجائے گا اور مسلمان کمزورپڑجانے کی وجہ سے دشمن ان پر غالب آجائے گا لیکن مفسرین نے اسے کے عمومی مفہوم کو بھی اس میں شامل کیا ہے، یعنی وہ تمام اختیاری صورتیں ناجائز ہیں جو تباہی ، بربادی اور ہلاکت کی طرف پہنچانے والی ہوں مثلاً: فضول خرچی جومالی تباہی کی طرف لیجاتی ہے یا دریا میں ڈوب کر، خود کو آگ لگاکر ، زہر کھاکر ، پھنداگلے میں لٹکاکر یا کسی بھی دوسرے طریقے سے خود کو ہلاک کرنا وغیرہ ،یہ سب اس ہلاکت وتباہی کے زمرے میں شامل ہے جسے قرآن کریم نے حرام اورممنوع قراردیا ہے۔
خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کا یہ تو ایک رخ ہے لیکن اس کادوسرا رخ زیادہ تاریک اور قابل افسوس ہے ۔اور ہمارے ملک میں رائج غلط نظام، غیرمنصفانہ تقسیم دولت، ناہموار معیشت، حد سے بڑھی مہنگائی، ضروریات زندگی کافقدان، علاج معالجے کی سہولیات سے محرومی، بے روزگاری، نوکرشاہی، بدامنی، سرکاری اداروں میں رشوت ستانی اور اقربائ پروری، غریبوں کے حقوق پرڈاکے،جھوٹ، فریب دہی ، خاندانی جھگڑے، غیر ضروری اورغیرشرعی رسوم ورواج کی بندشیں، حکمرانوں کی عیاشیاں اور ان کی عیاشیوں کا عوام پر پڑنے والادباؤ، انصاف کا حصول ناممکن، یہ سب وہ عوامل ہیں جو خود کشیوں کاباعث بن رہے ہیں اور آئے دن کے اخبارات میں شاید ہی کوئی دن خالی گزرتا ہو جس میں اس قسم کاکوئی تازہ واقعہ لرزانے کے لیے موجود نہ ہو۔ آخر ایک اسلامی معاشرے میں اس قسم کی ناہمواری کیسے پیدا ہوئی کہ جوقوم دوسروں کوزندگی کاسبق سکھانے والی اور انہیں خوبصورت پرسکون نظام حیات سے روشنا س کرانے والی تھی وہ خود آج زندگی کے لئے ترس رہی ہے ، آج اسی مسلمان قوم میں زندگی گراں اور موت ارزاں ہوچکی ہے؟ کاش ہم سب مل کر اس پر غور کرتے ، ہمارے انتظامی ڈھانچے اور راہنمایان قوم اس بھنور سے نکالنے کی تدابیر سوچتے تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی !

اب بھی اگر اس اندھیر نگری سے نکلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اللہ تعالٰی کی نافرمانی سے بچنے کا عہد کریں اور اللہ تعالٰی پر کامل توکل کریں، جو کچھ انعامات ہمارے پاس موجود ہیں تنہائی میں ان پر غور کریں اور ان کی قدر وقیمت کو محسوس کریں، ہر لمحہ شکوہ وشکایت، ہر لمحہ اپنی محرومی کارونا، صبح وشام صرف دوسروں کی دنیا پر نظر، دوسروں کے کھانے،پینے، رہن سہن اور رہائش وآراش پر نظر رکھنا اور پھر ان سے آگے بڑھنے کی حسرت کو دل میں بٹھالینا یہ سب وہ غلط احساسات ہیں جو مجموعی طور پر ہماری قوم میں رچ بس چکے ہیں اور انہیں ان کی خطرناکی کا احساس ہی ختم ہوتا جارہاہے اور غیر محسوس طریقے سے ہماری قوم اُن معاشرتی ناہمواریوں کاشکار ہورہی ہے جو مایوسی کی اس دلدل میں دھکیلتے ہیں جہاں انہیں موت کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا اور یوں انسان اپنے آپ کو صرف موت کے حوالے نہیں کرتا بلکہ اس دردناک عذاب کے حوالے کرتا ہے جہاں ہر لمحہ اس کی اذیت میں اضافہ ہوتا ہے۔اسی لیے قرآن کریم نے بتایا ہے کہ تم اپنے آپ کو ہلاک نہ کرواللہ تعالٰی بڑے فضل والے ہیں یعنی تم صبر سے کام لو، اس کی نعمتوں کی قدر دانی کااحساس پیداکرو اور اس کے در پر اپنا دست سوال دراز کیے رہو وہ تمہیں اپنے فضل سے ہرگز محروم نہ کرے گا۔ اب اگر ہم خود ہی اس کے در کو چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھائیں اور ہمیشہ اس کے احسانات کی ناقدری کے مرض میں مبتلارہیں تو پھر ہمیں کسی دوسرے سے شکوے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟

اہل دانش فرماتے ہیں کہ مصائب و شدائد کے مقابلے کے لئے صبر کرنے میں تین چیزیں معاون ثابت ہوسکتی ہے ، ایک یہ کہ آدمی کو آخرت کی بہتر جزائ کا یقین ہو، یہ یقین جتنا بڑھے گا اسی قدر مصیبتوں کو برداشت کرنا آسان ہوجائے گا، دوسرے یہ کہ اس کے اندر اتنا حوصلہ ہونا چاہئے کہ وہ مصائب کے خاتمے اور راحت وکشاد گی حاصل ہونے کا انتظار کرسکتا ہو، انتظار جس قدر زیادہ ہوگا اسی قدر صبر کرنے میں لذت حاصل ہوگی ، تیسرے یہ کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا استحضار ہو، اور وہ سوچے کہ اگر کچھ مصائب اس کی تقدیر میں ہیں تو کیا ہوا بے شمارنعمتیں بھی میسر ہیںاور اگر غور کیاجائے تو ہمیشہ نعمتیں ہی زیادہ ہوتی ہیں، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مصیبتیں ہی مصیبتیں ہوتیں راحتوں کا نام ونشان بھی نہ ہوتا، اب ان نعمتوں کو دیکھ کر اگر آدمی صبر کرے اور یہ تدبیریں اختیار کرے تو امید ہی نہیں یقین ہے کہ وہ خودکشی کا راستہ اپنانے کے بجائے زندگی کے حسن و جمال سے لطف اندوز ہونا زیادہ پسند کرے گااور معاشرے کے ان کارآمد افراد کی صف میں شامل ہوجائے گا جو صرف خود نہیں جیتے بلکہ دوسروں میںبھی جینے کاحوصلہ پیدا کرتے ہیں۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372817 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.