کا ئنات کے خالق !
دیکھ تو مرا
آج میری آنکھوں میں
کیسی جگمگا ہٹ ہے
آج میرے ہو نٹو ں پہ
کیسی مسکرا ہٹ ہے
میر ی مسکرا ہٹ سے تجھ کو کیا یا د آیا
میری بھیگی پلکوں پہ تجھ کو کچھ نظر آیا
ہا ں ترا گما ں سچ ہے
ہاں کہ آج میں نے بھی
زندگی جنم دی ہی۔۔۔!
پروین شاکر کی یہ نظم ماں کی تما م خوبصورت جذبوں کی عکا س ہے کہ ماں بننے
کے بعد ہی ماں کی محبت شفقت اور قر با نیوں کا صیح اداراک ہو تا ہے اک نئی
زندگی کو جنم دینا اسے اپنے ہا تھوں میں پہلی بار اٹھا کر پیار کر نا ما ں
کے لیے دنیا کا سب سے قیمتی لمحہ ہو تا ہے جس دکھ وتکلیف کو جھیل کر وہ ماں
بنتی ہے اللہ تعالی نے بطورانعام جنت اس کے قدموں میں رکھ دی ہما رے پیارے
نبی ؐ نے با پ کی نسبت تین گنا زیا دہ حقوق ماں کو عطا دیے ۔
ماں کو قدرت نے نجا نے کو ن سی کیمسٹری سے بنا یا ہے کہ وہ زندگی اپنی
گزارتی ہے مگر عمر کی تمام سانسیں اپنے بچوں میں پیار منتقل کرتی رہتی ہے
اس کا سونا ،جا گنا ،کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا سب اولاد کے لیے ہو تا ہے
وقت گزرنے کا ساتھ اپنی اولا دکے لیے اپنی چا ہتیں ، محبتیں قربا ن کر تی
ہے اپنے ہر عمل سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے یہ تما م جذبے آج کی ماں میں
بھی مو جود ہے مگر آج ان ما ئوں کو خراج تحسین پیش کر نے کو جی چا ہتا ہے
جنھوں نے اپنے بچوں کی بہترین پرورش ،تعلیم وتربیت پر اپنا تن من دھن وار
کر انھیں اس مقا م پر پہنچا یا کہ وہ اپنے ملک وقوم کے لیے با عث فخر ہو
گئے ہمیں ’’بی اما ں ‘‘جیسی ما وئں کی ضرورت ہے جو مو لا نا محمد علی و
شوکت علی جیسے بہا در فرزند قوم کو دیں ،علا مہ اقبا ل کی ’’بی جی‘‘ جیسی
ماں کی چاہت وتربیت چاہیے جو وطن عزیز کو لعل و گہر دے سکیں قائد اعظم جیسی
ذی وقا ر ، نڈر اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہنے والا لیڈر عطا کر سکیں ایسی
بصیرت افروز ماوئں کی جتنی ضرورت موجودہ دور میں ہے اتنی کسی ادوار میں
نہیں تھی ۔
آج کے دور میں ماؤں کی تر جیحات اور سوچ یکسر تبدیل ہو چکی ہے وہ یہ سو چتی
ہیں کہ وہ گھر داری اور بچوں کی تربیت میں وقت گنواکر اپنی شخصیت تبا ہ کر
رہی ہیں انھیں وہ تما م با تیں دقیا نوسی لگتی ہیں جب ما ئیں بچوں کو بڑوں
کا احترام ، چھوٹو ںسے شفقت، تاریخ کی عظیم شخصیات کے قصے ، مذہب کی خوبیا
ں ،جھوٹ سچ اور بے ایما نی سے بچنے کی تر غیب دیا کر تی تھیں ان کے نزدیک
یہ جنک فوڈ، مو با ئل فون ،انٹر نیٹ اور کیبل کا زما نہ ہے آج کادور بہت
فاسٹ ہے لیکن وہ یہ بھول گئیں کہ اس فاسٹ دور کی لگامیں آج بھی قانون قدرت
کے ہا تھوں میں ہے ماہ سال میں کو ئی فرق نہیں ہوا دن آج بھی چوبیس گھنٹو ں
کا ہے سورج آج بھی مشرق سے نکلتا ہے مغرب میں غروب ہو تاہے تو پھر ایسا
کیسے ہو سکتا ہے کہ بچوں کی تربیبت ماں کے بجا ئے کیبل ،انٹر نیٹ کے ذریعے
ہو ۔ما ں کی گود بہترین تر بیت گاہ ہے یہ اصول اٹل ہے ہما رے مشاہدے میں یہ
با ت اکثر آتی ہے کہ جس گھر میں مائیں اپنے بچوں پر خصوصی تو جہ دیتی ہیں
ان کے ہوم ورک سے لے کر دوستوں تک کی تما م با توں کی خبر رکھتی ہیں ان کی
قدم قدم پر رہنما ئی کرتی ہیں وہ بچے زیادہ خود اعتماد اور کا میا ب ہو تے
ہیں لیکن افسوس کہ ایسی مثالی خاندان میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے خرابی کی
یہی جڑ ہے کہ ابلا غ کا عمل ختم ہو تا جا رہا ہے اکثر ما ئیں اولاد کی سر
گرمیوں سے بے خبر بے فکر رہتی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں برائیاں ، چوری
، اسٹریٹ کرائمز ، چھینا جھپٹی، ماردھاڑ کی بر ائیاں تیزی سے پھیلتی جا رہی
ہیں ۔
آج ہمارے ملک کو اچھے سیاست داںاور لیڈروں کی نہیں اچھی مائوں کی ضرورت ہے
جو اس ملک کی آئندہ آنے والی نسلوں کو بہترین تعلیم تربیت دے سکے نپو لین
بو نا پا رٹ نے کہا تھا کہ ’’ تم مجھے اچھی ما ئیں دو میں تمھیں بہترین قوم
دوں گا ‘‘آج مدرز ڈے پر تما م مائوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ انکے آنگن کے
پھول قوم کا مستقبل ہیں انہیں خصوصی توجہ وتربیت کی اشد ضرورت ہے جس طرح
ماں بننا اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہے اسی طرح اولا د کی پروررش و تر بیبت
بھی ماں کے لیے ایک امتحان ہی۔۔ |