قارئین اگر کسی شخص کا باپ ڈاکٹر،
جج یا بہترین سائنس دان ہو تو اسے اپنے باپ پر بڑا ناز ہوتا ہے وہ پوری
سوسائٹی میں اپنے باپ کی عزت کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور لوگ اس کے باپ کی
وجہ سے اس کی عزت بھی کرتے ہیں اور اسی طرح وہ شخص اگر سوسائٹی میں کوئی
برا کام کرتا ہے تو بدنام بھی اُس کا باپ ہی ہوتا ہے وہ شخص نہیں۔ بے شک
باپ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اولاد کےلئے ایک گھنا سایہ بھی۔ جب
چند ماہ پہلے بندہ نا چیز کے باپ کے جگر میں کینسر کی علامات پائی گئیں تو
پورا گھر پریشانی کی سی کیفیت میں پڑ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمت دی تو ہم نے
اپنے باپ کو لیور ٹرانسپلانٹ کےلئے انڈیا بھیج دیا۔ جہاں اللہ تعالیٰ کے
فضل و کرم سے ناصرف ان کا لیور ٹرانسپلانٹ ہوا بلکہ آپریشن کے بعد ان کی
صحت بھی ٹھیک ہونے لگی۔ پاکستان میں لیور ٹرانسپلانٹ کیوں نہیں ہوا؟ کیا یہ
پاکستان میں ہوتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب کسی اور آرٹیکل کاحصہ
ہوں گے۔ تو انڈیا میں لیور ٹرانسپلانٹ ہوا اور لیور ڈونیٹ کرنے والا بھی
میرا بھائی عمیر الطاف تھا جس نے شیروں والا کام کیا اور باپ کو اپنا
60%جگر پیش کیا مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ لیور ٹرانسپلانٹ
کے بعد جب والد صاحب پاکستان آئے تو انڈین ڈاکٹرز کی یہ ہدایت تھی کہ تین
ماہ کے عرصے تک انھیں کوئی انفیکشن نہ ہو ورنہ بہت مسئلہ ہو جائے گا۔ ان
تین مہینوں میں سے ایک ماہ اور پندرہ دن تو وہ انڈیا میں رہے اور اللہ
تعالیٰ کے فضل سے ٹھیک رہے اب جب واپس پاکستان آئے تو ٹھیک سات دن بعد ان
کے معدے میں انفیکشن ہو گیا جب رپورٹس آئیں تو پتا چلا کہ ڈائریا ہوا ہے،
ہم نے وقت ضائع کرنے کی بجائے انھیں لاہور عمار کمپلیکس ہسپتال میں شفٹ
کروا دیا۔ پہلے دو تین دن تو ہمیں یوں لگا کے ڈائریا ہے چند دن لگیں گے اس
کے بعد ٹھیک ہو جائے گا۔ اُدھر رپورٹس پر رپورٹس ہونے لگیں۔ ٹھیک پانچ دن
بعد والد صاحب کی حالت پہلے دن کی طرح ہی لگی اور اس میں رتی برابر بھی فرق
نہ آیا تو ہم خوف میں مبتلا ہو گئے اور سوچا کہ والد صاحب کو دوبارہ انڈیا
لے جایا جائے جہاں ہیلتھ کیئر عروج پر ہے۔ اس مقصد کےلئے ہم نے اپنے بہنوئی
عمران اقبال کو اسلام آباد کےلئے روانہ کر دیا تاکہ دوبارہ انڈیا جایا جا
سکے اور علاج ہو سکے مگر ہوا کچھ یوں کہ انڈین ایمبیسی نے ویزے دینے سے
انکار کر دیا اور وجہ بتائی کہ پچھلی دفعہ انڈیا سے واپسی کی مہر آپ کے
پاسپورٹ پر موجود نہیں اور آپ غلط طریقے سے پاکستان میں داخل ہوئے ہو پھر
انھیں اس بات کا یقین کروایا گیا کہ ہم لوگ بلکل جائز طریقے سے پاکستان
داخل ہوئے ہیں تو انھوں نے اسے اپنی غلطی مان لی مگر پھر بھی ویزے دینے سے
انکار کر دیا۔ عمران اقبال مایوسی کی سی کیفیت میں واپس لاہور آگئے۔ ادھر
ہسپتال میں والد کو نواں دن تھا اور حالت مزید بگڑتی جا رہی تھی۔ پھر ہم نے
انڈین ڈاکٹرز سے فون پر رابطہ کیا جنہوں نے ہمیں فوراً ڈاکٹر ہسپتال لاہور
میں مریض کو شفٹ کر نے کا مشورہ دیا سو ہم نے ویساہی کیا۔ ڈاکٹر ہسپتال میں
ان کا علاج شروع ہو گیا مگر زیادہ فرق پھر بھی نہ پڑا۔ ہسپتال میں دو ،تین
دن بعد ان کا ڈائریا تو ختم ہوگیا مگر اس وائرس نے جس نے معدے میں انفیکشن
کو جنم دیا تھا قوتِ مدافعت پر حملہ کردیا۔ اب ان کی صحت خراب ہونے لگی،
ساتھ ہی چھاتی میں پانی بھی بھر گیا۔ میرے بھائی اویس الطاف اور میری ماں
جنہوں نے والدِ محترم کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی بھی پریشان ہونے
لگے اور پھر وہی ہوا جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا، والدِ محترم اللہ تعالیٰ
کو پیارے ہو گئے(انا للہ وانا الیہ راجعون)اور ہم ایک شفیق باپ کے سائے سے
محروم ہوگئے ۔ یہاں میں ایک واقعہ بیان کرتا جاﺅں جو نبی کریم ﷺ کے دور میں
پیش آیا۔
حضرت ابو سعید مالک ابن ربیعہ ساعدی(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کہتے ہیں کہ ہم
لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ بنو مسلمہ کا ایک آدمی آیا اس نے
پوچھا کہ "اے اللہ کے رسول ﷺ میرے والدین وفات پا چکے ہیں تو کیا ان کا
کوئی حق میرے ذمے باقی رہ گیا ہے جسے ادا کرنا چاہیے؟" نبی کریم ﷺ نے
فرمایا! "ہاں والدین کے مرنے کے بعد بیٹے پر ان کا یہ حق ہے کے ان کےلئے
دعائے استغفار کرتے رہیں، ان کی وصیتیں پوری کریں، ان سے تعلق رکھنے والے
رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور ماں باپ کے دوست و احباب کی عزت اور
خاطر داری کریں۔"
قارئیں واپس چلتے ہیں اس باپ کی طرف جس کی خوبیاں میں اوپر بتا چکا ہوں یہ
ساری خوبیاں حاجی الطاف حسین میں موجود تھیں اور ہمیں ان کی اولاد ہونے پر
فخر ہے۔
ہماری بھی یہ پوری کوشش ہو گی کہ یہ چیزیں پوری کی جائیں تا کہ ان کی روح
کو سکون مل جائے اور آپ سب سے اپیل ہے کہ مرحوم کی بخشش و مغرت کی دعا
کیجیے گا اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر اور ہمیں صبر عطا فرمائے۔آمین |