ڈاکٹر خالد مشتاق
مریضہ کے پیٹ میں درد تھا۔ اس سے سانس نہیں لی جارہی تھی۔ اسے ایمرجنسی میں
لایا گیا تھا۔ مریضہ کا معائنہ کیا گیا، سانس کی تکلیف دور کرنے کے لیے
انجکشن لگایا گیا، دوا دی گئی۔ یہ مریضہ صبح 9 بجے ایمرجنسی میں آئی تھی،
دوپہر تک کافی حد تک ٹھیک ہوگئی۔ مریضہ کو دمہ کی شکایت تشخیص ہوئی۔ پیٹ
میں درد اس لیے تھا کہ وہ دو دن سے فارغ نہیں ہوسکی تھی۔ یہ مریضہ سندھ کے
ایک دیہی اسپتال میں آئی تھی۔ یہ 2000ءکی بات ہے، میں اس وقت تعلقہ اسپتال
ضلع ٹھٹھہ میں ماہر ڈاکٹر کے طور پر کام کررہا تھا۔ مریضہ اگلے دن بھی آئی،
وہ بہت بہتر تھی۔ اس کی عمر 26 سال تھی۔ مریضہ کے شوہر نے بتایا کہ یہ کل
سے بالکل ٹھیک ہے۔ دوا کے استعمال کے بعد ہمیں یقین نہیں آرہا کہ یہ اتنی
ٹھیک ہوسکتی ہے۔ مریضہ کا نام انیلا تھا۔ یہ لوگ سمندر کے کنارے جھگی ڈال
کر رہتے تھے۔ سمندر یہاں سے 20کلومیٹر دور تھا۔ انیلا کا شوہر مچھلی پکڑنے
کا کام کرتا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہمارے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ شہر
آسکیں۔ نہ ہی وہاں سے گاڑی یہاں آتی ہے۔ ایک ڈاٹسن آتی ہے، اس میں مرد
ٹھنسے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسے جب کہا کہ اگلے ہفتے آئیں تو اس نے کہاکہ یہ ممکن
نہیں ہے، بس آپ دوا لکھ دیں، ہم تو مغل بن شہید کے میلے پر آئے تھے۔ یہ
بابا کی برکت ہے کہ ہم یہاں آئے اور آپ نے بیماری پکڑلی۔ تفصیل معلوم کرنے
پر پتا چلا کہ ان کی شادی کو 8 سال ہوئے ہیں، 5 بچے ضائع ہوچکے ہیں۔ اس نے
بتایا کہ بچے 6 ماہ یا اس سے پہلے ہی ضائع ہوجاتے ہیں۔ اسے بتایا کہ دمہ کی
بیماری میں سانس کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں، جسم میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے،
جب خاتون حاملہ ہوتی ہے تو جسم میں آکسیجن کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ ماں کے
ساتھ بچے کو بھی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے، جب بچے کو آکسیجن کم ملتی ہے تو
وہ کمزور ہوجاتا ہے اور بعض اوقات 6 ماہ کے قریب ماں کے پیٹ ہی میں مرجاتا
ہے۔ اس نے کہاکہ میں آپ کی بات پر اس لیے یقین کرتا ہوں کہ مزار پر آنے کی
برکت سے آپ سے ملاقات ہوئی۔ ایک ماہ بعد وہ آیا، اس نے بتایا کہ بیوی بہتر
ہے۔ میں نے کہا کہ دوا لکھنے سے پہلے میں حمل کے لیے ٹیسٹ (Pregnency Test)
کروا رہا ہوں، اس لیے کہ اگر حمل ہوا تو منہ سے دینے والی دوا مناسب نہیں۔
پیشاب کے ٹیسٹ کرانے پر پتا چلا کہ حاملہ ہے، اسے سمجھایا کہ سانس کے پمپ
کے ذریعے اگر دوا دیں گے تو بچے کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ بڑی مشکل سے وہ
راضی ہوا۔ لیکن پمپ کو براہِ راست دبا کر سانس کی نالی میں دوا لے جانا بہت
مشکل کام ہے۔ اس کے لیے Spacer (ایک پلاسٹک کے ڈبے) کے ذریعے دوا دی جاتی
ہے۔ سندھ کے اس دور دراز علاقے میں یہ نہ ملا۔ پانی کی چھوٹی بوتل لے کر اس
کے نیچے کی طرف سوراخ کیا اور پمپ کو اس میں فٹ کردیا۔ یہ خاتون مریضہ دو
تین مرتبہ چیک اپ کے لیے آئی۔ اس کے یہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ ماں اور بچہ
دونوں صحت مند تھے۔ شادی کے اتنے سال بعد ان کے گھر میں خوشیاں آئیں۔ انیلا
نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب یہ بابا کی کرامت ہے کہ ہم آپ تک پہنچے، میرا شوہر
اور گھر والے بالکل جاہل ہیں، یہ خواتین کو گھر سے نکلنے نہیں دیتے، بیماری
میں بھی نہیں جانے دیتے۔ ان پر ہر وقت غیرت سوار رہتی ہے۔ یہ تو میں نے کہا
کہ بابا کا عرس ہے، یہاں منت مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح وسیلہ بنایا
اور میرا علاج ہوگیا، میرا شوہر آپ کے پاس علاج کے لیے لانے کو تیار نہیں
تھا، میں نے اسے کہا کہ مجھے ہر ماہ بابا کے یہاں حاضری دینی ہے، بابا کا
نام سن کر اس نے اپنے تمام خیالات یعنی غیرت، معاشرتی دباﺅ وغیرہ کو پس پشت
ڈال دیا اور مجھے یہاں شہر لاتا رہا۔ میں اس سے کہتی کہ اب حاضری کے لیے
آئے ہیں تو ڈاکٹر کو بھی دکھا دیتے ہیں، یہ بھی تو ہمیں بابا کے عرس کے
موقع پر ملے تھے۔ اس طرح میرا شوہر جب ہر ماہ مزار پر حاضری کے لیے لاتا تو
اسپتال بھی لاتا۔ اللہ نے ہمیں اولاد عطا کی، یہ سب بابا کے عرس پر آنے کے
نتیجے میں ہوا۔ نہ ہی ہم میلے پر آتے نہ ہی اسپتال آتے۔ انیلا جب پہلے
مہینے آئی تو اسے بتایا کہ ہر روز زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھا کرو۔ اس
نے بتایا کہ اسے درود شریف نہیں آتا، نہ ہی نماز آتی ہے۔ اس نے معلوم کرنے
پر بتایا کہ ہمارے گاﺅں میں کوئی بھی پڑھا لکھا نہیں ہے۔ ایک مرتبہ کراچی
سے کچھ لوگ آئے تھے، انہوں نے قریب میں ایک مسجد بنا کر دی۔ ہم اس وقت بچے
تھے، لڑکوں کے ساتھ میں بھی مسجد میں پڑھنے جاتی تھی، میری عمر اس وقت 11
سال تھی۔ ایک مولانا صاحب اس مسجد میں نئے آئے۔ انہوں نے بہت سختی کی اور
نتیجہ یہ ہوا کہ لڑکیوں کا مسجد میں جانا بند ہوگیا۔ ہماری والدہ و دیگر
خواتین کو بھی نماز پوری یاد نہیں۔ قرآن بھی ہم کو نہیں پڑھنا آتا۔ اسے صرف
اللّٰہم صلے علی اور یامحمد کہنا آتا تھا۔ اس سے کہا کہ تم یہی پڑھا کرو۔
اس کا بچہ بہت خوب صورت تھا۔ اس کا نام انہوں نے مدینہ رکھا۔ اس علاقے میں
خواتین کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں، لڑکے تو مسجد میں جاکر پڑھ لیتے ہیں
لیکن لڑکیوں کے چونکہ مسجد میں داخلے پر پابندی ہے اس لیے وہ قرآن پڑھنے سے
بھی محروم رہتی ہیں۔ اندرون سندھ مساجد میں تو خواتین کے جانے پر پابندی ہے،
لیکن مزاروں اور درگاہوں پر کوئی پابندی نہیں، بلکہ عرس کے موقع پر جسے
مقامی آبادی ”میلہ“ کہتی ہے، خواتین اور بچوں کو شرکت کی نہ صرف اجازت ہے
بلکہ انہیں بہت عزت و احترام حاصل ہوتا ہے۔ میلے کے موقع پر جو عام طور پر
2، 3 دن ہوتا ہے، کھانا درگاہ یا مزار کی طرف سے ملتا ہے، جو عام طور پر
بریانی، کھیر، زردہ وغیرہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گھر والے بھی خواتین اور
بچوں پر میلے میں خرچ کرتے ہیں۔ سرکس، بچوں کی تین ٹانگوں والی سائیکل
کرائے پر ملتی ہیں، کپڑے اور کچن کے سامان سے لے کر ہر چیز کی مارکیٹ لگتی
ہے۔ اس طرح یہ بڑا سوشل جلسہ یا میٹنگ ہوتی ہے جس میں کھانا منتظمین کی طرف
سے ہوتا ہے۔ انیلا نے بتایا کہ ہم گاﺅں میں گھٹ کر رہ جاتے اگر یہ میلہ نہ
ہو تو… ہم سال بھر میلے کا انتظار کرتے ہیں۔ میں یہ سوچنے لگا کہ ایک طرف
یہ میلے ہیں جن میں خواتین و بچے شریک ہوتے ہیں اور جن میں صرف ایک دو وعظ
ہوتے ہیں، لیکن یہاں کوئی کسی کو روکتا نہیں ہے۔ دوسری جانب ہماری مساجد
میں…… شادی کے بعد میری اہلیہ کی خواہش تھی کہ مسجد میں جاکر نماز ادا کریں۔
میں چند مرتبہ لے بھی گیا، لیکن ایسی مسجد تلاش کرنا جس میں خواتین نماز
ادا کرسکیں ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ ایک، دو مساجد میں جگہ مل گئی، لیکن
خواتین کے لیے الگ وضو اور طہارت کی جگہ کا انتظام نہ تھا، صبر کرلیا۔
ہماری خواہش تھی کہ بچوں کو مسجد ساتھ لے جائیں، جیسا کہ مدینہ منورہ میں
مسجد نبویﷺمیں ہوتا ہے۔ میں نے خود مسجد نبویﷺمیں دیکھا ہے کہ ماں باپ بچوں
کے ساتھ آتے ہیں۔ بچے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں کھیل رہے ہیں، ماں باپ
نماز ادا کررہے ہیں۔ میں عمرہ سے واپس آیا تو بچوں کو لے کر نماز ادا کرنے
گیا، دروازے پر ہی ایک صاحب نے روک لیا اور کہا کہ بچوں کو کہاں لے جارہے
ہیں؟ بتایا کہ اذان ہوچکی ہے، نماز ادا کریں گے۔ ان کا لہجہ بہت تلخ تھا،
انہوں نے کہاکہ دوسروں کی نماز خراب کریں گے۔ عرض کیا کہ یہ 5 سال کی عمر
کے ہیں، مسجد نبویﷺ میں تو اس سے چھوٹے بچے آتے ہیں۔ وہ بولے ہمارے بڑے
صاحب نے پابند کیا ہوا ہے کہ بچوں پر نظر رکھیں، وہ نماز خراب نہ کریں، اس
لیے ہم بچوں کے آنے پر سختی کرتے ہیں۔ میری غلطی تھی کہ میرے منہ سے نکل
گیا ”کیا آپ کی مسجد، مسجدِ حرام اور مسجدِ نبویﷺسے زیادہ احترام والی ہے‘
جب وہاں یہ پابندیاں نہیں تو آپ نے کیوں لگائی ہیں؟،، وہ بولا ”ہمیں تو
بڑوں کا حکم ہے۔“ اس واقعہ کے بعد بچے اتنے ڈر گئے کہ کافی عرصے تک وہ مسجد
نہیں جاتے تھے۔ گزشتہ ماہ نومسلموں کے حوالے سے اسکالرز تقاریر کررہے تھے،
اور انہی میں وہ بڑے صاحب بھی تھے جنہوں نے اپنے زیراہتمام مسجد میں نبیﷺ
کی امت کے پھول سے بچوں پر پابندی… اللہ تعالیٰ نے ہر جن و انس میں یہ
ودیعت کیا ہے کہ وہ عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس کا دل چاہتا ہے۔ مجھے
یاد ہے کہ رمضان شروع ہوتا تھا تو بچپن میں ہم سب دوست مل کر مسجد جاتے،
فجر کے بعد کھیلتے، تراویح اکٹھے پڑھنے جاتے، اور اب بھی پہلی دوسری رمضان
کو بچوں کا مساجد میں بہت رش ہوتا ہے۔ یہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاﺅں
کا صدقہ ہے کہ آپﷺ کی امت کے بچوں میں یہ جذبہ موجود ہے۔ اب یہ بڑوں کا
مسئلہ ہے کہ وہ مسجد میں آنے کے بچوں کے اس مثبت جذبے کو پروان چڑھنے دیں
یا کچل دیں۔ اکثر بڑے یہ سمجھتے ہی نہیں کہ بچوں کے جذبات، احساسات، خیالات،
امنگیں، ان کی پسند ناپسند بڑوں سے مختلف ہوتی ہے۔ وہ مسجد میں آکر سنجیدہ
ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتے۔ کاش ہمارے بڑے بچوں کی نفسیات سمجھ سکیں۔ وہ
نفسیات جو دنیا میں انسانوں سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے نبیﷺ نے مدینہ
کے معاشرہ میں عملاً کرکے دکھائی اور صحابہؓ نے بھی اسی طرح انسانوں سے
محبت کرنے، درگزر کرنے والا معاشرہ تشکیل دیا۔ اندرون سندھ، پنجاب، سوات،
کشمیر ہر جگہ خواتین و بچے بڑی تعداد میں مزاروں پر جاتے ہیں۔ یہ سوال
ذہنوں میں آتا ہے، کیوں؟ انسانی فطرت ہے کہ جہاں آزادی ہوگی، عزت ملے گی
اور اس کے علاوہ بہترین کھانا ملے گا وہاں انسان راغب ہوگا۔ کھانے والی بات
پر ہمارے ایک دوست نے حیرانی کا اظہار کیا۔ ہم کراچی اور دوسرے شہروں کے
معاشرے کا جائزہ لیں تو شادی کی تقریب میں بہت شوق سے خواتین اور بچے جاتے
ہیں چاہے رشتہ دار نہ ہوں یا بہت قریبی تعلقات نہ ہوں تب بھی۔ لیکن کھانا
کھلنے کے بعد جو حشر ہوتا ہے، جس طرح یہ کھاتے پیتے مہذب افراد اپنی پلیٹوں
میں بوٹیوں کے مینار کھڑے کرتے ہیں، اس کی اگر مووی بناکر دیکھی جائے تو
عقل حیران رہ جاتی ہے، کیونکہ زیادہ کھانا نکالنے اور زیادہ کھانے کی کوشش
وہ لوگ کررہے ہوتے ہیں جن کے گھر میں بریانی، قورمہ پکتا ہے۔ لیکن دیہاتوں
کے یہ غریب جنہوں نے کبھی بریانی نہ کھائی ہو انہیں 3 دن بریانی کا آسرا ہو
اور تفریح بھی ساتھ ہو تو وہ کیوں پیچھے رہیں! یہ اعصابی تناﺅ کم کرنے کا
موقع ہوتا ہے۔ میں ایک مرتبہ رفیق بھائی (جاتی شہر میں رہتے ہیں) کے ساتھ
مغل بن شہید کے مزار پر شب برات کے موقع پر گیا، رات کے 12 بجے تھے، وعظ
جاری تھا، تقریباً پچاس ساٹھ افراد تھے، لیکن لنگر (بریانی) میں چالیس
دیگیں استعمال ہوئی تھیں۔ ظاہر ہے ان ساٹھ افراد نے تو یہ کھائی نہیں تھیں،
غریب لوگ کھاکر گھروں کے لیے بھی لے گئے تھے۔ اگر غریبوں کے کھانے کے لحاظ
سے کوئی بھی کام کرے تو عرصے تک یاد رہتا ہے۔ آج بھی کشمیر کے علاقوں میں
لوگ الخدمت کو یاد کرتے ہیں۔ الخدمت والے زلزلہ کے بعد ایک ماہ تک مسلسل
لوگوں کو کھانا کھلاتے اور ان کے بچوں کا علاج کرتے رہے۔ اگر معاشرے میں
انسانوں کو علم و آگاہی، امن، چین، سکون کی طرف لانا ہے اور خود بھی پرسکون
زندگی گزارنی ہے تو انسانوں کو آزادی دینے اور ان کی خدمت کے جذبے کے مدینہ
والے اسٹائل کو اپنانا ہوگا۔ اس کے مثبت اثرات سے معاشرے کے افراد اور خود
ہمارے گھرانوں میں سکون، چین آئے گا۔ |