طرز وکالت یہی ہوتا ہے

جناب اعتزاز احسن ایک وکیل ہیں-انہیں جو بھی پیسے دے کر یا بغیر پیسے دیئے اپنا وکیل مقرر کرے گا وہ پوری ایمانداری کے ساتھ اس کی وکالت کریں گے- ان کے پیشے کا یہی تقاضا ہے اور ایک وکیل کا یہی فرض ہوتا ہے- ایک وکیل جب ایک چور یا کسی قاتل کا وکیل مقرر ہوتا ہے تو وہ ہر قیمت پر اپنے موکل کو معصوم اور بے گناہ ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے- جھوٹ وسچ ظالم اور مظلوم کی بحث چھوڑ کر اسے صرف اس بات سے سروکار ہوتا ہے کہ وہ اپنے موکل کو کس طرح سزا سے بچا سکے- خواہ وکیل کو ہزار فیصد یقین ہو کہ اس کا موکل گناہ گار اور لعنتی ہے لیکن اس کے پیشے کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے موکل کو بے گناہ اور معصوم ہی کہتارہے- یہ وہ طرز انصاف یا طریقہ کار ہے جو آج کی دنیا میں رائج ہے- موجودہ سسٹم یا موجودہ جمہوری دور میں جس کے خلاف بات کرنا خود کو بےوقوف اور احمق اور آمرانہ سوچ رکھنے والا کہلوانا سمجھا جائے گا کے خلاف بات کرنا گناہ کبیرہ خیال کیا جاتا ہے اس کا یہی تقاضا ہے کہ اعزاز احسن جیسا رویہ ہی اپنانے کی ضرورت ہیں نہیں مجبوری بھی ہو جاتی ہے- سکہ رائج الوقت یہی ہے کہ اعتزاز احسن ایک بار عدالت میں پیش ہو توکہے کہ صدر کو استثناءحاصل نہیں ہوتا- دوسری بار پیش ہو تو کہے کہ استثناء صدر کا حق ہے-ایک کائناتی سچائی یہ ہے کہ جھوٹے کے کلام تناسخ ہوتا ہے- اس لحاظ سے سب جانتے اور مانتے ہیں کہ وکیل کو پیسے جھوٹ بولنے کے ہی دیئے جاتے ہیں- عدالتوں میں جھوٹ بولا جاتا ہے- سچے‘ درست اور کھرے مقدمہ میں بھی جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں چلتا- اس کی وجہ یہ نہیں کہ وکیل یہی چاہتے ہیں کہ جھوٹ پولیس اور جج حضرات یہ چاہتے ہیں کہ جھوٹ سنیں اور پھر جھوٹوں کے مقابلہ میں جو سب سے بڑا جھوٹا ہے اس کے حق میں فیصلہ صادر کریں- واللہ ہمارا یہ مقصد اور مدعا ہر گز نہیں- ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انصاف کے حصول کا سسٹم اور طریقہ کار جو ہم نے اپنا رکھا ہے اس میں تناسخ کلام اور جھوٹ اس کی ضرورت بن کر رہ گیا ہے- جھوٹ اور تناسخ کلام ایک تقاضا اور ضرورت ہے- اس کے بغیر چارہ نہیں اور ہم اس کے بغیر چل نہیں سکتے- کارروائی رک جاتی ہے اور سسٹم بیٹھنے لگتا ہے- اعتزاز احسن کے کلام میں جو تناسخ پیدا ہوا ہے وہی تناسخ مرزا غلام احمد قادیانی کے کلام میں بھی پایا جاتا ہے لوگ سمجھتے نہیں کہ ایک وکیل کو یہ سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے اور پھر یہ سب کچھ اس کی عادت ثانیہ بن کر رہ جاتی ہے- ایک ہی بات کے حق میں کسی جگہ پر اسے بولنا پڑتا ہے اور دوسری جگہ پر اسی بات کے خلاف اسے بات کرنا پڑتی ہے- مرزا قادیانی کے بارے میں بھی کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ اپنے دعویٰ نبوت سے پہلے عدالت میں بحیثیت ایلمد نوکری کرتے تھے- پھر وکالت کا امتحان بھی دیا تھا لیکن فیل ہو گئے تھے- ایک وکیل کے کلام میں تناسخ ہونا کوئی بڑی بات نہیں- اس کا یہ پیشہ ہے اور یہی اس کے پیشہ کا تقاضا ہے- اس لیے اگر اعتزاز احسن ایک مقدمہ میں یہ دلائل دیتے نظر آتے ہیں کہ صدر کو استثناء حاصل نہیں ہوتا اور دوسرے کسی مقدمہ میں وہ اس بات کے حق میں دلائل دے رہے ہوتے ہیں کہ صدر کو مکمل استثناءحاصل ہوتا ہے تو کوئی بڑی بات نہیں ہے-ہمارے فاضل دوست جناب اعتزاز احسن وکیل ہی مقرر ہوئے ہیں کوئی نبوت کا دعویٰ تو نہیں کر بیٹھے کہ یار لوگ ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ آپ کے کلام میں تناسخ ہے- ایک عدالت میں آپ کچھ کہتے ہیں اور دوسری عدالت میں الٹا موقف بیان کرتے ہیں- آخر ہمارے محترم اعتزاز احسن نے کام بھی کرنا ہے یا نہیں کرنا- ان کی پیشہ یہی ہے- اگر وہ سچ بولیں اور ہر عدالت میں ایک ہی موقف رکھیں تو وہ اپنے پیشے کے غدار کہلائیں گے- دوسری بات یہ بھی ہے کہ اگر گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا- اسی طرح اگر شیریا بھیڑیا گوشت نہ کھائیں تو کیا وہ زندہ رہ سکیں گے- سمجھ جانا چاہئے کہ اعتزاز احسن ایک وکیل ہیں جو بھی ان کو اپنا وکیل مقرر کرے گا اس کے حق میں وہ دلائل دیں گے اس بات سے ان کوکوئی سروکار نہیں ہے کہ وہ اس سے پہلے کسی دوسری عدالت میں کیا کہتے رہے ہیں- عوام کو اپنا کنفیوژن دور کرنے کی ضرورت ہے- اعتزاز احسن بالکل صاف ہیں اور وہ ٹھیک طریقہ سے اپنا کام کر رہے ہیں- اس نظام ‘ طرز حکومت اور انداز انصاف میں یہی کچھ ہوتا ہے اور اس نظام میں یہی کچھ ملتا ہے جس میں نام نہاد دانشور بڑے طمطراق سے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے- اس جمہوریت کے یہی لوازمات ہیں جو ہمارے حصے میں آئے ہوئے ہیں- یہی طرز سیاست ہے یہی طرز انصاف ہے اور طرز وکالت ہے-
Ahmed Ghulam Daud
About the Author: Ahmed Ghulam Daud Read More Articles by Ahmed Ghulam Daud: 14 Articles with 11346 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.