کرکٹ کے دیوانوں کیلئے یہ موضوع
کسی عید کے تہوار سے کم نہیں ہے اور خاص کر پاکستان میں اس قسم کی کرکٹ کا
انعقاد۔ پچھلے چند دنوں سے کرکٹ کے اربابِ اقتدارمیں یہ خبر گردش کر رہی ہے
کہ پاکستان بھی اکتوبر 2012 ءمیں (P.P.L)کا انعقاد کرنے والا ہے، چونکہ میں
بھی کرکٹ کا بہت بڑا شیدائی ہوں اور خاص کر جب پاکستان کا میچ کسی بھی ملک
سے ہو رہا ہو تو دیوانہ وار میچ کی لائیو دید کیلئے گھر کی طرف دوڑ پڑتا
ہوں۔ اور قرطاسِ قلم کروں ایشیا کپ کے فائنل کا تو جنابِ من! تو ایسا لگتا
ہے کہ آج بھی سانسیں رُک رہی ہیں۔ تو اُس دن میچ میں مجھ سمیٹ کرکٹ کے
متوالوں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ اوپر کے ایک ہی لائین سے لگایا جا
سکتا ہے۔آخری بال پر فیصلہ اور وہ بھی پاکستان کی جیت کی صورت میں دیدنی
تھا۔
آج کل دنیا میں ہر جگہ ہی تقریباً سیکوریٹی کا مسئلہ درپیش ہے مگر نہ جانے
یہ دنیائے کرکٹ کو صرف پاکستان ہی کیوں نظر آتا ہے کہ یہاں سیکوریٹی کا
مسئلہ بنا کر یہاں کے کرکٹ کے شیدایوں کو اس کھیل سے محروم رکھا ہوا
ہے۔ابھی پی۔سی۔بی کے چئیر مین جناب ذکاءاشرف صاحب کی کوششوں سے یہ امید ہو
چلی تھی کہ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ اپریل میں کرنے والی ہے
مگر ہم پر یہ گمان ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ نہیں آنے والے۔۔۔۔۔اور ایسا ہوا
بھی انہوں نے ایک ون ڈے اور ایک T20کیلئے آنے کا اعلان کیا ، مگر کرکٹ کی
تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے مداخلت کرکے اپنی ٹیم کو
پاکستان آنے سے روک دیا، اس معاملے پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو ایکشن لینا
چاہیئے مگر وہ بھی کہاں لیں گے کیونکہ وہ بھی تو سیکوریٹی کا ہی رونا روتے
رہتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک نے کرکٹ سے متعلق ہر مسئلے پر حتیٰ کہ بنگلہ دیش
کو I.I.Cمیں بھی ایک عہدہ دینے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی جبکہ اس مرتبہ اس
عہدے کیلئے پاکستان سُپر فٹ تھا۔ویسے تو حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہی لوگوں نے
اس طرح کے حالات Createکئے ہیں کہ حالات کی ذمہ داری ہم پر ہی ڈال دی جاتی
ہے۔ اس موقع پر مجھے سہیل غازی پوری کا یہ شعر بہت یاد آ رہا ہے کہ:
اس طرح الجھ کر میں رہ گیا ہوں اپنے میں
آپ ہی سمٹتا ہوں آپ ہی بکھرتا ہوں
اب دیکھئے کہ حالات کہاں خراب ہے : کیا ہمارے کوچ ڈیوڈ واٹمورآسٹریلین نہیں
ہیں ، کیا جولین فاﺅنٹین غیر ملکی نہیں ہیں، کیا یہ دونوں ہمارے ملک میں
نہیں رہ رہے ہیں، کیا دنیائے کھیل کے مختلف ایونٹس ہمارے یہاں منعقد نہیں
ہو رہے ہیں، کیا غیر ملکی سفارت کاریہاں نہیں رہ رہے ہیں، کیا اداکارہ شبنم
اور ان کے شوہر کل پاکستان تشریف نہیں لائے (وہ بھی تو اپنے دور کے کامیاب
ترین لوگ ہیں اور انہیں بھی سیکوریٹی کا مسئلہ درپیش ہو سکتا تھا) مگر کیا
ہم نے ان لوگوں کو سیکوریٹی نہیں دی ، بالکل دی اور یہ تمام افراد ہمارے
پاک وطن میں بلا خوف و خطر رہ رہے ہیں اور اپنی تمام مصروفیتوں کو پایہ
تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔ تو بتائیے حالات کہاں خراب ہیں۔ ڈیوڈ واٹمور اور
جولین فاﺅنٹین صاحب توحال ہی میں راولپنڈی میں ہونے والے T20ٹورنامنٹ کے ہر
میچ میں گراﺅنڈ میں ہی نظر آئے۔ بھائی سب ٹھیک ہے حالات وغیرہ۔۔۔۔۔۔ آپ آنے
کی بات کرو باقی معاملہ پاکستانیوں کا ہے۔ ہم بھی بلکہ 18کروڑ عوام بھی تو
رہ رہی ہے اسی ملک میں صرف انہیں لوگوں کیلئے سیکوریٹی کا مسئلہ ہے۔
صرف کرکٹ ہی کیوں ؟ کیا ہمارے یہاں بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے۔ اور
بیرونی دنیا کے لوگ اپنے کاروبار، اپنا سرمایہ لیکر ہمارے ملک میں قیام
پذیر نہیں ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر کیا ہمارے کھلاڑی اپنے اپنے شہروں میں
قیام پذیر نہیں ہیں۔ ہیں نا! تو پھر کیسا سیکوریٹی ریزن چاہیے ان کرکٹ کے
لوگوں کو، ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پیارے وطن کو جان بوجھ کر کرکٹ سے دور
رکھنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اور دنیائے کرکٹ میں ہمارا میج خراب کرنے کی
کوشش کی جا رہی ہے، اور اس کام میں (ایسے لوگ جو ملوث ہیں) اپنے مقصد میں
کافی حد تک کامیاب جا رہے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بنگلہ دیش کا دورہ ملتوی کرنا ان تمام
ممالک کو جو کرکٹ سے جُڑے ہوئے ہیں ان میں سیکورٹی کے حوالے سے شکوک و
شبہات کو جنم دینے کی کوشش ہے۔ ویسے تو بنگلہ دیش کی کرکٹ بورڈ پہلے بھی
اپنے کئی مواقع پر اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھ سکی ہے اور ایک بار پھر اپنی
اسی روش کو بروئے کار لاتے ہوئے عدالتی فیصلے کو جواز بنا کراپنے کیئے ہوئے
وعدے سے انحراف کر رہی ہے۔
یہ ایک طویل موضوع ہے ، کالم نگار اگر ایسے موضوع کو چُن کر لکھنے بیٹھے تو
کاغذشاید ختم ہو جائے، ہو سکتا ہے کہ قلم کی روشنائی ختم ہوجائے، مگر لکھنے
والے کی روداد ختم نہ ہو سکے۔ اور ایڈیٹوریل صفحے کی تنگی بھی مضمون کو
مختصر کرنے پر بضد ہے ۔ اس لئے یہیں پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی حکومت اور
کرکٹ کے چیئرمین جناب ذکاءاشرف صاحب سے اتنی درخواست کروں گا کہ جلد از جلد
پاکستان پرئیمر لیگ کا انعقاد کروایا جائے تاکہ ہم پر یہ سیکوریٹی کا لگایا
گیا دھبا دُھل سکے اور بین الاقوامی کرکٹرز ہمارے اپنےPPLمیں شرکت کرنے
کیلئے آ سکیں۔ اور مجھے امید قوی ہے کہ بین الاقوامی کرکٹرز صاحبان
PPLمیںضرور شرکت کریں گے۔ اور یوں ہمارے یہاں کرکٹ کا کھیل اپنے عروج کو
دوام بخشے گا۔ |