تحریر: بنت صابر
اتوار کا دن تھا اوردن کے 10 بجے تھے ۔ میرے بیٹے کو اچانک بہت تیز بخار نے
آ گھیرا تھا۔طبعیت کے بہت زیادہ خراب ہو جانے پر ہم گاڑی میں اسے لے کر
ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے۔ڈاکٹروں نے آرام اور ادویات تجویز کیں اور تقریباً
ایک گھنٹہ کے بعد میں اور میرے شوہر واپس گھر کی طرف آ رہے تھے کہ اچانک
’’مال روڈ ‘‘ پر بہت زیادہ رش دیکھا، پہلے تو یہ خیال ہوا کہ خدانخواستہ
کوئی بڑا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے مگر جب ہماری گاڑی قریب پہنچی تو پتہ چلا کہ
حقوق نسواں کی ایک معروف این جی او نے آج یہاں ’’خواتین واک‘‘ کا اہتمام
کیا ہے اور اسی وجہ سے آدھا گھنٹے تک روڈ بلاک کیا گیا ہے۔بڑے بڑے بینرز
اور خوش نما چارٹوں سے شرکا واک کو خوش آمدید کہا گیا تھا۔ میں نے مڑ کر
پچھلی سیٹ پر بیٹھے اپنے بیٹے کو دیکھا تو وہ سو چکا تھا۔میں نے سکون کا
گہرا سانس لیا۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ اس انتظار کو شاید برداشت نہ کر پانے کی
وجہ اس کا مرض شدید ہو جائے گا۔ اب مجھے اور میرے شوہر کو اس دوڑ کے بعد ہی
انتظار کی کوفت سے نجات ملے گی۔
میں نے اپنا سر سیٹ پر ٹکایا اور سوچنے لگی کہ یہ کیسے نسوانی حقوق ہیں جو
آج عورت کو گھر کی چار دیواری کے باہر دوڑ لگانے سے حاصل ہو رہے ہیں؟؟؟آخر
کیوں آگئی ہیں یہ سڑکوں پر، اپنا آرام اورسکون برباد کرکے.! !! اپنے عزت و
عصمت کو یوں بیچ سڑک پر اچھالنے کے لئے کیوں میڈیا اور این جی او کے خطرناک
ہتھکنڈوں کا شکار ہو گئیں ہیں؟ مجھے وہ خواتین بھی یاد آ گئیں جو مہندی،
چوڑی اور پانچ سو کی لالچ میں کچھ عرصے پہلے مزار قائد میں ہونے والے ’’با
اختیارخواتین ‘‘بنانے والے جلسے میں’’ بے اختیار‘‘ ہو کر ناچ چکی تھیں۔
ہمارے سامنے والی سڑک پر خواتین کا ایک ریلہ سا گزر رہا تھا۔ ان میں ہر عمر
کی عورت شامل تھی جن میں کچھ دوڑ رہی تھیں، کچھ سانس کے پھولنے کی وجہ سے
آہستہ آہستہ چل رہی تھیں اور کچھ بوڑھی عورتیں صرف شرکا واک کی ہمت و حوصلہ
بڑھارہی تھیں۔
یہ وہ مائیں، بہنیں ،بیٹیاں ہیں جو سمجھ رہی ہیں کہ ان کے تحفظ کی دیواریں
تیزی سے پامال ہورہی ہیں اور ان کا تحفظ یہی این جی اوز کر سکتی ہیں جو
حقوق نسواں کی خاطر خواتین کو گھروں سے باہر بلا کر سڑکوں پر یا کسی جلسہ
میں اکھٹا کرتی ہیں! اس خواتین واک میں وہ مائیں بھی شامل ہیں جو بچوں کی
تربیت کے حوالے سے سخت دباؤ میں ہیں وہ بھی یہی سمجھ رہی ہیں کہ ہمارا دباؤ
سڑکوں پر بے حیا بن کر دوڑنے سے ختم ہو گا!
وہ معصوم بچی جسے دنیا میں آئے چند ہفتے ہی ہوئے ہیں اس واک میں شریک تھی۔
شاید یہ سوچ رہی ہو کہ دنیا میں توٓٓآنکھ کھولتے ہی جدوجہد کرنی پڑرہی ہے ۔
اس میں وہ بچیاں بھی ہیں جنہوں نے ابھی اسکول جانا اور پڑ ھنا بھی شروع
نہیں کیا مگر میڈیا نے اسکو وہ کچھ سکھادیا ہے جس میں خوف وخطر بھی ہے اور
ایمان و حیا کو ڈگمگانے والی ترغیب بھی! وہ کم عمر لڑکیا ں اور بچیاں
جوابھی نماز بھی نہیں سیکھ پائی ہیں وہ بھی اس بے حیائی کے ریلے میں بہہ
رہی تھیں ۔ کالجز اور یونیورسٹیز کی طالبا ت شاید اس لیے آ ئی تھیں کہ اس
واک میں شریک ہو کر خواتین کے حقوق کی خاطر جنگ میں حصہ لے رہیں ہیں۔
صنف نازک کی اقسا م اور ان کی آمد کے اسباب پر غور کررہی تھی کہ دو بوڑھی
خواتین ایک دوسرے کو سہارا دیتی چلتی نظرآئیں. ان کوتو گھر بیٹھنے کا جواز
تھا! میں اپنی سوچ پر قابو نہ پا سکی اور فورا ًخیال آیا ان کے اس حساب کا
جو فرشتوں نے لینا ہے. اس وقت کیا عذر تراشوگی ؟کیسے کہو گی ہم نے نوجوان
نسل کے لئے ’’واک‘‘ جیسی عظیم اور انقلاب آفریں ایجاد چھوڑ کر آئیں ہیں۔
اس بھیڑ میں کچھ نوبیاہتا بھی نظرآئیں جو ہاتھوں میں لگی مہندی اور رشتوں
کے تقدس کو پھیکا پڑنے سے بچانے کے لیے اس دوپہر میں نکل آئی ہیں.شاید یہ
سمجھتی ہیں کہ سڑکوں پر ’’واک‘‘ کر کے وہ ان رشتوں کے تقدس کی حفاظت کر رہی
ہیں جو قدرت نے انہیں بخشیں ہیں۔
میں سوچ رہی تھی کہ کاش یہ تماشا جلد ختم ہو جائے، خوامخواہ جلنے اور کڑھنے
سے کوئی فائدہ نہیں۔ مجھے حیا کے منافی مناظر، جملے اور لباس بے آبرو کررہے
تھے،میری روح کو جھلسا رہے تھے۔ہر عمر، ہر زبان، ہر شعبہ زندگی کی نمائندگی
اس جگہ موجود تھی۔ سڑک تنگ پڑرہی تھی اور وقت پر لگا کر اڑ رہا تھا۔
انہیں شاید کوئی بتانے والا نہیں تھا کہ ان کی عزت و آبرو چادر اور چار
دیواری کے اندر رہنے میں ہے۔ انہیں اگر سکون اور آرام چاہیے تو گھر کے اندر
ہی ملے گا۔ انہیںاگر عزت چاہیے تو گھر کے اندر ہی نصیب ہو گی۔ انہیں اگر
حقوق چاہییں تو گھر کے اندر ہی سب کچھ ملے گا۔گھر سے باہر سڑکوں پر آکر بے
حیائی کا پردہ چاک کر کے اچھلنے کودنے سے سراسر نقصان ہے، سراسر ذلت ہے،
سراسر بد بختی ہے۔
میں سوچنے لگی کہہ وہ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں مبارکباد کی مستحق ہیں کہ
جواین جی اوز اور میڈیا کے ان خطرناک ہتھکنڈوں سے کوسوں دور رہتی ہیں۔خود
کی عزت اور چار دیواری کو پامال نہیں کرتی۔کون نہیں جانتا کہ آج خواتین کی
بھلائی اور حسن گھر کی چار دیواری میں ہی ہے سڑکوں پر دیوانہ وار دوڑنے میں
نہیں۔مبارک باد کی مستحق ہے وہ خواتین جو اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے صاف
ستھرا معاشرہ بنانے کی جدوجہد میں اور اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے
میں بھر پور کردار ادا کر رہی ہیں۔جنہیں اپنی اسلامی تعلیمات سے پیار ہے۔
جو خود کو چادر اور چار دیواری میں زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں۔ جو پردہ کی
اسلامی تعلیمات کو دقیانوسی سے تعبیر نہیں کرتیں۔ خوش نصیب ہیں وہ خواتین
جو حقوق نسواں کی ان ڈکھوسلوں کے خود کو دور رکھتی ہیں اور انہیں شیطان کا
ایک پرفریب جال سمجھتی ہیں۔ |