سانحہ سیا چن اور زمینی حقائق

گزشتہ ماہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑاسانحہ ہوا جس میں قوم کے 139فوجی جوان جو شہادت کے جذبے سے سرشار تھے نے اپنے عزم و حوصلے کے مطابق وطن کی خاطر قربانی دی ،سیا چن کے اعصا ب شکن برفانی علاقہ میں انسان اور فطرت کے ما بین نا قابل یقین اور ما ورائے فہم کشمکش اور مسابقت جاری رکھی اور ثابت کر دیا کہ ملک وقوم کی نگرانی کیلئے پاک وج ہر جگہ موجود ہے ۔جہاں تک بات کی جائے اس المناک حادثے کی تو اس میں پاک فوج کے 139افسروں،جو انوں اور سویلین افراد شامل ہیں ان افراد کا تعلق ملک کے چاروں صوبوں،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے ہے ان قیمتی جانوں کو جانی کے لیے ایک طرف عسکری قیا دت نے مشکل ترین صورتحال میں امدادی کاروائیوں کا امکا نی حد تک متحرک نیٹ ورک قائم کیا ہے جس کے تحت فوجی انجینئر زاور ما ہر ین کی سرتوڑکوشش ہے کہ ملبہ کوجلد ہٹا کر قیمتی انسانی جانو ں کو زندہ سلامت نکا ل لیا جائے لیکن اب شاید بہت دیر ہو چکی ہے ۔یاد رہے یہ تقریباً اسی طرز کی غیر معمولی امدادی کاروائی ہے جو چند ماہ قبل چلی کی حکومت نے کئی فٹ نیچے کان میں پھنسے اپنے کان کنو ں کوفاتحانہ انداز میںباہر نکا لنے کےلئے کی تھی ۔خد ا ہمیں اس مشن میں کامیا بی عطاکر ے ۔آمین۔

بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیا نی بھی بارہا اس علاقے کادورہ کرچکے ہیں انہوں نے چند پہلے بھی اس جگہ کا دورہ کیا ہے اور وہاں کاروائی میں حصہ لینے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ، پاکستان سمیت دنیا بھر کے میڈیا کی نظریں بھی اس کاروائی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں،دیگر فوجی حکام اور ماہرین علاقہ میں ریسکیو آپریشن کی نگرانی پر مامور ہیں۔بلاشبہ سطح سمندر سے ہزاروںفٹ بلند یخ بستہ ہواﺅں اور مو سمیا تی شدتوں سے نبر د آزما ان بلند ترین چوٹیو ں میں امن کے دور انئے میں اس درد انگیز سانحہ کی شدت کو عالمی برادری نے بھی محسوس کیا اور اس چیلنج سے نمٹنے میں امریکہ سمیت دیگر ممالک بھی پاکستان کے ساتھ عملاً کھڑے نظر آتے ہیں ۔برطانو ی ہائی کمیشن نے بھی آرمی چیف جنرل اشفاق پر ویز کیا نی سے ٹیلی فون رابط کر کے ریسکیوآپر یشن میں مدد پیشکش کی تھی جسکو بعد میں عملی شکل بھی دے دی گئی ۔چین کے دفتر خارجہ کے ترجما ن لیووی من نے بتایا تھا کہ ان کی ہمدردیاں متاثر ہ خا ندانو ں کے ساتھ ہیں تاہم سیا چن گلیشئر ز میںبرف باری شروع ہونے سے برفانی تودے تلے دبے 128فوجیو ں سمیت 139افراد کونکالنے کیلئے امدادی کاروائیو ں میں رکاوٹوں کاسلسلہ جاری ہے ،خراب مو سم کے باوجود امریکی و دیگربرادر ملکوں کی امدادی ٹیمیں بھی ہفتوں سے جائے حا دثہ پر پہنچ چکی ہیں اور امدادی کاروائیوں مصروف ہیں ۔اطلاعات ہیں کہ تودے میں40فٹ لمبا،30فٹ چوڑا اور 10فٹ گہر ا راستہ بنا لیا گیا ہے اور دبے اہلکا ر وں کا اگرچہ کو ئی سراغ نہیں ملا تاہم امدادی ٹیمو ں نے ابھی امید کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ ا ،بتایا جاتا ہے کہ غیر ملکی امدادی ٹیموں کے پاس ایسے جدید آلات موجود ہیں جو برف کے اندر پچیس سے تیس میٹر اندر تک انسان کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ملکی اور غیر ملکی امدادی ٹیمیں اس مشن میں کامیا بی کیلئے رات دن کوشش کر رہی ہیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق تودے تلے دبے افراد کو نکا لنے کیلئے کوششیں مزیدتیزکر دی گئی ہیں تاہم خراب مو سم کے باعث ہیلی کاپٹروں کی پروازیں متاثر ہونے سے امدادی کام وقتی تعطل کا شکار ہو جاتا ہے ۔ادھر جرمنی کی 6رکنی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور سوئٹزز لینڈ کی 3رکنی ماہرین کی ٹیم ریسکیو آپریشن میں تعاون کیلئے ہفتوں پہلے پاکستان پہنچ کر امدادی کام شروع کر چکی ہے ،جر من ٹیم اپنے ہمراہ ضر وری آلات بھی لائی ہوئی ہے ،جائے حادثہ پر اس وقت 286جوان ،60سویلین 5ہیلی کا پٹر وں،ڈوزرزاور برف کھودنے والی مشینو ں کے ذریعے ریسکیو آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ایس پی ڈی اور این ڈی ایم اے کی امدادی ٹیمیں بھی سیا چن پہنچ چکی ہیں،پاک فوج کے آفیشلز نے دبنے والے افراد کی تعداد 139بتائی ہے جن میں128فوجی اور 11سویلین شامل ہیں۔ترجمان پاک فوج میجر جنرل اطہر عباس نے بتایا کہ تودے تلے دبے جوانوں کے زندہ ہونے کے بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیںکہا جاسکتا ۔تاہم اس سانحہ کے وسیع تر اور سٹریٹجیکل تنا ظر میں میڈیا نے سیا چن کے تنا زع کاپھر سے تاریخی جائزہ لینا شروع کیا ہواہے اور یہ استدلال پیش کیا ہے کہ پاک بھا رت تعلقات کومعمو ل پر لانے اور مسئلہ کشمیر کوحل کر نے کیلئے برسہا برس تک مذاکرات کا اب کوئی نہ کو ئی منطقی نتیجہ ضرور نکلنا چاہئے ۔پاک بھا رت مذاکراتی تاریخ گاہ ہے کہ اب تک وزیر اعظم ،وزیر خارجہ ،خارجہ سیکرٹریز اور دفاعی حکام کے درمیا ن اعلیٰ سطح کے متعد دراﺅ نڈز پر مبنی بات چیت ریکا رڈ کی گئی ،کر کٹ ڈپلو میسی اور اب گزشتہ ماہ صدر پاکستان کی اجمیر شریف یا ترا کے ذریعے با ہمی اعتماد کی نئی اینٹ رکھنے کا عند یہ دیا گیا تاہم ،اہم سیا سی ،دفاعی اور علاقائی تنا زعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے سیا چن ،سرکریک ،بگلیہار ڈیم ،ویزہ کے اجراءادبی کتابوں اور رسائل وجر ائد کی ترسیل ،پاکستانی قیدیوں سمیت دونوں ملکوں کے ما ہی گیر وں کی رہائی پر اتفاق رائے اور دو طرفہ معاہدوں کی پابندی اور ان کے حتمی احترام کا مسئلہ جوں کا توں ہے ۔بلاشبہ صدرکے حا لیہ دورے سے فضاءساز گار ہوئی ہو گی لیکن عام عوام کو اس سے دلچسپی نہیں کہ صدر صاحب یا دیگر اعلیٰ قیادت کہاں کا دورہ کن مقاصد کیلئے کر رہے ہیں (شاید عوام کی ان جمہوری حکومتوں سے امیدیں ابھی پوری ہونا دور تک نظر بھی نہیں آ رہا) اس میں کوئی شک نہیں کہ دو طرفہ تجارت سے ہلکا سابریک تھر و بھی ہو ا ہے تاہم پیش رفت صر ف اسی صورت ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت زمینی حقائق کاادراک کرے اور دیر پاامن ،مفاہمت اور غربت و بے روزگاری کے خا تمہ کو مد نظر رکھ کر نتیجہ خیز مذاکر ات کے لئے اپنا ذہن تیا ر کر ے ۔سیا چن کے محاذ سے اکیلاپاکستان کسی طور غیر مشر وط انخلا کا سوچ بھی نہیںسکتا کیو نکہ جس علاقہ کو ڈی ملٹر ائز کر نے کی بات کی جا رہی اس میںبھا رت نے خو داصولو ں سے انحراف کیا اور سیاچن میں اربوں ڈالرخو د بھی پھو نکے اور دوسری طرف پاکستان کو مو ردالزام ٹھہر اتارہاجس نے اپنی سا لمیت کی خاطر علاقہ میں اپنی پو زیشن بر قرار رکھی ہے، دونوں ملکوں کا بھاری زر مبادلہ اس محاذ پر صرف کیا جارہا ہے اگر دونوں ملک کسی ایک نقطہ پر متفق ہو کر اس پورے محاذ کو ہی فوج سے خالی کر دیتے ہیں تو اس میں دونوں ملکوں کے عوام کی بھلائی ہے ویسے بھی آج ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اس جدید ٹیکنالوجی سے سیٹلائیٹس کے ذریعے سرحدوں کی نگرانی کی جا سکتی ہے ۔ ایک طرف کی لاحا صل شٹل ڈپلو میسی چلنے کا کسی کو کو ئی فائدہ نہیں ہو گا ۔میرا ماننا ہے کہ دنیا بدل اب بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے ۔،ابھی حال ہی میں صد ر زرداری نے سانحہ سیا چن سے ایک دن بعد بھا رت کانجی دورہ کیا ۔پاکستان واپسی کے بعد انہوں نے کہا ہے کہ ہم دنیا سے علیحدہ ہوکر نہیں رہ سکتے ،ہم بھا رت سمیت تما م ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں،بھا رتی وزیر اعظم سے ملاقات میں کشمیر ،پانی اور سیا چن کے مسئلے پر رسمی بات چیت کی ہے پاکستان اور بھا رت کو اب اچھے پڑوسیوں کی طرح مل کر رہنا سیکھنا ہو گا ، اصولی طور پر تو بھارت بھی ہمارا ہے کیونکہ وہاں مسلمان ایک بہت بڑی تعداد میں ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمان ہیں سن کو اکٹھا ہو کر اسلام کیلئے جنگ لڑنی چاہیے لیکن یہ جنگ ایک حکمت علی کے تحت ہونی چاہیے ۔ہم نے یہی پیغا م بھا رت کو دیناہے کہ انسانیت کی بھلائی کیلئے اتنی بھاری تعداد میں خرچ ہونے والے پیسے کو بچا کر اپنے غریب لگوں کی مدد کی جائے اور بے روزگاری کم کی جائے ۔ اصولی طور پرہمسائے آپس میں کبھی تعلقات ختم نہیں کر تے، یہاں صرف چین کی ہی مثال لے لیں اس نے تمام تر کشیدگیوں کے باوجود بھی دنیا بھر سے کاروبار جاری رکھا ہوا ہے اور اب تمام ملکوں کی منڈیوں کی ضرورت چین نے اپنے آپ کو بنا لیا ہے ،ہمیں اپنے بعد آزاد ہونے والے چین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کاروبار پر توجہ دینا ہو گی ۔ اگریہی انداز نظر پاکستان اور بھارت کا ہو جائے تو گا ڑی آگے چل سکتی ہے اور دونوں ملکوں کے عوام بے شمار مسائل سے نجات حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو سکیں گے۔ادھر پاکستان کمیشن برائے انسانی حقو ق نے سیا چن میں تقریباً ڈیڑھ سو افراد کے برف کے تودے تلے دبنے کے واقعہ پر گہر ے دکھ کا اظہار کر تے ہوئے مستقبل میں ایسے سانحوں سے بچنے کیلئے ضروری اقداما ت کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔کمیشن نے کہا کہ ایچ آر سی اس بات کا فوری جائزہ لے کہ سیا چن گلیشئر پر تعینا ت فوجیو ں کو کن حا لا ت کا سا منا ہے اور ان کے تحفظ کے لئے کیا اقداما ت کئے گئے ہیں۔ یہاں ایک خاص بات قارئین کو بتاتا چلوں کہ سیاچن میں جس جگہ یہ گلشیر کا سانحہ رونما ہوا ہے بتایا جاتا ہے کہ اس جگہ پر 800سال سے ایک مسجد تعمیر تھی اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ جگہ اس حد تک خطرناک نہ تھی اس جگہ کے چناﺅ کوفوجی تکنیکی مہارت میں کمی کہا جا سکے ۔ کمیشن اراکین پارلیما ن و دونوں ملکوں کے عوام کے اس مطالبے کو خو ش آئند قرار دیتے ہیں کہ بھا رت اور پاکستان سیا چن کا تنا زعہ مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جائے۔ پاکستان کے حکومتی ذرائع کافی پُر امید ہیں کہ موجو د حکومت کے دور میں بھارت کے ساتھ سیا چن اور سرکریک کے معاملا ت طے پاجائیںگے اور اس کا اعلان من موہن سنگھ کے دور ہ پاکستان کے وقت ہونا بھی متوقع ہے،امید کی جانی چاہیے کہ پاک بھا رت تعلقات تنا زعات کے تصفیہ کی کوششیں زمینی حقائق اور قیام امن کی حقیقی کو ششو ںسے ہم آہنگ ہو ںگی ۔توقع ہی کی جا سکتی ہے کہ سیاچن جیسے دنیا کے بلند ترین محاذ پر قائم مورچوں میں تعینات پاکستانی و بھارتی فوجییوں کو دوطرفہ حکومتی ڈپلومیسی کے ذریعے اس جان لیوا محاذ سے چھٹکارا دلوانے میں کامیابی ہو جائے اور قوم بھر کی دعا ہے کہ موجودہ اس بڑے سانحے سے پاکستانی سرحدوں کے محافظوں کو سلامتی سے محفوظ نکالا جا سکے یا کم سے کم ان کے والدین تک ان کی لاشیں ہی پہنچائی جا سکیں۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66223 views Columnist/Writer.. View More