بقلم: ڈاکٹرظہوارحمد دانش
اللہ عزوجل نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اسے دیگر اپنی مخلوق پر
فضیلت عطا فرمائی ہے ۔چرند پرند حیوانات ،نباتات ،جمادات ہر ایک پر انسان
کی گرفت بڑی مضبو ط اور اس پر غالب دکھائی دیتا ہے ۔دراصل یہ ربّ تعالیٰ کی
تخلیق کا شاہکار ہے ۔اسے عقل و دانش کا تحفہ عطا فرمایا اور اپنی معرفت اور
اپنی بنائی ہوئی دنیا کے مخفی پہلوں پر اسے سوچ و فکر دی ۔انسان کی ہر
تحقیق سے ربّ تعالیٰ کی کاریگری ٹپکتی ہے کہ مخلوق کا یہ عالم وہ خالق کیسا
ہے سبحان اللہ ۔دل کی کھڑکیوں پر سے غفلت کے پردے ہٹا کر رشد و ہدایت کرنوں
کو داخل ہونے کے لیے کشادگی دیجیے۔
ربّ کا چیلنچ ہے رہتی دنیا تک کے لیے ۔سنو !
اللہ عزوجل کا ارشادہے:قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ
رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ
جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا ()
ترجمہ کنزالایمان: تم فرمادو اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لئے سیاہی ہو
تو ضرور سمندر ختم ہوجائے گا اور میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں گی اگرچہ ہم
ویسا ہی اور اس کی مدد کو لے آئیں ۔
تفسیر:یعنی اگر اللہ تعالٰی کے علم و حکمت کے کلمات لکھے جائیں اور ان کے
لئے تمام سمندروں کا پانی سیاہی بنا دیا جائے اور تمام خَلق لکھے تو وہ
کلمات ختم نہ ہوں اور یہ تمام پانی ختم ہو جائے اور اتنا ہی اور بھی ختم ہو
جائے ۔ مدعا یہ ہے کہ اس کے علم و حکمت کی نہایت نہیں ۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ۔یہود نے کہا کہ ہمیں
توریت کا علم دیا گیا اور اس میں ہر شے کا علم ہے ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ
نازِل ہوئی ، مدعا یہ ہے کہ کل شے کا علم بھی علمِ الٰہی کے حضور قلیل ہے
اتنی بھی نسبت نہیں رکھتا جتنی ایک قطرے کو سمندر سے ہو ۔
اے بندگان خدا ذرا تصور کرو کہ تمام دنیا کے درختوں کے قلموں کی تعداد کس
قدر ہوگی اور یہ سمندرجنکی وسعتوں پر عقل انسانی حیران و خیرہ ہے جو رہتی
دنیا تک کے انسانوں کی ضروریات کو کفایت کرتے رہیں گئے۔اس مؤقف کو ہم امثلہ
سے سمجھتے ہیں ۔ایک تحریر و تصنیف کا ادارہ ایک پرنٹر سے پرنٹ کی کمانڈ
دیتا ہے تو میں چونکہ خود بھی ایک تحریرو تصنیف کے شعبہ سے وابسطہ ہوں
عموماً زیادہ سے زیادہ 300پرنٹ کے بعد پرنٹر عاجز آجاتا ہے ۔یہ دنیا بھر کی
معلومات کو جب ترتیب دیاجانے لگا تو اس کے لیے اتنے صفحات ،اندراج ،ان
صفحات کو رکھنے کے لیے کہیں یہ زمین تنگ نہ پڑ جائے ،یہ اک معمہ سا لگتا ہے
کہ انسان جمیع علم کو اپنی دسترس میں لے آئے بلکہ یہ تابع ہے ربّ تعالیٰ کی
مشئیت کے ۔ جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں ۔منٹوں اور سیکنڈوں کے حساب سے
تحقیق کے دروازے کھلتے چلے جارہے ہیں۔گویا علمی و فکری سیلاب امڈ آیا ہے
۔کمپیوٹر جیسی جدید تخلیق نے تو عقل و دانش کے بند دریچے کھول دیے۔ میرے
ایک دوست بتارہے تھے کہ غالبا گزشتہ سال یا پھر اس سے پچھلے سال ایک
سیمینار ہوا جس کا عنوان تھا '' Information overload
''انفارمیشن آن اور لوڈ''اس سیمنار میں مختلف علمی شعبوں کے ماہرین نے
مقالے پڑھے۔ اس سیمینار میں یوں تو تمام ہی پہلو علمی و فکری تھے لیکن ایک
معلومات نے تو انگشت بدنداں کردیا وہ یہ کہ دنیا میں اب تک جتنے سائنسدان
کسی بھی زمانے میں پیدا ہوئے ان کی مجموعی تعداد سے زیادہ سائنسدان آج زندہ
ہیں اور وہ سائنس کی معلومات میں دو ہزار صفحات فی منٹ کے حساب سے اضافہ کر
رہے ۔ آج قریباً تیس کروڑ صفحات کے برابر تحریری مواد ہر روز انٹر نیٹ پر
جاری ہو رہا ہے۔ آج قریباً تیس کروڑ صفحات کے برابر تحریری مواد ہر روز
انٹر نیٹ پر جاری ہو رہا ہے۔جس سے دنیا ئے ابلاغ سے استفادہ کرنے والے
مستفید ہورہے ہیں ۔
ان تحقیقات کے نتیجے میں انسان کی معلومات کے ذخیرے میں بے پنا اضافہ ہوا
ہے۔ تاریخ کے قدیم جھروکوں سے ناجانے وہ وہ نوادرات انسان نے تلاش کرلیے کہ
بندے کی سوچ کی دنگ رہ جاتی ہے۔ موجود ہزار ہا قسم کے درخت، جڑی بوٹیاں،
زمینی و سمندری نباتات کو نا صرف تلاش کیا جا رہا ہے بلکہ ان سے فوائد حاصل
کیے جارہے ہیں ،ہومیو پیتھک علاج میں اس ضمن میں نت نئی تحقیق سامنے آرہی
ہے ۔علم الابدان (طب )روز افزوں جدید سے جدید طریقہئ علاج وضع کرتی چلی
جارہی ہے۔ جیسے ڈی این اے میں انسانی جسم کا مکمل بلیو پرنٹ ملتا ہے ۔ جس
میں لکھے گئے مخصوص کوڈ کو کامل طور پر پڑھنے اور اس سے بصارت حاصل کرنے کے
لیے ابھی مزید تحقیق کی حاجت باقی ہے۔پھر جاکر کہیں ٹھیک سے انسانی افعال
کو مانیٹر کرنے کا کچھ دعوٰی کیاجاسکے ۔ تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ کائنات
کا سب سے چھوٹا حصہ ایٹم نہیں ہے۔بلکہ ایٹم بذات خود الیکٹران، پروٹان،
نیوٹران اور اسی طرح کے سو سے زیادہ ذرات پر مشتمل ہے۔ سائنسی کھوج کا سفر
ختم نہیں ہوا بلکہ سوچ و فکر ،تجربات و مشاہدات کی گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی
منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ نئی تحقیق نے پرانی تھیوری کو تین طلاقیں دیں
اور نیا پیغام آگیا بھائی الیکٹران، نیوٹران اور پروٹان بھی مادے کے سب سے
چھوٹے ذرات نہیں ہیں۔ ان سے چھوٹے جز بھی موجود ہیں۔خیر ہم اس کی تفصیل میں
نہیں جاتے۔
نتیجتاً نئی تحقیق سامنے آئی جس سے یہ معلوم ہوا کہ الیکٹران، نیوٹران اور
پروٹان بھی مادے کے سب سے چھوٹے ذرات نہیں ہیں۔ ان سے چھوٹے جز بھی موجود
ہیں۔نئی اسی موضوع پر ہونے والی ریسرچ سے اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوارک
سے بھی اربوں گنا چھوٹا مادہ موجود ہے اور اس اسٹرنگز کے نام سے موسوم کیا
گیا ہے۔اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اتنی تحقیق کے باوجود آج بھی
سائنس نامکمل اور سو فیصد ہدف تک پہنچنے والی دکھائی نہیں دیتی۔
آج الیکٹرانکس میں ترقی کی وجہ سے ڈیٹا کی بڑی مقدار ایک انتہائی چھوٹی جگہ
میں محفوظ کی جا سکتی ہے۔ کمپیوٹر میں انفارمیشن جمع کرنے کی پیمائش روایتی
طور پر کلو بائٹس لکھے گئے کوڈ کو مکمل طور پر پڑھنے اور سمجھنے کےلئے ابھی
بڑی محنت اور لمبی تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد شاید انسانی جسم اور اس کے
افعال کو مکمل طور پر سمجھنے کا دعویٰ کیا جا سکے۔
پھر میگا بائٹس اور اب عموماً گیگا بائٹس میں کی جاتی رہی ہے۔ اس کے بعد
ٹیرا بائٹس، پیٹا بائٹس اور اب ایکسا بائٹس آ گیا ہے ۔اور ایک ایکسا بائٹ
ایک بلین گیگا بائٹس کے برابر ہے۔سائنس کے جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ
کے مطابق دوہزار سات ٢٠٠٧ء میں دنیا میں سٹور ہونے والا ڈیٹااوسطابارہ ملین
ہارڈ ڈرائیو کے مساوی ہے۔بعض اہل دانش نے اس پر بھی لب کشائی کی ہے کہ اگر
یہی سی ڈیز یا ڈرائیو جمع کرلی جائیں تو سی ڈیز کا انبار لگ جائیگا۔جنوبی
کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سائنسدان ڈاکٹر مارٹن ہلبرٹ نے بی بی سی کو بتایا
کہ اگر ہم یہ تمام اطلاعات لے کر انہیں کتابوں میں جمع کریں تو ان کتابوں
کا انبار امریکہ یا چین کے برابر کے رقبے میں پھیل جائے گا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ابھی انسانی معلومات کا دائرہ صرف روئے زمین کے
مظاہر تک محدود ہے۔ انسان نے بمشکل زمین سے باہر نکل کر چاند پر قدم رکھا
ہے۔
یاد رہے کہ کائنات میں سو ارب کہکشائیں موجود ہیں۔ ہر ایک کہکشاں میں
لاکھوں سے لے کر کھربوں کی تعداد میں ستارے موجود ہوسکتے ہیں ۔ایک محتا ط
اندازے کے مطابق کائنات میں ستارے موجود ہیں۔ کیا کل کائنات کے علم کو
احاطہ تحریر میں لانے کے لئے زمین پہ موجود وسائل کافی ہوں گے۔۔؟؟؟
غور کیجئے کہ یہ تمام ستارے، کہکشائیں، بلیک ہولز، نیوٹرون اسٹارز اور اب
تو متوازی کائناتوں کے تصورات بھی آ چکے ہیں، کس کی تخلیق ہیں۔؟ کس نے
انہیں پیدا کیا، کس نے انہیں کائنات میں ان کی جگہوں پر ٹا نگا، کس نے ان
کی گردش اور انکے پھیلاؤ کے اصول و ضوابط وضع فرمائے۔
سائنس کہتی ہے کہ ستاروں پر ایندھن کے جلنے میں فیوژن کا عمل ہوتا ہے۔ وہ
کون ہے جس نے فیوژن کا عمل پیدا کیا۔؟ آج سا ئنسدان کتابوں میں لکھ رہے ہیں
۔ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، آسٹرولوجی، جغرافیہ،جس علم بھی انتخاب کریں ۔
اصلاً تو ہر حرف، اللہ کی تخلیقات، اس کے بنائے ہوئے قوانین سب اللہ کی
باتیں ہیں۔ تنہا اس زمین میں جتنی موجودات پائی جاتی ہیں انہی کا شمار مشکل
ہے کجا کہ اس اتھاہ کائنات کی ساری موجودات ضبط تحریر میں لائی جا سکیں۔۔اس
تمام گفتگو کے بعد ذہن میں یہ بھی خیال آتا ہے کہ کیا سائنس کے راستے پہ
چلتے ہوئے کبھی ایسا ممکن ہوگا کہ کائنات کے تمام اسرار کو سمجھ لیا جائے۔؟
اللہ تعالیٰ کی تمام قدرتوں کو جان اور پرکھ لیا جائے۔؟ تمام سوالات کے
جواب حاصل کر لیا جائے۔؟ کیا انسانی عقل کبھی ان سارے سوالوں کے جواب ڈھونڈ
پائے گی؟؟؟۔ تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان ساری باتوں کا جواب ہے ۔کیونکہ ہم
اللہ عزوجل کے عاجز بندے ہیں اور اس کا دعوٰی کے اس کے علم کا احاطہ کوئی
نہیں کرسکتا اسے بھی تو ثابت کرنا ہے ۔
نتیجہ :اس تمام تحقیق کے بعد ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل خالق
و مالک ہر جن و بشر ہے ۔انسان کی تحقیق کے لیے بتدریج دروزے کھلتے چلے
جارہے ہیں ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ربّ تعالیٰ نے جو دعوٰی فرمایا ہے اسے
ثابت بھی کرنا ہے کہ اے انسان !تیرے تحقیق میری عطا کا مظہر ہے ۔ہم نے تجھے
فہم و فراست دی ،عقل ودانش سے نواز۔یاد رکھ ہماری مخلوق ہے ۔محترم
قارئین!مان لیجیے کہ تحقیق مگر کب تک؟ |