شاید اسلامیہ یونیورسٹی بہاول
پور کی انتظامیہ کی کوشش تھی کہ منفرد اسلوب کے کالم نگار، دانشور ،
شاعرجناب عطاالحق قاسمی کی یونیورسٹی میں دوروزہ سرگرمی کی کسی کے کانوں
میں بھنک نہ پڑ جائے، ”آؤٹ سائیڈروں“ کی موجودگی سے نظم ونسق میں خلل کا
اندیشہ رہتا ہے، بہتر ہے وہ کام ہی نہ کیا جائے جس پر’آبیل مجھے مار‘ کی
کہاوت صادق آجائے۔ ایسے ’بیلوں‘ سے احتیاط لازم ہے۔ کہتے ہیں کہ عشق اور
مشک چھپائے نہیں چھپتا، لہٰذا اس پروگرام کی خوشبو مجھ تک بھی پہنچ گئی ،
میڈیا سٹڈیز کے ڈاکٹر محمد شہزاد کی ہمسائگی میں رہنے کا ایک فائدہ یہ بھی
ہوا کہ اس دوروزہ سرگرمی کی تصدیق ہو گئی، یونیورسٹی جاتے ہوئے یہ راز بھی
کھلا کہ قاسمی صاحب کی شخصیت اور کالم نگاری پر واحد مضمون ڈاکٹر شہزاد نے
ہی پڑھنا تھا۔ تاہم یونیورسٹی انتظامیہ اپنی مہم میں کامیاب ٹھہری ، قاسمی
صاحب کے ساتھ پہلی نشست جو کہ ان کی کالم نگاری کے بارے میں تھی ، آؤٹ
سائیڈر نہ ہونے کے برابر تھے۔
اگرچہ یونیورسٹی کو سامعین و حاضری کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، کیونکہ
طلبا وطالبات کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے، لیکن سٹوڈنٹس کی” علمی وسعت “کو
دیکھ کر مجھے مئی کے اوائل میں ”یونیورسٹیاں“ کے عنوان سے لکھا ہوا
اپناکالم یاد آگیا، جس میں اس پریشانی کا اظہار کیا گیا تھا کہ دنیا کی چار
سو بہترین جامعات میں پاکستان کی کوئی جامعہ شامل نہیں۔ اس کی وجہ مجھے
یونیورسٹی میں اچھی طرح سمجھ آ گئی ،جہاں اساتذہ اور طلباوطالبات کے ایک
دوسرے کے ساتھ رویے حیران کن تھے ، وہاں سٹوڈنٹس کی معلومات بھی دلچسپی سے
خالی نہیں ، ان کے مشاغل اور ترجیحات بھی سامنے تھیں، ان کی مصروفیات بھی
ظاہر تھیں۔
طاالحق قاسمی نے اپنے منتخب اور پسندیدہ کالم پڑھ کر سنائے، جو قہقہہ بار
بھی تھے اور اشک بار بھی،ان کے پہلے ہی کالم ”دھوتی“ نے تو سماں باندھ
دیا،اور الہ دین کے جن کی روداد نے سب کو افسردہ کردیا۔ کالم پڑھے جاتے رہے
، قہقہے لگتے اور تالیاں پیٹی جاتی رہیں۔ کالم لکھنا تو جو کچھ ہنر ہے،
لکھے ہوئے کو اس انداز میں پڑھنا کہ جملوں کے درمیان میں روپوش معانی بھی
کھلتے جائیں، یہ کسی کسی کا کام ہے۔ سب لوگ ہمہ تن گوش کالموں کو لفظ لفط
سن رہے تھے، محظوظ ہورہے تھے، ہمارے پیچھے والی قطار میں مسلسل ہچکیوں کی
آواز آرہی تھی ،جس میں وقفہ بھی نہیں تھا، میں کالم خوانی کا کوئی حرف
چکانا نہیں چاہتا تھا ، مگر ان صاحب کی درد میں ڈوبی ہچکیاں میری توجہ بانٹ
دیتی تھیں، آخر کسی چھوٹے سے وقفے میں میں نے بہانہ بنا کر کن اکھیوں سے
پیچھے دیکھا تو وہ ایک نوجوان تھا، جودنیا سے بے گانہ کالم سننے میں مگن
تھا، وہ اس کی درد ناک ہچکیاں نہیں تھیں بلکہ ہنسنے کا اپنا مخصوص اور
منفرد انداز تھا۔
اس حقیقت کو تسلیم کرلینے میں ہم میں سے کسی کو عار محسوس نہیں ہونی چاہیئے
کہ موجودہ دورمیں سائنس نے تو ترقی کی بےشمار منازل حاصل کرلی ہیں، مگرا
قدار اس قدر زوال پذیر ہوگئی ہیں، کہ انسان کی سوچ ماؤف ہوجاتی ہے ، بلکہ
یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ انسانی سوچ کے ’کتے فیل ہوجاتے ہیں‘۔ اساتذہ کے
احترام اور عقیدت کامعاملہ بھی اگرچہ بحث طلب ہے، بلکہ حل طلب بھی ہے، مگر
سٹوڈنٹس کی معلومات (جنرل نالج) کی بہتری کے لئے یونیورسٹیوں کی انتظامیہ
مل کر کوئی لائحہ عمل تیار کریں، ہائرایجوکیشن کمیشن کوئی منصبوبہ بندی کرے
کہ یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹس لیپ ٹاپ، نیٹ، تعلیمی نوٹسزاور موبائل کی’
مصروفیات‘ سے باہر بھی نکلیں ، انہیں کتاب کی اہمیت بھی بتائی جائے، کتاب
پڑھنے پر راغب بھی کیا جائے۔
یونیورسٹیوں میں عموماًً سائنس کے پروفیسر وائس چانسلر کے فرائض انجام دے
رہے ہیں، چند ماہ بیشتر بہاول پور میں پاکستان کی آٹھ جامعات کے سربراہوں
کا اجلاس ہوا تھا جس میں سوشل سائنسز کی ترقی اور ترویج کے لئے آپس میں
معاہدہ ہوا ، اس معاہدے کی روشنی میں ہی ان یونیورسٹیوں میں سال میں کم از
کم تین مرتبہ کسی علمی ادبی شخصیت کو لازمی دعوت دی جائے تاکہ طلباوطالبات
ان کی باتیں سنیں، سوال کریں، ان کے اذہان بھی کتاب اور ادب کی طرف راغب
ہوں۔اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی سائنسدان ہیں، مگر نہایت سوشل
اور مثبت سوچ رکھنے والے۔ ایسی تقریبات سٹوڈنٹس کی تعلیم اور تربیت کے لئے
آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہیں، اور آکسیجن زندگی کے لئے ضروری ہے۔ |