زمانہ قدیم میں عورت کو کمتر,
جاہل سمجھاجاتا تھا اور لو گ اپنے گھر میں بیٹی پیدا ہو تے کا نام سن کر
لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے تھے اس وقت عورتوں کو کوئی بنیادی ضرورت زندگی
بھی میسر نہیں تھیں اور نہ ہی ان کا کو ئی رتبہ کوئی مقام تھا اس دور میں
عورتوں کو پیدا ہو تے ہی قتل کردیا جاتا تھا اور جو بچ جاتیں تھیں وہ اپنوں
اور زمانے کے ظلم و زیادتی کا شکار ہو تی تھیں بیٹیوں کو پیدا ہو تے ہی
زمین میں زندہ دفن کر دیناتو اس معاشرے میں معمولی بات سمجھی جا تی تھی اور
تو اور اگر کسی عورت کا جیون ساتھی فوت ہو جاتا تو اسے بھی اسی کے ساتھ
زندہ جلا دیا جاتا( انڈیا میں یہ کام آ ج بھی جاری ہے) اور عورت کو ٹشو پپر
کی طرح استعمال کر کے پھینک دینا عام بات تھی جب کہ اس معاشرے کی بدترین
مثالوں کے ساتھ ساتھ ان میں ماں ، بہن بیٹی کا تصور بھی نہیں تھا اور اسی
وجہ سے وہ گناہوں کی دلدل میں گرتے جا رہے تھے والد بیٹی کے ساتھ منہ کالا
کر لیتا تھا تو بیٹا ماں کو بھی اپنی وراثت سمجھتے ہو ئے شیطانی خواہشات کی
بھینٹ چڑھایا کر تا۔ غرض مرد اپنی بہبو، بیٹی بہن سے حرام کاری کر تا تھا
مگر انہی تاریکیوں میں ایک اجالے نے جنم لیا اور کفر کے تمام کے تمام قفل
توڑ ڈالے۔ عورت کو عزت و احترام دیا اور اس کو ماں بہو، بیٹی کا درجہ دے کر
عزت دی ماں کے قدموں میں جنت رکھ کر اسی کی عزت کو سب سے افضل بنا دیا بیٹی
کو رحمت اور بیوی کو سکون بنا دیا تاکہ انسان تمام کے تما م رشتوں کی حرمت
کو محسوس کر تے ہو ئے ان تمام کو بہترین طریقے سے نبھائے۔عورت کی عزت و
حرمت اور بیٹی کے حوالے سے ہمارے پیارے رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ جسکی دو
بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی طرح تربیت کرے اور ان کے فرائض کو بہتر طور
پر نبھائے تو قیامت کے روز وہ میرے ساتھ ایسے کھڑا ہو گا جیسے دو انگلیاں
گویا اسلام نے اس کفر کے اندھیرو ں میں آ کر ایک روشنی کی کرن پید ا کردی
اور عورت کو اس کے حقو ق دیئے جو پہلے زمانوں میں اسے کبھی میسر نہ تھے مگر
ا س کے باوجود آ ج بھی انسان نے چودہ سو سال پہلے جیسی حیو انت نہیں چھوڑی
اور آ ج اس سے بھی بڑ ھ کرظلم و انسانیت سوز واقعات ہماری زندگی کا حصہ
بنتے جا رہے ہیں اور سامنے آ کر ہمارے جسم کے رونگٹے کھڑے کر رہے ہیں جس
میں عورت کو حیوان کی طرح نوچنا ایک اہم پہلو نظر آ رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ
ان واقعات میں حیوانیت نما انسانیت چھپی ہو تی ہے جو تمام کی تما م خرابیوں
کو صرف عور ت کاقصور دے کر خود بری الزمہ اور صاف و شفاف ہو جا تی ہے ایک
ایسا ہی دل سوز واقعہ چند دن قبل دیپا ل پور میں پیش آ یا جہاں ایک شیطان
نے اپنی ہی بیوی کی بہن سے شادی کے چند روز کے اندر اندر ناجائز تعلقات
قائم کر کے اپنی حقیقی بیوی کو طلاق دے کر بھی بیوی کو اپنی حیوانی خواہشات
کا نشانہ بناتا رہا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی سالی (جسے اس کی حقیقی بیوی
کے مطابق وہ اغواءکر چکا ہے)اپنی بیری کے ساتھ ساتھ اپنی سالی کو بھی اپنے
پاس رکھا ہوا ہے تفصیلا ت اس خط میں موجو د ہیں جو میرے کالم نگار دوست
قاسم علی نے دیپالپو ر سے مجھے بھیجی ہیں ۔ قارنین آ پ اسے غور سے پڑ ھیئے
اور آ ج بھی دیکھیں کہ ہم میں کو ن سا شعور آیا ہے یا شیطان کی پیرو کاری
میں ہم نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ؟عورت کو آ ج بھی قائد کے ملک اور اس کے
رفقاءکارکے خوابوں والی زمین پر کیا کیا انسانیت سوز واقعات ہو رہے ہیں اور
آ ج بھی عورت کو ٹشو پیپرکی طرح استعمال کر کے اسے پھینک دینا ایک معمولی
بات سمجھی جا تی ہے اور آ ج بھی انسان اپنے رشتوں کو جانتے بوجھتے کیسی
شیطان کی پیروکاری میں مصروف ہے مکرمی ! میری شادی/رخصتی 22/10/2011کو اپنے
کزن نعیم حسن سے ہوئی لیکن ابھی شادی کو چندہی روز گزرے تھے کہ میرے شوہر
نعیم حسن نے میری چھوٹی بہن ناہید منشا سے ناجائزتعلقات استوارکرلئے
اورمزیدبرآں ان ناجائزمراسم کو قائم رکھنے کیلئے میرے شوہر نے مورخہ
30/11/2011کو ایک طلاقِ ثلاثہ لکھوایا جس میں اس نے لکھاکہ اس نے مجھے تین
بار طلاق طلاق طلاق دے کر اپنی زوجیت سے الگ کردیا ہے اور وہ اس کے نفس پر
حرام ہے لیکن میرے شوہر نے مجھے دیاگیا یہ طلاق نامی خفیہ رکھا اور اور
باوجود اس کے کہ میں طلاق کے بعد اس پر حرام ہو چکی تھی اس نے میرے ساتھ
جنسی تعلقات بدستو قائم رکھے اور میں لاعلمی میں اس کے گھر آبادرہی اس طلاق
کے 16دن بعد 14/12/2011کو نعیم حسن نے میری چھوٹی بہن ناہید کو اغواکرلیا
اورعین جس روز نعیم نے میری بہن ناہید کو اغواکیا اس روز بھی میں نعیم کے
گھر آبادتھی لیکن نعیم کی ناہید کو اغواکرنے کی حرکت سے دلبرداشتہ ہوکر میں
اپنے والدین کے پاس آگئی اس کے بعد میرے غریب اور بوڑھے والدین نے معززین
علاقہ کی مدد سے نعیم کے ورثا سے متعددباررابطہ کیا کہ وہ نہ صرف میری بہن
ناہید کی بازیابی ممکن بنائیں بلکہ ساجدہ کا گھر بھی آباد کریں جس پر نعیم
کے ورثانے کہا کہ ہم ناہید اور نعیم کے بارے میں کچھ نہیں جانتے جبکہ ساجدہ
کا گھر آباد ہونا ناممکن ہے کیوں کہ نعیم ساجدہ کو 30/11/2011کو طلاق دے
چکا ہے یہ سن کر میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی مجھے اوپر تلے کئی صدمات
پہنچے تھے ایک تو طلاق کا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ نعیم نے
مجھے30/11/2011کو طلاق دینے کے باوجودمجھے دھوکے میں رکھا اور اسے خفیہ رکھ
کر16روز تک میرے ساتھ شیطانی کھیل(بظاہر ازدواجی تعلقات)کھیلتارہا
اور14/12/2011کو موقع ملتے ہی میری چھوٹی بہن ناہیدکو اغواکرکے لے گیا جناب
خادم اعلیٰ صاحب اور آئی جی صاحب ملزم نعیم حسن نے میری زندگی کے ساتھ جو
گھناؤنا کھیل کھیلا ہے اس کی نہ تو اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ہی تعزیراتِ
پاکستان میں اس کی اجازت ہے میں نے اس تمام واقعے کی اطلاع بذریعہ درخواست
تھانہ سٹی دیپالپور بھی دی لیکن میری کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی اور اب آپ
کی انصاف پسندی کو دیکھتے ہوئے آپ سے التماس کرتی ہوں کہ آپ مجھے انصاف
دلائیں اور ملزم نعیم حسن کی فی الفور گرفتاری کو یقینی بناتے ہوئے اس کو
قرار واقعی سزا دلوائیں تاکہ آئندہ نعیم جیسا کوئی اوردھوکے باز درندہ اس
طرح کے قبیح جرم سے کسی کی زندگی برباد نہ کرسکے ۔
ساجدہ پروین بیوہ نعیم حسن ضیالدین کالونی یونین کونسل نمبر 103دیپالپور
03017358396
آ ج یہ واقعہ ہمارے روٹھنے کھڑے کر نے کے لئے کافی ہے کہ آ ج شیطان کے
پیروکار کن کن اخلاقی ، اور دینی برائیوں میں گر تے جا رہے ہیں اور تباہی
کے دھا نے پر کھڑے ہیں اور آ ج یہ واقعہ ہمیں پھر سے یہ سو چنے پر مجبور کر
رہا ہے کہ کیا عورت آ ج بھی قبل از اسلا م کی طرح پاﺅں کی جوتی ہی سمجھی جا
تی ہے کیا یہ انسانوں میں نہیں گنی جاتی یا اس کے احساسات، خواہشات ہی نہیں؟
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی بھی خواہشات ہو تی ہیں کہ وہ اپنے مجازی خدا کے
ساتھ مل کر اپنے گھر کو جنت بنائے گی اور اپنی چھوٹی سی دنیا میں دنیا عالم
کی تمام خوشیا ں سموئے گی۔کیونکہ عورت ایک ٹشو پیپر تو نہیں کہ اسے استعمال
کیا اور پھینک دیا جائے اور کوئی کھلونا بھی نہیں کہ اس سے کھیلا جائے اور
جب دل کر ے توڑ دیا جائے اورپھر سے نیاءلے لیا جائے ان سب باتوں سے بڑھ کر
یہ قانون نافذ کر نے والے اداروں اور پویس کے لئے بے بسی کا مقام ہے کہ ان
جیسے شیطان کے پیروکاروں کو وہ اپنے ہاتھ لمبے ہوتے ہو ئے بھی قانون کے
کہٹرے میں نہیں لا سکتے اور ان تمام نام نہاد سماجی تنظیموں کے لئے بھی
داستان عبرت ہے کہ وہ اپنے( ان جیسی عورتوں کے واقعوں کو لے کر) رونے رو رو
کر اندرون ملک اور بیرون ممالک سے کروڑوں روپے ان جیسی مظلوم عورتوں کے نام
پر لیتی ہیں اور پھر اس پیسے سے اپنی عیاشی کی زندگی بسر کر نا اپنے لئے
اعزاز سمجھتی ہیں ان کےلئے یہ ایشو ”ہاٹ کیک“ ہے ان کو بھی حقیقی مدد فراہم
کر نی چاہیئے تا کہ ایک مظلوم عورت اپنے حق کو حاصل کر سکے اور ان سب باتوں
سے بڑ ھ کر یہ واقعہ ہمارے حکمرانوں کےلئے آ نکھیں کھول دینے کے لئیے کافی
ہے کہ وہ ہر وقت انصاف کا رونا روتے نظر آ تے ہیں کہ ہماری پارٹی ایسا کر ے
گی ویسا کر ے گی اور ملک میں انصاف ایسا ہو گا کہ دودھ کی نہریں بہیں گی ۔انصاف
کے علمبرار ہمارے حکمران اس مظلوم عورت کےلئے کیا اقدامات کر تے ہیں وہ
دیکھتے ہیں اور آ نے والا وقت عوام کو اپنے لیڈروں کے عملی اقدامات کے
حوالے سے بتائے گا کہ وہ کیسے مظلوموںکا ساتھ دیتے ہیں - |